رابعہ میری بہت اچھی دوست ہے وہ ایک اولڈ
ہوم میں اکاؤٹنٹ کے فرائض انجام دیتی ہے۔ میں ان کے آفس پہنچی ، رابعہ
موجود نہ تھی اس کی کولیگ نے مجھے انتظار کرنے کو کہا کہ وہ آدھ گھنٹے تک آ
جائے گی۔رابعہ سے رابطہ کیا تو اس نے بھی انتظار کا کہا۔ میں اسے خفا نہیں
کرنا چاہتی تھی سو انتظار کرنے لگی۔ دسمبر کی ٹھنڈ تھی۔ کمرے سے نکل کر
باہر لا ن میں دھوپ میں آگئی۔ سرسبز لان میں سنہری دھوپ نہایت بھلی لگ رہی
تھی ۔ لان کی باڑھ کے دوسری سمت اولڈ ہوم کے کمرے تھے اور اس کے آگے بڑا سا
برآمدہ تھا جہاں کین کی کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اندر سے ایک ضعیف خاتون
نکلیں ایک ہاتھ میں عصا تھامے ڈگمگاتے قدم ،شاید وہ بھی دھوپ کی تلاش میں
آئی تھیں۔ ایک دم ان کا توازن بگڑا اور وہ زمین پر بیٹھ گئیں۔ میں جلدی سے
ان کی طرف بڑھی اور ان کو سہارا دے کر کرسی پہ بٹھایا ۔ انہوں نے ممنونیت
بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر شکریہ ادا کیا ان کا
سلجھا ہوا انداز مجھے بھایا میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ مجھ سے میرے بارے
میں پوچھنے لگیں میرے یہ بتانے پہ کہ میں ایک ٹیچر ہوں وہ بہت خوش ہوئیں۔
اپنے خیالات میں کھو گئیں۔ ان کے چہرے پہ الوہی مسکراہٹ پھیل گئی۔ تمھیں
پتا ہے میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے سے ریٹائر ہوئی تھی۔ میں نے چونک کر انہیں
دیکھا اور بے اختیار منہ سے نکلا پھر اولڈ ہوم ؟ بس بیٹا حالات کی ستم
ظریفی اور اپنوں کی لا پرواہیاں ہیں۔ کیوں میں بچوں کو تکلیف دوں زندگی تو
بیت ہی گئی ہے اب میں ان کے کام نہیں آسکتی تو بوجھ کیوں بنوں۔ واہ ری خدا
کی قدرت ماں میں کیسا خمیر ہے کہ وہ ہر حال میں اولاد کی خیر مانگتی کہ خود
تکلیف میں بھی ہو مگر یہ نہیں چاہتی کہ اس کی اولاد کوگرم ہوا بھی لگے یہ
ہے ماں۔ میں نے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ انہوں نے دھیمے سے مسکراتے
ہوئے میرا ہاتھ دوسرے ہاتھ سے تھپکا ان کی مسکراہٹ میں درد چھپا ہوا تھا
پھر انہوں نے خلا میں دیکھتے ہوئے ایک آہ بھری میرے شوہر محکمہ زراعت کے
اٹھارویں گریڈ کے آفیسر تھے۔ ہمارے چار بچے ہیں ایک بیٹی اور تین بیٹے بیٹی
بڑی تھی اس کی شادی کر دی وہ انگلینڈ ہوتی ہے۔ اس کے دو بیٹے ہیں۔ اب تو
بڑے ہو گئے ہوں گے ماشااﷲ ان کا لہجہ معصومانہ ہو گیا۔ ایک بیٹا امریکہ
ہوتا ہے اپنی فیملی کے ساتھ اور باقی دو جرمنی ہیں۔ اﷲ بخشے جب میرے شوہر
کا انتقال ہوا تب کچھ عرصہ بعد میں ریٹائر ہوگئی۔ بچے باہر جانا چاہتے تھے
،ریٹائرمنٹ کا پیسہ انہیں دیا بڑا امریکہ اور منجھلا جرمنی چلا گیا۔ چھ ماہ
بعد اپنی بیویوں کو بھی لے گیا۔ سب سے چھوٹا بھی جانا چاہتا تھا مگر گنجائش
نہیں بن رہی تھی۔ میرے پاس بھی کچھ نہ بچا تھا جو میں ان کے ہاتھ پہ رکھتی۔
اس کا موڈ خراب رہتا۔ میرے بس میں کیا تھا جو میں کر پاتی مجبور تھی۔ نہ
زیور تھا نہ رقم جو اسے دے کر راضی کرتی ۔
پھر ایک دن وہ مسکراتا ہوا آیا اور بڑے لاڈ سے میرے گلے میں بازو ڈال دیے
امی میرا جرمنی جانے کا انتظام ہو گیا۔ میں بھی اس کو خوش دیکھ کر خوش
ہوگئی۔ انتظام کہاں سے ہوا کیسے ہوا مجھے خبر ہی نہ ہوئی اور شہزاد جرمنی
چلاگیا۔ اسے گئے تین ماہ گذر گئے۔ایک دن میں بیٹھی تھی کہ اس کا فون آیا
امی میں سعدیہ اور بچوں کا بلانا چاہتا ہوں میرا ان کے بغیر دل نہیں لگتا۔
میں چپ سی ہوگئی ۔تم خود سوچو میرے بیٹے کو اپنے بیوی بچے یاد آتے ہیں مگر
میں بھی تو ماں تھی کیا مجھے اپنابیٹا اور باقی بچے یاد نہیں آتے تھے ان کی
آنکھوں اور لہجے میں نمی اتر آئی۔ ایک ماں کا دکھ اس کے لہجے اور آنکھوں سے
بہہ رہا تھا۔ چند دن بعد وہ تین دن کے لیے آیا کہ بیوی بچے ساتھ لے جا سکے۔
اگلے دن اس کی فلائٹ تھی رات وہ میرے پاس آیا اور کہا امی ہم کل صبح جا رہے
ہیں۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم خوش۔ میرا کیا ہے پینشن سے گذارہ ہو
جائے گا۔ سکینہ بی ہے میرے پاس یہیں سو جایا کرے گی۔ وہ امی اصل میں میں نے
یہ مکان بیچ کر ہی جرمنی جانے کا انتظام کیا تھا اور تین ماہ کا وقت لیا
تھا۔ یہ سن کر میرے پاؤں تلے سے زمیں نکل گئی نہ چھت رہی نہ پاؤں کی زمیں
،چار جوان مضبوط بچوں کی ماں بے سائباں ہو گئی۔ اگلے دن وہ مجھے یہاں چھوڑ
گیا بارہ برس بیت گئے ہیں انہوں نے پلٹ کے خبر نہ لی جہاں رہیں خوش رہیں
میں ان کے لیے دعا کرتی ہوں کہ اﷲ ان کے بچے سعادت مند ہوں اور ان کو کوئی
ایسا دکھ نہ ملے۔ وہ اپنی آنکھیں دوپٹے کے پلے سے صاف کر کے کھڑی ہوگئیں
اچھا بیٹا نماز کا وقت ہوگیا وہ میرے سر پہ ہاتھ کر آہستہ آہستہ عصا کے
سہارے اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ |