پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمدنواز
شریف ایک مرتبہ پھر پی ایم ایل این کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ منگل
کو اسلام آباد میں کنونشن حال میں ہونے والے پارٹی الیکشن کی اس تقریب میں
ملک بھر سے آئے ہوئے مسلم لیگی رہنماؤں نے شرکت کی ۔ میاں محمد نواز شریف
کے مقابلے میں پرنس بلوچ نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم ان کے کاغذات
پارٹی ممبر شپ لسٹ میں نام نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیئے گئے۔کوئی مانے
یا نہ مانے مگر یہ بھی حقیقت ہے پورے ملک میں سے کسی مسلم لیگ ن کے رہنما
نے میاں محمد نواز شریف کے سامنے کھڑے ہونے اور مقابلہ کرنے کی جرات نہیں
کی اور میاں صاحب ایک مرتبہ پھر بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ پاکستان کی
سیاست میں موروثیت تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں و مذہبی جماعتوں کا ٹرینڈ
ہے۔ شخصیت پرستی عروج پر ہے ، جس شخصیت نے بھی ایک مرتبہ پارٹی میں اپنی
پوزیشن بنا لی پھر اسے اﷲ ہی ہٹائے تو ہٹائے کسی بندے میں تو اتنی طاقت اور
حوصلہ نہیں کہ اس شخصیت کا مقابلہ کر سکے۔ یہ کہاں کی جمہوریت ہے۔ یہ تو
آمریت سے بھی بدترین صورت حال ہے کہ اگر کوئی شخص یہ حوصلہ کر بھی لے کہ
اسے میاں محمد نواز شریف جیسی بھاری بھرکم شخصیت کے سامنے پارٹی الیکشن میں
کھڑا ہونا ہے تو اسے یہ کہہ کر الیکشن کے عمل ہی سے خارج کر دیا جاتا ہے کہ
اس کی پارٹی کی رکنیت ہی موجود نہیں۔پارٹی الیکشن کے دوران بڑے بڑے سورما
ہاتھ باندھے میاں محمد نواز شریف کی جیت کے اعلان کا انتطار کرتے رہے لیکن
ان کی وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ وہ میاں صاحب کو بلا مقابلہ
منتخب نہ ہونے دیں یا برائے نام ہی سہی مگر کم از کم کوئی مقابلہ تو دکھایا
جائے۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یہ کیوں
ثابت کرنے پر تلی ہوتی ہیں کہ ان کا جو لیڈر ہے وہ ایک ایسا شخص ہے کہ جس
کا پارٹی کے اندر الیکشن میں مقابلہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس وقت ملک بھر
کی تمام سیاسی جماعتوں و مذہبی جماعتوں میں صرف جماعت اسلامی ہی وہ واحد
جماعت ہے کہ جہاں پارٹی کے اندر بھی بڑی حد تک جمہوریت نظر آتی ہے اور
پارٹی الیکشن میں پارٹی کی قیادت کے لئے نئے چہر ے سامنے آتے ہیں اور وہ
منتخب ہونے کے بعد اپنی پارٹی کو اسی طرح چلاتے ہیں کہ جس طرح ان سے قبل ان
کے قائدین نے اپنی جماعت کو چلایا ہوتا ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی ہو، پاکستان
مسلم لیگ کاکوئی بھی دھڑا ہو، پاکستان تحریک انصاف ہو، ایم کیو ایم ہو ، جے
یو آئی ہو یا ملک کی کوئی بھی دوسری سیاسی و مذہبی جماعت، یہ تمام جماعتیں
اندر سے اتنی ہی غیر جمہوری پارٹیاں جتنا کہ یہ جماعتیں جمہوریت کا ڈھنڈورا
پیٹتی ہیں ۔ان تمام جماعتوں میں پارٹی کے سربراہ کے لئے کسی نئے نام کا آنا
تقریباً نہ ممکن ہے جبکہ دوسری طرف یہ تمام جماعتیں یہ ثابت کرنے پر بھی
تلی رہتی ہیں کہ ان کی پارٹی کے اندر قیادت کے قابل اس شخصیت کے علاوہ کوئی
دوسرا فیگر نہیں کہ جو پہلے سے پارٹی کی قیادت پر براجمان ہے لہذا وہ ہر
بار بلا مقابلہ منتخب ہو جاتا ہے۔ بلا ول بھٹو زرداری کو پی پی پی کابلا
مقابلہ چیئرمین بنا دیا گیا ہے جسے نہ تو کوئی سیاسی تجربہ ہے اور نہ ہی
کوئی سیاسی کولیفکیشن لیکن اس کے باجود پاکستان پیپلزپارٹی کے بڑے بڑے
اکابرین، دانشور، یہاں تک کے سابق وزراء اعظم اور سابق اور موجودہ وزراء
اعلی سمیت تمام پارٹی کے رہنما بلاول کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں
۔ تین روز قبل ہی چشم فلک نے یہ مناظر دیکھے ہیں کہ کراچی میں سلام شہداء
ریلی کے موقع پر ایک غیر تجربہ کار اوربڑی حد تک غیر سیاسی نوجوان بلاول
بھٹو زرداری بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کی قیادت کررہا تھااور سب ہاتھ باندھ کر
کھڑے تھے۔دوسری جماعتوں کا بھی یہی حال ہے ایسے ماحول میں ملک میں جمہوریت
نہیں آمریت ہی پنپ سکتی ہے یہاں تک کہ سپریم کو رٹ آف پاکستان کو بھی گزشتہ
دنوں یہی صورت حال دیکھ کر یہ کہناپڑا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر
بادشاہت قائم ہے۔ |