آٹھ اکتوبر2005ء کے قیامت خیز زلزلہ کی
نشانیاں یوں تو جا بجا آج بھی باقی اور ہر دیکھتی آنکھ کو واضح نظر آتی ہیں
لیکن آج زلزلہ کو جب گیارہ سال پورے ہوئے تو بڑے بڑے بزنس مینوں، اشرفیہ،
اور لیڈروں کی جانب سے مختلف اخبارات میں دیے گئے لمبے لمبے اشتہارات کو
دیکھ کر وہ ٹوٹے ہوئے گھر وہ بکھری ہوئی لاشیں وہ ملبے تلے دبے ہوئے ذخمی
بچوں اور بزرگوں کی چیخیں وہ پورا ہولناک منظر یاد آگیا جب عالمی دنیا سے
آنیوالے امدادی جہاز کھانے پینے کی اشیاء کمبل اور دیگر امدادی سامان پرواز
کرتے ہوئے زمین پر گرا رہے تھے جب پوری دنیا سے زلزلہ سے تباہ ہو جانے والے
گھروں اور دیگر ادارون کی تعمیر نو کے لیے مالی امداد آ رہی تھی بین
الااقوامی مالی امداد کے باوجود لاکھوں اداروں کی تعمیرات اب تک مکمل نہ
ہوسکی کچھ ادارون کی عمارات کی تعمیر تو شروع بھی نہ ہو سکی اور کچھ کا کام
التوا میں ہی رہ گیا بین الااقوامی امداد کہاں گئی اور تعمیر نو کا کام نہ
ہونے کا ذمہ دار کون ہے جب ریڈیو ٹیلی ویژن اور دیگر میڈیا پر فی گھر مناسب
مالی امداد کا اعلان کیا گیا بہت سے لوگوں نے سوچا اور امید لگا لی کے اس
مالی مدد سے کم از کم بچوں کے لیے چھوٹا سا گھر جس میں وہ سر چھپا سکیں تو
تعمیر ہو جائے گا لیکن بد قسمتی سے بہت سے گھرانے اس وقت بھی پسند نہ پسند
کی بنیاد پر نظر انداز کر لیے گئے اور یوں اس بین الا اقوامی امداد میں
کرپشن کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ بڑھتا چلا گیا کسی کو مالی امداد ملی تو
کوئی اس سے مستفید ہی نہ ہو سکا جس کو ملی اس کو بھی اس طرح اقساط میں ملی
کے سردی میں ٹھٹر ٹھٹر کے جس نے گھر کی بنیاد ڈالی جب تک اس کو دیواریں
بنانے کے لیے دوسری قسط ملتی اس کی بنائی گئی بنیادیں کمزور پڑ چکی تھیں
پھر جس نے دیواریں بنا ہی ڈالیں اس کو چھت کے پیسوں کے لیے مہینوں انتظار
کرنا پڑا اور کچھ لوگوں کو تو آج تک کچھ بھی نہ مل سکا حکومت پاکستان نے
بہتر اور بر وقت تعمیر نو کے لیے ERRA جیسے ادارے کے ساتھPERRAاورSERRA
جیسے صوبائی اداروں کو بھی تشکیل دیا ابتدائی طور پر بہتر اور بروقت تعمیر
کے لیے پانچ سال کا منصوبہ بنایا گیا اور اس مدت میں جب کام نہ ہو سکا تو
مدت بڑھا کر دو سال کا اضافہ کیا گیا پھر بھی کچھ نہ ہو سکا تو مدت دوبارہ
بڑھائی گئی لیکن بڑے افسوس کے سات کہنا پڑتا ہے کے گیارہ سالوں میں بھی
تعمیراتی کام کہیں تو شروع ہی نہ ہو سکا تو کہیں ادھورا ہی رہ گیا یوں
عالمی مالی امداد کہاں گئی اس امدادی رقم سے محترمہ بینظیر بھٹو کے نام سے
منسوب ۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پچپن ارب کی خطیر رقم منتقل کر لی
گئی اور BISPبینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اپنی یہ حالت ہے کہ آج بھی مختلف
موبائل فونز کے زریعے لوگوں کو نو سربازوں کے آےء روز پیغامات موصول ہوتے
ہیں کے آپ کا نام رجسٹرڈ تھا اور اس پروگرام میں آپ کے پیسے نکل آئے ہیں آپ
اس نمبر پر فون کر کے اپنی تفصیلات لکھوائیں اور رقم لے جائیں اور ادارے نے
آج تک کبھی بھی میڈیا پر ان نو سربازوں کے خلاف کوئی پریس ریلیز تک جاری
نہیں کی گویا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ان سب باتوں سے بے خبر ہے اور یوں
زلزلہ زدگان کے نام آنیوالی عالمی امداد اس ادارے کی جانب سے پسند نہ پسند
کی بنیاد پر لوگوں میں بٹنے لگی اس کے بعد پاکستان میں جب سیلاب آیا تو اسی
رقم کا ایک بڑا حصہ چالیس ارب اس کی مد میں منتقل کر لیا گیا 2009ء میں ایک
درخواست برائے کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں داخل کی گئی جسے ERRAکی
طرف سے یقین دہانی پر موخر کر دیاگیا یوں سالوں سال زلزلہ کی برسی کی نسبت
سے اشرفیہ اور دیگر ادارون کی جانب سے یہاں تک کے حکومتی اشتہارات تو چلتے
رہے لیکن کام کچھ بھی نہ ہو سکا اور ہوا میں تعمیر ہونے والے امدادی قلعے
ہوا میں ہی رہ گئے جن کا زمیں پر لائے جانے کا نہ دور دور تک کوئی امکان
نظر نہیں آتا یوں بھی سچ بولنے پر یہاں سولی چڑھنے کا خطرہ تو رہتا ہے لیں
کچھ لوگوں کو سچ کہنے کی عادت نہیں چھوٹ سکتی میں ہمیشہ ٹھیک ٹھیک نشانے
لگایا کرتا ہوں اور اب کی بار بھی ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کی کوشش کی ہے اور
میں ہمیشہ ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتا رہوں گا اگر آپ کو بھی میری طرح سچ بولنے
اور ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کی عادت ہے تو میں بس اتنا ہی کہوں گا ۔۔،،اپنا
خیال رکھیے گا ،، |