حکیم الامت علامہ اقبال نے بادشاہی کی
جلالی صفتاورجمہوریت کی تماشہ گری کا ذکر فرما کر دونوں کا فرق واضح
کردیا۔اس کے بعد ان کے درمیان قدر مشترک دین بیزاری کے سبب جنم لینے والی
چنگیزی کی جانب بھی اشارہ فرمادیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اقبال کے بعد کسی
سنجیدہ شاعرنے الیکشن کے موضوع کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھابلکہ اس پر ہزل
گو شعراء نے طبع آزمائی کی اور مذاق اڑا کر اپنے لئےداد وتحسین و سامعین
کیلئے تفریح طبع کا سامان کیا۔ انتخاب کے ساتھ یہ معاملہ ہندو پاک تک مخصوص
نہیں ہے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کی انتخابی مہم کا جائزہ
بھی اسی حقیقت کا عکاس ہے۔ ہیلری کلنٹن اور ڈونالڈٹرمپ سے قبل نائب صدارت
کی انتخابی دوڑ میں شامل امیدواروں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو 'بیوقوف اور خبطی'
جبکہ ہلر ی کلنٹن کو 'کمزور اور لاچار' کے خطابات سے نوازا ۔ حقیقت تو یہ
ہے کہ نہ کلنٹن لاچار ہیں اورنہ ٹرمپ بیوقوف بلکہ وہ دونوں مل کر امریکہ کی
لاچار عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھےمباحثہ دیکھنے
والے رائے دہندگان کی حالت پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎
الیکشن کے ٹی وی پہ بحث و مباحث
تماشائے جوروستم دیکھتے ہیں
تماشے کی قدوقامت کا اندازہ تماشہ گر کی حیثیت سے ہوتا ہے ۔ دنیا کی عظیم
ترین جمہوریت کے تماشے کا عظیم تر ہونافطری ہے اس لئے اس کے مباحثوں کو
دنیا بھرکے ۱۰ کروڈ ناظرین ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ امریکہ میں الیکشن کا ہفتہ
یا مہینہ نہیں بلکہ سال ہوتا ہے اور یہ سال ہرچار سال بعد وارد ہوجاتا
ہے۔امیدواروں کی نامزدگی کے مقابلے سےچڑھنے والا یہ میعادی بخار نئے سربراہ
کی حلف برداری تک باقی رہتا ہے۔ اس تماشے کا اختتامی اور فیصلہ کن مرحلہ
چار عدد مباحثے ہیں جن میں صدارت و نائب کے امیدوار اپنی توجہات ان رائے
دہندگان کی جانب مرکوز کرتے ہیں جو کسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں تاکہ ان
کو ہمنوا بنا کر اقتدار کی کاغذی ناو میں سوا ر ہوسکیں جس کی کم ازکم مدت
عمل چارسال اور زیادہ سے زیادہ عمر دراز آٹھ سال ہے ۔
امریکہ میں فی الحال اسی کھیل کا ڈنکا بج رہا ہے دو مباحثے ہو چکے ہیں اور
دو باقی ہیں ۔ یعنی دو آرزو ئیں پوری ہوچکی ہیں اور دو کا انتظار ہے ۔
سیماب اکبرآبادی نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ بہادر شاہ ظفر کی آپ بیتی کے طور
پرمشہوریہ شعر امریکہ کی انتخابی مہم پر اس طرح منطبق ہوجائیگا۔ ۱۹۶۰سے
ٹیلی وژن پر مباحثوں کی ابتداء ہوئی۔ امریکی تاریخ کے پہلے صدارتی مباحثے
میں ری پبلیکن پارٹی کے نائب صدر رچرڈ نکسن اور میسا چوسٹس سے ڈیموکریٹک
پارٹی کے سینیٹر جان کینیڈی نے حصہ لیا تھا۔ اس پہلے موقع پر نوجوان کینیڈی
نےقوم کو آگاہ کیا تھا کہ وہ صدر آئزن ہاور کے بعد ملک میں کیا تبدیلیاں
لاسکتےہیں ؟ انتخابی مہم کے دوران چوٹ لگ جانے کے باعثان کے مدمقابل نکسن
بیمار اور کمزور نظر آ ئے۔کینیڈی کی کارگردگی نے ٹیلی وژن ناظرین کو متاثر
کیا اس طرح امریکی انتخابی مہم میں ٹی وی ٹیلی وژن ایک اہم عنصر کے طور
پرداخل ہوگیا ۔
