میڈیا میں احساس ذمہ داری

کسی بھی ملک میں میڈیا کی آزادی بنیادی اہمیت رکھتی ہے،اگر کسی معاشرے میں میڈیا آزاد نہ ہواور صحافت مؤثر نہ ہو تو ایسے معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری روایات کی پاسداری دونوں ممکن نہیں رہتے،اس کی بنیادی مقصد یہ ہے کہ کہ قوم کے سامنے حقائق آئیں اور معاشرہ ایک کھلا معاشرہ ہو،اگر یہ کھلا معاشرہ موجود نہ ہواور بات کہنے کی آزادی نہ ہو تو میڈیا معاشرے کی خرابی ظلم،انحراف اور بگاڑ کو سامنے نہیں لا سکتا،دیکھا جائے جہاں میڈیا کی آزادی اہم ہے وہاں میڈیا کی ذمہ داری بھی اس سے زیادہ اہم ہیں،حق بات کو کہنے کے لئے جہاں آزادی کی ضرورت ہے وہاں یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ اس حق کا صحیح صحیح استعمال ہو،تمامصحافیوں کو سرکاری قوانین کے ساتھ ساتھ از خود بھی ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرنا چاہئے تاکہ صحافت جیسے مقدس پیشے کی حرمت پر آنچ نہ آئے۔

آج میڈیا خاص طور پر الیکڑانک میڈیا آزادی صحافت کی آڑ میں بہت سے صحافی آج کل ایسے باتیں کر جاتے ہیں جس سے عام قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ ہمارے ملک کے صحافی ہیں یا کہیں اور کے۔الیکڑانک میڈیا ایک ایسی فضا قائم کر رہا ہے جس سے لوگوں میں محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے،لوگوں کی خواہشات اور تمنائیں جس رُخ پر جارہی ہیں وہ اس ملک کے اقدار اور اس کے وسائل سے مطابقت نہیں رکھتی،اس کے نتیجے میں معاشرے میں مسائل کا ایک طوفان پیدا ہورہا ہے۔لہٰذا ہمیں ایسے اعتدال اور توازن کو اختیار کرنا چاہئے جو اس صحت مند معاشرے کے لئے ضروری ہے۔

میڈیا نے مادہ پرستی کے بازار کو فروغ دیا ہے،اس کے فروغ نے نئی مادہ پرستی اور مشتعل ثقافت کو جنم دے کر لوگوں میں دبی ہوئی خواہشات کو پیدا کردیا ہے،حالانکہ صحافت کی اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک صحافی کو ہمیشہ غیر جانبدار رہنا چاہئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح یہاں سیاستدان اپنی پارٹی تبدیل کرتے ہیں ویسے ہی یہ صحافی بھی میڈیا گروپ تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے،ایسے صحافیوں کا نظریہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے،کیونکہ یہ زیادہ تر ایسے میڈیا گروپ کی پالیسی کے تحت کام کرتے ہیں،اس لئے میڈیا گروپ بدلنے کے بعد سیاستدانوں کی طرح ان کا بھی نہ صرف لہجہ بدل جاتا ہے بلکہ ترجیحات بھی بدل جاتی ہیں۔

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے،کہ یہ ریاست کی تینوں بنیادی ستونوں مقننہ،عدلیہ،انتظامیہ اور عوام کے درمیان نہ صرف رابطے کا کام کرتاہے بلکہ ریاست کے ان تینوں ستونوں کی کارکردگی پر نظر رکھتا ہے لہٰذا اس اہم کوم کو انجام دینے کے لئے میڈیا کا کام ہے کہ وہ غیر جانبداررہتے ہوئے ذرائع سے حاصل ہونے والی اطلاعات کو خبر بنانے سے پہلے تصدیق کر لی،کیونکہ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ صحافت کے معیار کو بہتر بنایا جاتا اور ریٹنگ کے بہتری کی خاطر خبروں کے معیار کو ان کی سچائی اور پیشکش کے سٹائل میں جدت لاکر ملک اور عوام کے وسائل موضوع بحث لا کر حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے آگاہ کیا جاتا،اور ملک کو افراتفری اور بدامنی سے نکالنے کے لئے رواداری،بھائی چارے اور عوامی امن کو فروغ دینے کے لئے پروگرامات پیش کی جاتے لیکن دیکھا جائے تو معاملہ اس کے برعکس ہے صرف ریٹنگ بڑھانے اور زیادہ اشتھارات حاصل کرنے کے لئے دوڑھ لگی ہوئی ہے ملک میں بہت سے چینل ایسے ہیں جو ناظرین تک پہلے اور سچی خبر پہنچانے کے دعوے دار ہیں لیکن ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دور میں اخلاقیات کی خلاف ورزی کو بری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے اور جب عوام کو سب سے پہلے سچی خبر پہنچانے والوں کو یہ رویہ ہے تو ان کا کیا قصور کہ ان خبروں پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں،خبروں میں مہم جوئی اور ٹاک شوز میں بلا کرمہمانوں کی توہین کرانا اور انہیں آپس میں دست وگریباں کرانے کا منظر کسی ایکشن فلم سے کم نہیں ہوتا،اسی طرح معاشرے کی برائیوں کو اُجاگر کرنے کے نام پر جس طرح سے لوگوں کے ذاتی زندگی میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے اس میں بھی دھمکی ،بلیک میلنگ اور مہم جوئی کا عنصر نمایا دکھائی دیتا ہے ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا صحافی براداری اور دیگر تمام ادارے اپنے کردار اور حدود کا از سرنو جائزہ لے اور مل بیٹھ کر ایسا ضابطہ اخلاق تشکیل دے جس پر عمل کر کے نہ صرف میڈیا کو سیاست کی آلودگی سے پاک کیا جاسکے بلکہ ایک صاف وشفاف اور غیر جانبدارصحافت کی شروعات کی جاسکے۔
Rizwan Ullah Peshawari
About the Author: Rizwan Ullah Peshawari Read More Articles by Rizwan Ullah Peshawari: 162 Articles with 189300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.