احمد بن طولون کو اپنے حوض کے پاس ایک بچہ
پڑا ہوا ملا ۔ اس نے اس کو اٹھالیا ، اس کی پرورش اور دیکھ بھال بڑی توجہ
اور جانفشانی سے کی ، اس کا نام احمد رکھا ، جو بعد میں ’’ احمد یتیم ‘‘ کے
نام سے مشہور ہوا ۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کو ذہانت و فطانت اور ظاہری و باطنی
خوبیوں سے خوب نوازا تھا ۔ احمد بن طولون کا جب آ خری وقت آیا تو اس نے
احمد یتیم کو اپنے بیٹے ابو الجیش کے سپرد کردیا ۔
احمد بن طولون جب دنیا سے رخصت ہوا تو ابو الجیش نے احمد کو بلا کر کہا :’’
میں تمہیں اپنے یہاں ایک منصب پر فائز کرنا چاہتا ہوں، لیکن میری یہ عادت
ہے کہ میں کسی شخص کو کوئی ذمہ داری سپرد کرنے سے پہلے اس سے یہ عہد و
پیمان لیتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ کسی قسم کی خیانت کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔
احمد یتیم نے عہد کرلیا ، تو ابو الجیش نے اس کو اپنے مال واسباب کا نگران
اور تمام حشم و خدم کا امیر مقرر کردیا ۔ ابو الجیش احمد یتیم کا بڑا خیال
رکھتا تھا ۔ احمد یتیم نے بھی اپنی ایمان داری ، صاف گوئی ، خدمت اور
دیگراعلیٰ صلاحیتوں کے ذریعہ اس کے دل کو موہ لیا تھا، یہاں تک کہ وہ اپنے
گھریلو امور کے سلسلے میں بھی اس پر اعتماد کرتا تھا ۔
ایک دن اس نے احمد یتیم سے کہا : ’’ میری فلاں باندی کے کمرے میں جاؤ،جس
جگہ میں بیٹھتا ہوں وہاں ایک موتی رکھا ہوگا اسے لے کر آؤ‘‘احمد یتیم جب اس
کمرے میں داخل ہوا تو اس نے امیر ابو الجیش کی چہیتی اور خاص لونڈی کو ایک
خادم کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں پایا ۔ خادم نے جب احمد یتیم کو دیکھا
تو نکل بھاگا ۔ لونڈی احمد یتیم کے پاس آکر اسے بھی پیش کش کرنے لگی ۔ احمد
یتیم نے کہا : ’’ اﷲ کی پناہ ! میں اپنے محسن کے ساتھ خیانت نہیں کرسکتا ۔میں
نے اس کے ساتھ عہد کر رکھا ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے موتی اٹھایا اور امیر کی
خدمت میں جاکر پیش کردیا۔
احمد یتیم کے لونڈی کے یہاں سے اس طرح چلے آنے کے بعد وہ شدید ڈر اور خوف
میں مبتلا ہوگئی کہ کہیں وہ امیر کو خبر نہ کردے ۔ مگر جب کچھ دن اطمینان
سے گزر گئے اور امیر کے مزاج میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نظر نہ آئی تو
لونڈی کے خوف میں کچھ کمی واقع ہوئی ۔ لیکن پھر ایسا اتفاق ہوا کہ امیر نے
ایک نئی لونڈی خرید لی ، اور اس کو سب سے زیادہ چاہنے لگا ۔طرح طرح کے
انعام و اکرام سے نوازنے لگا ۔ پہلی لونڈی نے جب یہ صورت حال دیکھی تو وہ
دل ہی دل میں کڑھنے لگی ۔اس نے یقین کرلیا کہ ضرور احمد یتیم نے میری خیانت
کا ذکر امیر سے کردیا ہے۔ لہٰذا اس نے احمدیتیم سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔
چنانچہ ایک دن وہ روتی ہوئی امیر ابو الجیش کے پاس آئی اور دھاڑیں مار مار
کر کہنے لگی: ’’ احمد یتیم نے میری عزت سے کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ ‘‘ امیر
نے جب یہ سنا تو غیظ و غضب سے کانپنے لگا اور فوراً اس کو قتل کرنے کا
ارادہ کرلیا۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر اپنے ارادے کو مؤخر کیا۔ اپنے ایک قابل
اعتماد خادم کو بلاکر کہا : ’’میں ایک شخص کو سونے کا طشت دے کر تمہارے پاس
بھیجوں گا ، وہ جب تم سے آکر کہے کہ اس طشت کو مشک سے بھر دو تو تم اس کو