رچرڈنکسن کےخیال تھا کہ ۱۹۶۰ کے اندر کینیڈی کے ہاتھوں ان کی شکست میں
صدارتی مباحثوں کا ہاتھ تھا اس لئے وہ ٹیلی وژن سے گریز کرتے تھےاوراس کے
بعد۱۶ سالوں تک منعقدہونے والے چار انتخابات میں ٹیلی وژن مباحثوں کا
اہتمام نہیں ہوا ۔۱۹۸۷ میں کمشنا آن پریڈینشل ڈبیٹس کا قیام عمل میں آیا
جس کا مقصد انتخابی مہم کے دورانصدراتی مباحثےکو یقینی بنانا تھا ۔ ۱۹۸۸کے
بعد سے ہر الیکشن کے موقع پریہ کمیشنمباحثوں کا انتظام وانصرام کرتا ہے۔ ان
مباحثوں سے امیدواروں کی حاضر جوابی اور طرز فکرکے علاوہ امریکی جمہوریت کا
انحطاط بھی ناظرین کے سامنے آجاتا ہے۔ اس امریکی انتخاب کی خصوصیت یہ ہے
کہ اس میں پہلی بار ایک خاتون امیدوار میدان میں ہے ۔ امریکہ میں خواتین کے
حقوق کی بابت مرعوب حضرات کو ٹھہر کر سوچنا چاہئے کہ امریکی جمہوریت نے
ابھی تک خواتین پر اعتماد کیوں نہیں کیا؟ مختلف ممالک کو اس معاملے میں
امریکہ پر فوقیت حاصل ہےیہ حقیقت ہے کہ دیگر ممالک میں سابق حکمراں کی بیوی
یا بیٹی کو یہ شرف حاصل ہوا ہے لیکن ہیلری بھی تو سابق صدر بل کلنٹن کی
زوجہ ہیں۔ ہیلری کا مقابلہ اس بار ایک بڑے سرمایہ دار سے ہے اور یہ عجیب
اتفاق ہے کہ اس بار خواتین کی ساتھ بدسلوکی اور معاشی بدعنوانی سب سے بڑا
انتخابی مسئلہ بنی ہوئی ہیں ۔
دوسرے مباحثہ سے دودن قبل اچانک ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک ۱۱ سال پرانی آڈیو ٹیپ
منظر عام پر آگئی جس میں ان کوخواتین کے خلاف نازیبا کلمات کہتے ہوئے سنایا
گیا ۔موقر امریکی اخبار "دی واشنگٹن پوسٹ" نے جو ویڈیوجاری کی اس میں
ڈونالڈ "ایکسس ہالی ووڈ" پروگرام کے میزبان بلی بش سے کہتا ہے"میں حسن کی
جانب خود بخود کھنچتا چلا جاتا ہوںمیں بوس و کنار کرنے لگتا ہوں۔ یہ
مقناطیس کی طرح ہے۔"وہ اس پر بس نہیں کرتا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ "اور اگر
آپ سٹار ہوں تو وہ آپ کو یہ (سب) کرنے دیتی ہیں، آپ کچھ بھی کچھ کر سکتے
ہیں ‘‘۔اس ویڈیو میں ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک شادی شدہ خاتون کے ساتھ مدست درازی،
بوس و کنار، چھونے اور پکڑنے کے بارے میں ڈینگیں مارتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے اس کے ساتھ کوشش
کی لیکن ناکام رہا۔ وہ شادی شدہ تھی اور میں نے اس پر کافی زور آزمائی
کی۔‘‘ٹرمپ نے اس بابت یہ صفائی پیش کی کہ یہ معاملہ ۲۰۰۵ کا ہے، اور یہ
بند کمرے کی گپ شپ تھی، جس پر وہ فخر نہیں کرسکتا۔ ''میں اس پر شرمندہ ہوں
اور جو کچھ کہا گیا اُس سے نفرت کرتا ہوں''۔ٹرمپ نے الزام لگایا کہ اس
ریکارڈنگ کی تشہیر کے صدارتی انتخاب سے توجہ ہٹانے کیلئے کی گئی ہے ۔
ٹرمپ پر مقابلۂ حسن کے دوران جب خواتین برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں لباس
تبدیل کررہی تھیں وہاں جاپہنچنے کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ اپنے بچاو کی
خاطر ٹرمپ نے اپنے حریف ڈیموکریٹک امیدوار ہلرتی کلنٹن کے شوہر سابق صدر بل
کلنٹن پر ہلہّ بول دیا اور کہا کہ بل کلنٹن نے گولف کورس پر اس سے کہیں
زیادہ خراب گفتگو کی تھی اور خواتین کے ساتھ اس سے "بدتر افعال" کے مرتکب
ہوئےہیں ۔ڈونالڈ نے اپنے ذریعہ کسی بھی خاتون سے جسمانی زیادتی کی تردید کی
