میڈیا معاشرے کی آنکھ اور کان کی حیثیت
رکھتا ہے اس لئے اس کو معاشرے کا آئینہ بھی کہتے ہیں دور جدید میں اس کی
اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے ریاست کا چوتھا ستون کہا گیا مگر بدقسمتی سے تمام
بڑے ادارے ایک ایجنڈے کے تحت اپنا کام کررہے ہیں جس کو اصطلاح میں Agenda
Setting کہتے ہیں ۔۔۔ ملک بھر میں اگر اخبارات کو دیکھا جائے تو یہ بھی
خبروں کے حصول اور دوڑ میں سب سے آگے رہنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔۔۔تاہم
گلگت بلتستان کے اخبارات نسبتاً اس افراتفری سے دوررہے ہیں کیونکہ گلگت
بلتستان کی سیاست قومی سیاست کے دائرے سے باہر ہے ۔۔۔ یہاں پر حل نہ ہونے
والے علاقائی مسائل اور ترقیاتی کاموں کا جمود ، مقامی سیاستدان اور
نمائندے شروع ہی سے اخبارات کی زینت رہے ہیں ۔۔۔۔۔قومی سیاسی دائرے میں
شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے اخبارات میں قومی سیاست کے ایشوز پر بہت کم
جگہ ملتی ہے ۔۔۔۔
پرنٹنگ پریس کے ایجاد ہونے کے ساتھ ہی مقتدر حلقوں نے اس بات پر سرجوڑ لیا
تھا کہ میڈیا معاشرے میں حکمرانوں کے لئے خطرہ بنے گا جس سے معاشرے میں
افراتفری پھیل جائے گی اس افراتفری اور اپنی حکمرانی کو بچانے کے لئے اس
وقت ضابطہ اخلاق بنایا گیا جس کے مطابق میڈیا مقتدر حلقوں (حکومت ) پر
تنقید نہیں کرسکتی ہے اور حکومت پر تنقید قابل گرفت عمل ہے ۔۔۔یہ ضابطہ بڑے
عرصے تک چلتا رہا یہ ضابطہ اب بھی دنیا کے کئی ممالک پر لاگو ہے اس ضابطہ
کی وجہ سے عوام کی آواز حکومت تک نہیں پہنچ سکتی اور حکمران عوامی مسائل سے
بے خبر ہوتے ہیں خصوصی طور پر ایسے معاشرے جہاں پر حکمران عوام کے ووٹ سے
منتخب ہوتے ہیں ان مسائل کے لئے یہ ضابطہ ایک اہم مسئلہ رہا ۔۔۔۔۔۔ امریکہ
کے تیسرے صدر اورچند مفکرین نے نیا نظریہ پیش کیا جس کے مطابق میڈیا وہ کچھ
چھاپ سکتا ہے جو وہ چھپنے کے قابل سمجھتا ہے ۔۔۔۔ امریکی صدر نے میڈیا میں
چھپنے والی خبروں کو اپنی حکومت کی بنیادی ستون کی حیثیت دیدی ۔۔۔۔۔اس
ضابطہ کے سامنے ملکی سلامتی سمیت کوئی بھی چیز ایسی نہیں تھی جس پر میڈیا
تنقید نہیں کرسکتی ہے یہ ضابطہ اب بھی ناروے فرانس سمیت کچھ ممالک پر لاگو
ہے اس ضابطے میں ان صحافیوں کے پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہوتا
ہے جو کسی کو نقصان دینا چاہتے ہوں ۔۔۔۔ آزادانہ نظریہ کے اس ضابطے سے ایسے
تمام ممالک متاثر ہوئے جن کی خارجہ پالیسیاں ، دفاعی امور، مذہبی امور سمیت
ملکی سالمیت کے کئی امور کو خفیہ رکھا جاتا ہے جن میں تیسری دنیا کے ممالک
شامل ہیں ۔۔۔دو متصادم نظریات کے بعد 20ویں صدی میں درمیانی نظریات پر
مشتمل ضابطہ پیش کیا گیا ۔۔۔۔ اس ضابطہ کی بنیاد سماجی زمہ داریوں پر رکھی
گی یعنی صحافی کو اپنی خبر لکھتے وقت اس بات کو زہن میں رکھنا چاہئے کہ اس
سے معاشرے پر کیا اثرات پڑینگے ، اس سے ملکی سالمیت ، دفاع اور دیگر اہم
امور پر کیا اثرات مرتب ہونگے ۔۔ سماجی زمہ داریوں پر مشتمل یہ ضابطہ
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک پر عملدرآمد ہورہا ہے اور سب سے زیادہ چلنے
والا ضابطہ ہے ۔۔۔۔۔