قتل کرکے اس کا سر طشت میں ڈھانپ کر میرے پاس لے آنا۔ ‘‘ چنانچہ امیر نے
اپنے خواص اور مقربین کی ایک محفل جمائی ، مشروبات کا دور چلنے لگا ۔ احمد
یتیم بھی اس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا ، وہ بڑا پر سکون اور ہشاش بشاش تھا ،
اس کے چہرے پر کسی قسم کی کوئی پریشانی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اتنے میں امیر
نے ایک طشت احمد یتیم کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا : ’’ احمد یتیم ! یہ طشت فلاں
خادم کے پاس لے جاؤاور اس سے کہو کہ امیر نے اس میں مشک بھرنے کا حکم دیا
ہے۔‘‘
احمد یتیم طشت لے کر چل پڑا، راستے میں جب وہ باقی خدام و مصاحبین کے پاس
سے گزرنے لگا تو انہوں نے اس کو روک لیا اور مجلس کے بارے میں پوچھنے لگے ۔
احمد یتیم نے جان چھڑانے کی کوشش کی اور کہا : ’’ مجھے امیر نے کسی کام سے
بھیجا ہے۔ ‘‘ لیکن انہوں نے احمد یتیم کی ایک نہ سنی اور کہا : ’’ کسی
دوسرے کو بھیج دو ، جب وہ لے آئے تو پھر تم امیر کی خدمت میں لے جانا۔
‘‘چنانچہ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس کی نظر اس خادم پر پڑی جس کو اس نے
باندی کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دیکھا تھا ۔ احمد یتیم نے اسے طشت
تھماتے ہوئے کہا : ’’ فلاں خادم کے پاس جاکر اس سے کہو کہ امیر نے حکم دیا
ہے کہ اس کو مشک سے بھر دو۔ ‘‘خادم نے جاکر اسی طرح کہا ۔ چنانچہ امیر کے
حکم کے مطابق خادم خاص نے اس کا سر کاٹا اور طشت میں ڈھانپ کر چل پڑا ۔
راستے میں احمد یتیم نے اس سے طشت لے لیا اور اس سے بے پرواہ ہوکر کہ اس
میں کیا ہے ٗ امیر کی خدمت میں جاپہنچا ۔ امیر نے جب اسے طشت لئے زندہ
سلامت اندر آتے دیکھا تو حیرت سے کبھی احمد یتیم کو دیکھتا توکبھی طشت کو ۔
احمد یتیم نے طشت امیر سامنے رکھا اور کپڑا ہٹایا تو اس کی آنکھیں کھلی کی
کھلی رہ گئیں ، اب وہ بھی گم صم تھا ، کبھی طشت میں رکھے انسانی سر کو
دیکھتا تو کبھی امیر کو۔ جب اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو بے اختیار پکار اٹھا :
’’ یہ کیا ہے ؟۔ ‘‘ امیر خود اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔
بالآخر اس نے امیر کے پاس سے طشت لے کر جانے سے واپس آنے تک کی ساری کار
گزاری سنائی اور اس کے علاوہ کسی بات سے لاعلمی کا اظہار کیا ۔
امیرنے احمد یتیم کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا : ’’ تم اس کے متعلق ایسی
کوئی بات جانتے ہو جس کی وجہ سے یہ اس انجام تک پہنچا ہے ؟۔ ‘‘احمد یتیم نے
کہا : ’’اے امیر! اس نے ایک خیانت کا ارتکاب کیا تھا جس کا آج اسے خمیازہ
بھگتنا پڑا ہے ۔میں نے آپ کو اطلاع نہ دے کر اس کے جرم کی پردہ پوشی کی
تھی۔ ‘‘ پھر اس نے اوّل سے آخر تک ساری کہانی امیر کو سنا ڈالی۔ امیر نے
لونڈی کو طلب کیا اور اس سے تفتیش کی تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا
اور احمد یتیم کی پاک دامنی کی تصدیق کی ۔ امیر نے لونڈی کو احمد یتیم کے
سپرد کرتے ہوئے اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا ۔چنانچہ اس لونڈی کو قتل
کردیا گیا ۔ اس واقعہ کے بعد امیر ابو الجیش کی نگاہ میں احمد یتیم کی قدر
و منزلت مزید بڑھ گئی اور اس نے تمام امور کی زمام تصرف اس کے حوالے کردی ۔ |