اور بِل کلنٹن پروائٹ ہائوس کے اندر خواتین کے ساتھ زیادتی کا الزام لگایا
۔ ٹرمپ کے مطابق ہلر ی نےمظلوم عورتوں کو ڈرایا، دھمکایا، (ان پر) حملہ کیا
اور انہیں شرمندگی سے دوچار کیا۔ ویسے ڈونالڈ کی تیسری اہلیہ میلانیا نے
بھی ہیلری کی مانند اپنے خاوند کی طرف سے ووٹرس کو معذرت کو قبول کرنے کی
گذارش کی اور بولیں "ویڈیو کے الفاظ کونا قابل قبول اور نازیبا ہیں مگر یہ
اس شخص کی عکاسی نہیں کرتی ہے جس کو میں جانتی ہوں۔ وہ ایک راہنما کا حوصلہ
اور شعور رکھتے ہیں ۔" اس طرح گویا امریکہ کے ترقی یافتہ معاشرے میں بھی
دونوں بیویوں نے اپنے شوہروں کی پردہ پوشی کرکے ثابت کردیا کہ مشرق ہو یا
مغرب ناری دھرم یکساں ہے۔
دوسرے مباحثے سے قبل پیش بندی کے طور پر ٹرمپ نےان چار خواتین کے ساتھ پریس
کانفرنس کرکے فیس بک پر براہِ راست نشر کی جنھوں نے کلنٹن خاندان پر دست
درازی کا الزام لگایا تھا۔ ان میں سے تین نےبل کلنٹن پر یہ الزام لگایا کہ
سابق صدر نے انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا اور ایک چوتھی خاتون وہ ہیں جن
کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے شخص کا ہلرای کلنٹن نے دفاع کیا تھا۔ ویسے
ہیلری نےٹرمپ اور میلانیا کےمعذرت نامہ کو قبول نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ''ٹرمپ
نے اقلیتوں، مسلمانوں اور جنگی قیدیوں کا بھی مذاق اڑایا ہے''۔اپنے دعویٰ
کی تصدیق میں ہیلری نے ملکۂ حسن آلیسیاماچالوکو پیش کیا جن
کاتھوڑاوزنبڑھجانےپرٹرمپنےانھیں 'مسپگی' کہہکرپکاراتھا۔آلیسیاماچالونےکے
مطابق ٹرمپنےانکےلاطینینژادہونےکیوجہسےانھیں 'مسہاؤسکیپنگ' بھیکہاتھا۔ہیلری
کا الزام ہے کہ یہ شخص عورتوں کو سور،گنواراور کتا کہتارہاہے۔
خواتین کی بے حرمتی کے علاوہ دوسرا بڑا تنازع معاشی بدعنوانی کا ہے ۔ اس کو
ایک جملے میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے ٹیکس گوشواروں کے
بارے میں کہا کہ جس دن ہلر ی اپنی تیس ہزار سے زیادہ ای میلز سامنے لائیں
گی وہ اپنا گوشوارے ظاہر کر دیں گے۔ڈونلڈٹرمپنے۱۹۹۵کےٹیکس ریٹرن۹۰کروڑ
ڈالر کا خسارہ دکھایا تھا اس سے ٹرمپ کو ممکنہ طور پر اگلے ۱۸سال تک قانونی
طور پر ٹیکس ادا نہ کرنے کی چھوٹ مل گئی۔ اس طرح گویا اس سرمایہ دار نے
پچھلے کئی سالوں میں کروڈوں کمائے مگر ٹیکس کی ادائیگی سے بچ نکلا اور اب
یہ کہتا ہے کہ میں ٹیکس کم کروں گا جبکہ ہیلری اس میں اضافہ کی خواہاں ہے۔
کلنٹن نے کہنا ہے کہ ٹرمپ پر۶۵۰ ملین ڈالر کا ٹیکس واجب الادا ہے اس لئے وہ
گوشوارہ چھپا رہے ہیں ۔ اس پر بغیر کسی ندامت کے ٹرمپ کا کہنا ہے ''چونکہ
میں سمارٹ ہوں''؛ (اس لئے میں یہ ٹیکس چوری کرنے میں کامیاب ہوگیاہوں)۔ٹرمپ
کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب امریکہ بیس ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے ایک
کاروباری شخص کو ہی صدر بننا چاہیے۔ وہ نئے اسکول نئے ائرپورٹ، نئے اسپتال
اور نئی سڑکوں کی تعمیر پر زور دیتاہے اورکلنٹن پر الزام لگاتاہے کہ وہ
اپنے ملازمین کو پورا معاوضہ تک نہیں دیتیں جبکہ خود ٹیکس چراتا ہے۔
'وکی لیکز' کےمطابق ہیلری کلنٹن نے تجارت اور 'وال اسٹریٹ' کے ساتھ معاملات
پرپردہ ڈالنے کیلئے ۳۳ ہزار ای میلز ضائع کردئیے۔ ہلرڑی کلنٹن ذاتی ای میلز
کے استعمال کو ’غلطی‘ تسلیم کرتی ہیں مگر یہ بھی کہتی ہیں کہ ایسے کوئی
شواہد نہیں جن کے ذریعے یہ ثابت ہو کہ خفیہ معلومات غلط ہاتھوں تک پہنچ گئی
تھیں۔وکی لیکس کو روس کا ایجنٹ قراردیتے ہوئے ہیلری کہتی ہیں سائبر حملوں
کی بابت ہمیں دو قسم کے دشمنوں کا سامنا ہے ایک وہ جو پیسہ بنانے کے لیے
ایسا کرتے ہیں اور دوسرے جو ریاستیں کرتی ہیں جیسا کہ روس جو ہمارے اداروں
کی معلومات چرا رہا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ روس کے صدر پوٹن کو اچھا لیڈر کہتے
ہیں۔ٹرمپ نے اسےعمداً کیا جانے والا فعل قراردیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اس
معاملے کی چھان بین کے لیے خصوصی استغاثہ تشکیل دیں گےاور صدر بن گئےتو
ہیلری کلنٹن کوجیل بھیجیں گے۔ جمہوریت کی ستم ظریفی ہے کہ صدارتی امیدواروں
کی ان گھپلے بازیوں سے واقف ہونے کے باوجود ہر امریکی ان میں سے ایک سربراہ
بنانے پر مجبور ہے۔
اس انتخاب میں تیسرا مسئلہ نسلی منافرت ہے کلنٹنکاالزام ہے کہ ٹرمپ نے اپنی
سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہی اس نسل پرستانہ جھوٹ سے کیا کہ ہمارا پہلا سیاہ
فام صدر امریکی شہری نہیں ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے وہ سالہا سال اس پر قائم
رہا اور پیدائشی سرٹیفیکیٹ کو جعلی قرار دیتے رہا ۔اس کے علاوہٹرمپ نے
۱۹۷۳ میں سیاہ فاموں کو اپنی رہائشی عمارت میں جگہ دینے سے انکار بھی کیا
تھا جس کے باعث محکمہ انصاف نے ان پر مقدمہ دائر کردیا تھا۔ جنوبی امریکہ
کے تارکین وطن کے خلاف زہر اگلنے والا ٹرمپ ابکہتا ہے کہ سیاست دانوں نے
افریقی امریکیوں کو استعمال گیا ہے اور انہیں صرف ووٹ کے وقت یاد کیا جاتا
ہے۔ ٹرمپ کے مطابق وہ قانون کی بالا دستی چاہتا ہےلیکن وہ اس کیلئے صدر
اوباما کے آبائی شہر شکاگو کا حوالہ دیتاہے کہ جہاں ایک سال میں سڑکوں پر
ہونے والے جرائم میں تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اورکہتا ہے تارکین
وطن اس کے لئےذمہ دار ہیں ۔
ہیلری کلنٹن نے ٹرمپ پر الزام لگایا ہے کہ وہ افریقی امریکنوں، ہسپانوی
لوگوں اور مسلمانوں کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کرتاہے ۔ان کا موقف ہے
کہ امریکہ کی جنگ اسلام سے نہیں بلکہ ، داعش اور دیگر شدت پسندوں کے خلاف
ہے، جو اکثریتی معتدل مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان کے مطابق مسلمان
امریکہ میں جارج واشنگٹن کے زمانے سے موجود ہیں؛ اور ان میں سے اکثر پُر
امن، باصلاحیت اور بہت ہی کامیاب ہیں۔ اس ضمن میں، ٹرمپ کے مبینہ طور پر
کیپٹن ہمایوں کے خاندان کے خلاف دئیے گئے بیان کا حوالہ دیا جاتا ہےجو ایک
قومی ہیرو ہے اور انہوں نے ملک کے لیےعراق میں جان نثار کردی تھی ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ کیپٹن ہمایوں حکومت کی ناقص پالیسی کا شکار
ہوئےاگر وہ صدر ہوتاتو کیپٹن نہیں مرتا ۔صدر منتخب ہوجانے پرٹرمپ مسلمانوں
کے داخلے کی بابت سخت پوچھ گچھ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونےکا عزم رکھتاہے
تاکہ ایسے افراد کو امریکہ آنے سے روکا جائے جوامریکی اقدار سے متصادم
''سخت گیر اسلامی نظریات'' میں یقین رکھتے ہیں۔یہودیوں کی خوشنودی کیلئے
ٹرمپ نے ایران سے متعلق امریکی پالیسی پر تنقید ہوئے کہہ دیا کہ اس سے نتن
یاہو تک ناراض ہے حالانکہ کہ نتن یاہو جیسے اسلام دشمن نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ
کو دورانِ مہم اسرائیل کا دورہ کرنے سے منع کردیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ نتن یاہو سے بھی بڑا اسلام اور مسلمانوں کا دشمن کون ہے؟اس سے قبل
ساری مساجد کوبند کرنے کی وکالت کرچکا ہے۔ڈونالڈ ٹرمپ کی زبان سے مسلمانوں
کے متعلق یہسن کر حیرت زدہ ہونے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام پسندوں
کے ساتھ چین کی اشتراکیت ہو یا مغرب کی جمہوریت، جزیرۃ العرب کی ملوکیت ہو
افریقہ کی آمریت ، اسرائیل صہیونیت ہو یا ہند کی فسطائیت سب کا سلوک یکساں
ہیں ۔ ظلم و جبر کے یہ سارے علمبردار عدل و انصاف کے چراغ کو اپنے لئے خطرہ
سمجھتے ہیں اور منھ کی پھونک سےاسے بجھا دینا چاہتے ہیں۔
جمہوری نظام سیاست کے بارے میں ایک خوش فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ اس کے
ذریعہ قوم کی زمام ِ کار بہترین افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہوجاتی ہے اس
لئے عصرِ حاضر میں اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس دعویٰ کی روشنی میں اگر
امریکہ میں برسر پیکار صدارتی امیدواروں کے اخلاق و کردار جائزہ لیاجائے تو
ساری قلعی کھل جاتی ہے۔ان امیدواروں کے اخلاقی ، معاشرتی، معاشی ، انسانی
،نسائی اور اقلیتی افکار و عمل کا معروضی جائزہ بتاتا ہے کہ اس نظام سیاست
کا بلند بانگ دعویٰ ا کھوکھلاہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہورہا ہے لیکن لوگ
جمہوریت کی نیلم پری پر ایسے فریفتہ ہیں اس کی ساری بےوفائیوں کو فوراً
بھلا دیتے ہیں ۔ جارج ڈبلیو بش جیسے احمق کا دو مرتبہ انتخاب اور ہندوستان
کے اندر نریندر مودی اور فلپائن دیوتیرتے کا منتخب ہوجانا ثابت کرتا ہے
جمہوریت کی مہربانی سے ہر کوئی اقتدار اعلیٰ پر فائز ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے
اخلاق و کرداریا صلاحیت وقابلیت کی کوئی قید نہیں ہے ۔ بعید نہیں کہ اس بار
۵۰ فیصد ارکان پارلیمان کی مذمت اور ۱۰ فیصد کی جانب سے ٹرمپ کو امیدواری
واپس لینے کے مطالبے کے باوجود عوام اس کے سر پر حکومت کا تاج رکھ دے۔
امریکی انتخاب کی مہم کے مجسم ّ منفی ہونے میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش
نہیں ہے ۔ امیدوار اپنے اوپر لگائے جانے والے سوالات کا اطمینان بخش جواب
دینے کے بجائے اپنے مخالف پر نت نئے الزام لگا دیتے ہیں۔اس دگر گوں صورتحال
میں عوام کو یہ طے کرنا ہے کہ ان میں کم خرابیاں کس میں ہیں لیکن سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کے سارے لوگ ان سے بھی گئے گزرے ہیں اور اگر
نہیں تو وہاں رائج نظام ان بہتر لوگوں کو اقتدار پر فائز کیوں نہیں کرتا ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی نیلم پری کے نزدیک انتخاب
کا معیار صرف اور صرف دھن دولت ہے۔ وہ انہیں لوگوں کو اقتدار میں آنے کی
اجازت دیتی ہے جو سرمایہ داروں کے مفادات کے وفادار مامفظ ہوتے ہیں اور
انہیں استحصال کا بھرپور موقع فراہم کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے بلاوجہ تو
نہیں کہا تھا ؎
دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
|