مشہور قومی اخبار ڈان میں چھپنے والی خبر صرف اسی لئے قابل گرفت بنی ہوئی
ہے کیونکہ اس سے دفاعی امور پر مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔۔۔۔ اگر چہ اس خبر کے
اسرار و رموز پر پہنچنے کے بعد یہی نتیجہ اب تک حاصل رہا ہے کہ یہ خبر
’فیڈ‘ ہے کسی نے جان بوجھ کر اسی انداز کی خبر بنوائی ہے اور چھپوائی ہے
۔۔۔ایسی خبریں پہلے رپورٹر ، پھر سب ایڈیٹر، ایڈیٹر حتیٰ کہ مالک تک پہنچنے
کے بعد اخبار میں چھپتی ہیں۔۔۔۔وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خلاف ’کشمیر ی‘ ہونے
کی وجہ سے جاری میڈیا سمیت سوشل میڈیا میں چلنے والی مہم بھی میری دانست کے
مطابق یہی ہے کہ اس میں سماجی زمہ داریوں کو پامال کیا گیا ہے ۔۔۔۔ جس دوست
صحافی نے یہ خبر بریک کی کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے کشمیریوں کے ساتھ
اظہاری یکجہتی کے لئے آل پاکستان حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کے دفتر
کا دورہ کیا اس موقع پر انہوں نے ’مبینہ ‘طور پر کہا کہ 2فیصد کشمیری
98فیصد گلگت بلتستان والوں پر حکمرانی کررہے ہیں ۔۔۔اور ساتھ میں انہوں نے
یہ بھی کہا کہ کشمیریوں کی سیاسی بصارت کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ مجھ
(حفیظ الرحمن ) سمیت مہدی شاہ اور شیر جہان میر بھی کشمیری تھے ۔۔۔۔۔۔۔میرے
لئے یہ خبر اتنی اہمیت کی نہیں جتنی خبر ’لیک ‘ کرنے والا صحافی ہے
۔۔۔۔مذکورہ دوست ا س سے قبل بھی سوشل میڈیا میں اپنی مدد آپ کے تحت یہ
’شر‘پھیلاتا رہا کہ گلگت بلتستان میں کشمیری وزیراعلیٰ ’مسلط‘ ہے فیس بک
اور وٹس اپ کے مختلف گروپوں میں بھی کئی بار ان کی یہ متنازعہ مہم زیر بحث
چلتی رہی ۔۔۔۔ پیپلزپارٹی کے ایک وٹس اپ گروپ میں بھی اس دوست نے رپورٹ اپ
ڈیٹ کی کہ گلگت بلتستان میں کشمیر ی وزیراعلیٰ مسلط ہے اور یہ کشمیر کے
مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتا ہے ۔۔۔ اس وٹس اپ گروپ میں گرمام گرم بحث
کے بعد وٹس اپ گروپ کے ایڈمن (جو سوشل میڈیا کے انچارج کے طور پر کام کررہے
تھے ) نے گلگت بلتستان میں آنے والی قوموں پر اپنی ایک تحریر بھی لکھی جو
اگر چہ اخبارات تک نہ پہنچ سکی تاہم سوشل میڈیا تک ضرور پہنچی
۔۔۔۔۔۔۔وزیراعلیٰ کے اس دورے کے موقع پر بھی یہی دوست وہاں موجود تھے اور
اپنے ایجنڈے کے مطابق پوری دورے کی خبر کو اس بات پر ختم کردیا کہ 2فیصد
کشمیری گلگت بلتستان کے 98فیصد عوام پر حکمرانی کررہے ہیں۔ مجھ سے قبل بھی
دو وزرائے اعلیٰ کشمیری تھے ۔۔۔۔
وزیراعلیٰ کے اس ’مبینہ ‘بیان کے بعد ’مبینہ ‘طور پر حاجی محمد ابراہیم
ثنائی وزیراطلاعات نے اسلام آباد میں ’مبینہ ‘طور پر میڈیا سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کو کشمیری ہونے پر فخر ہے تو
وزیراعلیٰ کشمیر چلے جائیں اور گلگت چھوڑدیں۔۔۔۔۔۔۔ وزیراطلاعات حاجی محمد
ابراہیم ثنائی نے میڈیا سے گفتگو کی تھی تو ہر میڈیا ہاؤس کا اپنا نمائندہ
ہونا چاہئے تھا لیکن یہ خبر جتنے اخبارات میں اسی طرح چلی کہ ’میڈیا سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا‘سب کے ساتھ ایک ہی رپورٹر کا نام ہے ۔۔۔۔ اگر میڈیا سے
