پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے نمایندوں کوپریس کانفرنس کی اجازت کیوں؟

پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے ادارے بھی عجیب قسم کے ہیں۔ ایک طرف انہوں نے پاکستان مردہ باد،پاکستان ایک ناسور ہے،پاکستان بننا ایک تاریخی غلطی ہے ،میں پاکستان توڑنا چاہتا ہو بھارت اور اسرائیل میری مدد کریں کا نعرہ لگانے والے اور اس کے سہولت کاروں کو قانون کے کہٹرے میں گھڑا کیا ہوا ہے ۔کچھ اُس میں قید ہیں کچھ کے عدالت نے ورانٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں ۔ اب پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے نمایندوں ؍سہولت کاروں کو پھر سے پریس کانفرنس کرنے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے برملا کہا ہے کہ اُن کے لیڈر وہی ہے جس نے پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔پریس کانفرنس کرنے والے ہیڈ کراچی یونیورسٹی سے پاکستان مخالف کردار کی وجہ سے نکالے گئے تھے۔جو نظریہ پاکستان کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں۔ ودسرے صاحب پیپلز پارٹی کے جیالے کارکن رہے ہیں۔ اب کیا یہ کسی مفاہمتی عمل کا تسلسل تو نہیں ہے کہ جو بلاول زرداری چیئر مین پیپلز پارٹی نے کہا تھا ’’میں نے کبھی بھی انکل الطاف کو غدار نہیں کہا‘‘ جبکہ ان کی سندھ حکومت کی پارلیمنٹ نے الطاف حسین کے خلاف غداری کی قراداد بھی پاس کی تھی جس میں ایم کیو ایم پاکستان کے ممبران بھی شامل تھے۔سیاسی جماعتوں بلکہ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی ہے مگر پاکستان مردہ باد کہنے والوں اور ایک فاشسٹ لسانی تنظیم اور ان کے سہولت کاروں کو پاکستان کے آئین میں بل لکل بھی پاکستان مخالف کاروائیں کرنے اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی اجازت نہیں۔ کیا اب کراچی پریس کلب میں کلعدم تحریک طالبان کو بھی اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی اجازت ہو گی؟بڑی مشکل سے پاکستان رینجرز نے کراچی کے حالات پر ٹارگیٹڈ آپریشن کے ذریعے قابو پایا ہے ۔اس میں رینجرز اور پولیس کے کئی نوجوان شہید بھی ہوئے۔ کیا یہ کراچی میں پھر سے پاکستان کے دشمنوں فاشسٹ لسانی تنظیم کو سیاست کرے کی اجازت دینے کی شروعات ہیں؟ قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے پاکستانی اداروں سے درخواست ہے کہ وہ کسی بھی بیررونی طاقت کے کہنے پر ایسے کرنے والی فاشسٹ لسانی تنظیم کے نام نہاد سیاسی لوگوں کو اجازت نہ دی جائے جنہوں نے سیاست کی آڑ میں پاکستان کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم اور محب وطن کالم نگار اور کئی ٹی وی اینکرز اپنی تحریروں اور ٹاک شوز میں وفاقی حکومت سے درخواستیں کر چکے ہیں کہ الطاف حسین کو پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان مخالف حرکتوں سے روکا جائے۔ مگر وفاقی حکومت پہلے کی طرح اب کی بار بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ بس ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جس کا اجلاس بھی نہیں ہوا ۔ملک دشمن سیاست کی آڑ میں پھر اپنے بیرونی آقاؤں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر ان کے پاکستان توڑنے کے ناپاک مقاصد حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہو رہے ہیں۔ مقافاتِ عمل کے تحت الطاف حسین کی ایم کیو ایم چار دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ نہ جانے اور کتنے دھڑوں میں تقسیم ہو گی۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے برطانیہ کے پولیس نظام نے سارے ثبوتوں اور شہادتوں کے باوجوداپنی حکومت کے اشارے پر ایم آئی ۶ کے مہمان الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس سے بری کر دیا ہے۔ اس پر خود برطانیہ کے صحافی کہہ رہے ہیں کہ منی لانڈرنگ کیس سیاست کی نذر ہوگیا ہے ۔ برطانوی پارلیمنٹ کی ایک پاکستانی نژاد ممبر نے یہ معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی اُٹھانے کا کہا ہے۔ سرفراز مرچنٹ بھی اپنے طور پر کیس اُٹھانے کا کہہ رہے ہیں۔ کم وپیش سب نے ہی پاکستان حکومت کی طرف سے اسکاٹ لینڈ یارڈ برطانوی پولیس کو ناکافی ثبوت پیش کرنے کی بات کی ہے۔ قانون کی حکمرانی اور آئین پاکستا ن کی محافظ کراچی پولیس نے ایم کیو ایم الطاف حسین کے مرکزنائن زیرو کے برابر ایک سو بیس گز کے مکان کے پانی کے ٹینگ جس کو بقول پولیس اسلحہ ذخیرہ کرنے کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا تھا جس میں ہوا کا بھی نظام بھی قائم کیا گیا تھا۔ اس تہہ خانے میں سے پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا اور ناٹو فوجوں کے استعمال ہونے والا اسلحہ پکڑا گیا تھا۔ جس میں اینٹی ایئر گن اور جنگ میں کام آنے والا ہر قسم کا اسلحہ تھا۔ کراچی پویس نے یہ اسلحہ چیکنگ کے لیے فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس اسلحہ پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ اتنا بڑا اسلحہ جس علاقہ سے پکڑا گیا وہ ایم کیو ایم کے زیر کنٹرول علاقہ ہے ۔ جہاں ہر طرف نگرانی کے لیے کیمرے لگے ہوئے تھے ۔ایم کیو ایم الطاف کے علاوہ کوئی بھی اتنا بڑا اسلحہ کا ذخیرہ نہیں کر سکتا ہے۔ پورے شہر میں دھونس دھاندلی اور قانون کی خلاف دردی کرتے ہوئے ایم کیو ایم الطاف نے سیکٹر اور یونٹ کے دفاتر قائم کیے ہوئے تھے جن کوسندھ حکومت کے حکم سے ڈھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ ایم کیو ایم کے ان ناجائز دفاتر کے خلاف جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سٹی ناظم کراچی جناب نعمت اﷲ ایڈوییٹ کی میت میں عدالت میں مقدمہ داہر کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے تمام ناجائز بنائے گئے دفاتر کو مسمار کرنے کا حکم دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس عدالتی فیصلہ پر عمل کرانے کی ہمت ہی نہیں تھی۔ مگر اب جب رینجرز نے الطاف حسین کی ۲۲ ؍ اگست کی پاکستان مخالف تقریر پر کاروائی کی۔ اس کے بعد جہاں الطاف حسین پر پاکستان سے غداری کی قرار دادیں صوبائی، قومی اور سینیٹ میں پاس ہوئیں تھیں۔ اس کے بعد ان تمام ناجائز دفاتر کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم الطاف کے گھر قائم دفتر کو بھی سیل کر دیا تھا۔ اس کے برابر بھی تمام دفاتر سیل کر دیے گئے۔ایم کیو ایم الطاف حسین کی نشانی مکہ چوک کو لیاقت علی خان شہید ملت چوک میں تبدیل کر دیا گیا۔ الطاف حسین کی پاکستان مخا لف تقریر اور میڈیا ہاوئس پر حملے میں ایم کیو ایم الطاف کے کارکنوں اور تقریر کے سہولت کاروں جس میں فاروق ستار، اظہار لحق اور دوسرے رہنما شامل تھے کو رینجرز نے گرفتار کر لیا تو رہائی کے فوراً بعد الطاف حسین سے لا تعلقی کا اعلان کردیا۔ جب حالات اس نہج پر پہنچے توایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت جس میں الطاف حسین کی رضا مندی بھی شامل تھی۔ فاروق ستار نے ایم کیو ایم الطاف کو قانون کی گرفت سے بچانے کی خاطر الطاف حسین سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ اور کہا کہ آیندہ الطاف حسین کے احکامات پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ فاروق ستار نے لندن کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر سمیت دوسرے عہدادروں کو برخاست کر دیا۔ ایم کیو ایم کے آئین سے الطاف حسین کے ویٹو والے پیر گراف کو بھی ہٹا دیا۔ پاکستان کی ایم کیو ایم، قومی، صوبائی ،سینیٹ اور بلدیاتی ممبران نے اپنے آپ کو الطاف حسین سے علیحدہ کر لیا۔ اس کے جواب میں لندن کی رابطہ کمیٹی نے الطاف حسین کی مرضی سے فاروق ستار کو برطرف کر دیا۔ الطاف حسین نے پاکستان کی ایم کیو ایم کے سربراہ سے تعاون نہ کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔ مقافات عمل دیکھیں جس الطاف کے ایک حکم سے کراچی شہر بند ہا جاتا تھا۔ صرف وال چاکنگ تک ہی اس کے احکامات مانے گئے۔ صاحبو! ان حالت میں پاکستان مخالف عناصر کے طرف سے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کر کے الطاف حسین کو پھر سے پاکستانی قوم کے سر پر سوار کرنے کی اور ایم کیو ایم الطاف کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش نہیں ہے تو کیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم الطاف کے خلاف اتنی بڑی کاروائی کے بعد پھر پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے کے نمایندوں کوپریس کانفرنس کی اجازت کیوں دی گئی؟ اﷲ پاکستاسن کی حفاظت فرمائے آمین۔
 
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094860 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More