گفتگو کی تھی تو ہر اخبار کا اپنا نمائندہ ہونا چاہئے تھا اور جن اخبارات
کا نمائندہ نہیں تھا یہ خبر وہاں نہیں چھپنی چاہئے تھی۔۔۔۔۔اس کے باوجود یہ
خبر تقریباً تمام اخبارات میں چھپی اور سوشل میڈیا میں طوفان کھڑا ہوگیا
اور وزیراطلاعات کو دبنگ وزیرکا خطاب دیا گیا ۔۔۔۔تین مقامات پر ایک ہی
بندہ ایک ایشو پر بحث کررہا ہے اور ایک تقسیم کی بات کی ہے وزیراعلیٰ اگر
حریت رہنماؤں سے اظہار یکجہتی کے لئے گئے تھے تو ممکن ہے ایسے چند الفاظ
بھی ادا کئے ہوں مگر سماجی زمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ صحافی نے
رپورٹ کی ۔۔۔۔۔ابراہیم ثنائی نے اگلے روز پھر ’مبینہ ‘ طور پر تردید کی
۔۔۔۔۔اگر اپنی سماجی زمہ داریوں کو صحافت سمجھ نہ پائی تو ممکن ہے ایسے ایک
نہیں ہزاروں ایشوز پیدا ہونگے ۔۔۔۔۔ عاشورہ کے بعد بھی ایک ایشو اٹھ گیا
۔۔۔۔۔۔اگر سماجی زمہ داریوں کو سمجھ نہیں پایا تو تقسیم در تقسیم کرتے
جائیں گے ۔۔۔۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ایسے ادارے
بھی آئیں گے جو اخبارات کو مانیٹرنگ کرینگے بلکہ سنسر کا نظام بھی
آئیگا۔۔۔۔
بہرحال تاریخ یہ ضرور لکھے گی کہ 2فیصد کشمیریوں کے لیڈ ر حافظ حفیظ الرحمن
نے جوٹیال لالک جان سٹیڈیم میں وزیراعظم پاکستان کے سامنے گلگت بلتستان کا
مقدمہ لڑا۔۔۔۔۔2013میں نوازشریف کی حکومت آنے کے بعد پارٹی کے اعلیٰ سطحی
اجلاس میں گلگت بلتستان کا مقدمہ لڑا جسے قومی اخبارات میں بھرپور پذیرائی
بھی ملی ۔۔۔۔یہ بھی لکھے گا کہ گلگت بلتستان میں ترقیاتی کاموں کا جمود
کشمیری وزیراعلیٰ نے توڑا۔۔۔۔ محکمہ تعلیم کو سیدھے ڈگر پر لانے میں کشمیری
وزیراعلیٰ کا کردار لکھے گا۔۔۔پاورپراجیکٹس کی تعمیر ، ریجنل گرڈ منصوبہ
اور اسے نیشنل گرڈ سے منسلک کرنے کا منصوبہ ۔۔۔۔درجنوں سڑکیں اور پل جو
10سالوں سے جمود کا شکا ر تھے وہ بھی کشمیری وزیراعلیٰ کے نام سے لکھے
جائیں گے ۔۔۔گلگت بلتستان میں پائیدار امن ، تاریخی محرم الحرام
عاشورہ۔۔۔FPSC، NTS، اور نیب جیسے اداروں کو گلگت بلتستان لانے میں کشمیری
وزیراعلیٰ کا نام آئیگا۔۔۔
اور جو لوگ یہ جملہ بار بار استعمال کرتے ہیں جن میں وزیراطلاعات سمیت
سپیکر اور دیگر نمایاں ہیں کہ جب بھی کشمیر کے لئے برا وقت آگیا ہم نے
قربانی دی اور ہمارے برے وقت میں کشمیر ی کہاں تھے وہ زرا ان اوقات کی
دوبارہ زندہ تو کریں کہ کب کشمیرکے لئے قربانی دی گئی ۔۔۔زرایہ تو بتائیں
روایتی تعصب سے ہٹ کر کبھی انہوں نے کشمیر کے ساتھ ہونے(ہونے کی بنیاد پر
ہی) کا مطالبہ یا اعتراف کیا ہو۔۔۔ اس بات سے دور جاتے جاتے ایسے لیڈروں نے
گلگت بلتستان کو بھی ترقی کے ڈگر سے دور کردیا جنہوں نے کہا کہ گلگت
بلتستان اور کشمیر کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔۔کم از کم اس بات کا جواب تو دیں
کہ پانچویں صوبہ کا مطالبہ کرتے کرتے قوم کو کب تک سماج ، ترقی ، اپنے
ثقافت اپنے علاقے سے دور کرینگے ۔۔۔۔۔اور ایک دلچسپ بات آخر میں کہ دنیا
بھر کے 500 مسلمان بااثر شخصیات میں کشمیر سے کل 1بندہ منتخب ہوا ہے جو کہ
میر واعظ عمر فاروق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ |