ایم کیو ایم لندن کے رہنما زیر حراست

ایم کیو ایم لندن کی رابطہ کمیٹی کے اہم رکن پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف جمعہ کی رات دس بجے میرے ساتھ برنس پلس نیوز چینل کے پروگرام ’’دی پلس‘‘ میں شریک تھے ۔ میں نے ان کو اپنے پروگرام میں ون آن ون انٹرویو کے لئے مدعو کیا تھا۔ انٹرویو کے دوران میں نے بہت سے سوالات کیے جن کا انھوں نے اپنی پارٹی کی پالیسی اور لندن کی ہدایات کی روشنی میں جواب دیا لیکن میں نے ایک ہی سوال مختلف اندازسے بار بار کرنے کی کوشش کی کہ جب الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرہ لگا دیا تو آپ کا پاکستان میں سیاست کرنے کا کیا جواز ہے اور کیا یہ اس نعرے کے باوجود ایم کیو ایم لندن کو پاکستان میں سیاست کرنے کی مقتدر اداروں اور’’ کنسرن کواٹرز ‘‘نے اجازت دے دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب تک ہمیں گرفتار نہیں کیا گیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمیں گرفتار نہیں کیا جائے گا تاہم انھوں نے کہا کہ ہم کراچی پریس کلب میں جب گزشتہ ہفتہ پہلی پریس کانفرنس کیلئے آئے تھے تب بھی ہم ذہنی طور پر اس بات کیلئے تیار تھے کہ ہمیں پریس کلب کے اندر سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کراچی کی رویت کے مطابق آج تک کسی کو کلب کے احاطے میں سے گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن انھوں نے کہا ہمیں پریس کلب کے باہر سے گرفتار کئے جانے کا اس روز بھی خدشہ موجود تھا۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے کہا کہ مگر ہمیں پریس کانفرنس کے بعد بھی گرفتارنہیں کیا گیا اور اس کے بعد جمعرات کو ایم کیوایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو کے قریب یاد گار شہداء پر حاضری کے وقت بھی ہمارے کسی کارکن یا کسی رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا جس سے یہ تاثر قوی ہوتا ہے کہ شاید کہیں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ایم کیو ایم لندن کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ جب میں نے ڈاکٹر حسن ظفر عارف سے یہ سوال کیا کہ کیاپاکستان مخالف نعرے لگانے اور لگوانے کے بعد الطاف حسین صاحب نے پاکستان کے مقتدر اداروں سے معافی مانگ لی ہے اور کیا وہ معافی قبول کر لی گئی ہے تو انھوں نے کہا کہ قائد تحریک نے عوام سے معافی مانگ لی ہے۔ میں نے بار بار یہ سوال کیا کہ کیا کسی بین الاقوامی دباؤ کے تحت ایم کیو ایم لندن کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تو ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے اپنا وہی جواب دھرانا شروع کر دیا۔ مذکورہ انٹر ویو کے بعد آف دی ریکارڈ ڈاکٹر حسن ظفر عارف نے مجھے یہ بھی بتایا کہ وہ اگلے روز یعنی ہفتہ 22اکتوبر شام چار بجے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں جس میں شہر کی چند اہم شخصیات جن میں ایک سابق جج بھی شامل ہیں، ایم کیو ایم میں شامل ہونے کا اعلان کریں گی۔ہفتہ کی شام کر جب ڈاکٹر حسن ظفر عارف پریس کانفرنس کے لئے کراچی پریس کلب پہنچے تو پریس کلب کے باہر ہی سے ان کو حراست میں لے لیا گیا جبکہ اسی دوران کنور خالد یونس کو بھی رنیجرز حکام نے حراست میں لے لیا جبکہ رابطہ کمیٹی کے ایک اور رکن امجد اﷲ پریس کلب مین چھپے رہنے کی وجہ سے حراست سے محفوظ رہے۔ بظاہر تو ڈاکٹر حسن ظفر عارف پر کوئی مقدمہ نہیں لہذا امید یہی ہے کہ انھیں کچھ بوچھ گچ کے بعد ایک آدھ روز میں رہا کر دیا جائے تاہم ان پر اگر کوئی مقدمہ قائم کر دیا گیا تو پھر معاملہ دیگر ہو جائے گا۔ کنور خالد یونس بھی ایم کیو ایم کی ان شخصیات میں شامل ہیں کہ جن پر بظاہر کوئی مقدمہ نہیں تاہم اگر کبھی خاموشی سے کوئی مقدمہ درج کر لیا گیا ہو اور اب اسے ظاہر کیا جائے تو بھی معاملہ بالکل مختلف ہو جائے گا۔ میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کو زیر حراست لینے پر اس لئے حیران ہوں کہ ریاست پاکستان کا کتنا عجیب رویہ ہے کہ یہاں مقتدر ادارے میڈیا پر ٹاک شوز اور انٹرویوز دیکھنے اور خبریں سننے کے بعد اپنی عارضی اور فوری طور پر عمل درآمد ہونے والی پالیسی بناتے ہیں۔ کیا یہ فیصلہ پہلے ہی کرنے کا نہیں تھا کہ الطاف حسین کے پاکستان مخالف نعرے لگانے کے بعد ایم کیو ایم لندن کو پاکستان میں سیاست کرنے کی اجازت دینی ہے یا نہیں لیکن چلئے اگر کسی دباؤ کے تحت اجازت دے ہی دی تھی تو پھر ایک ہی ہفتے کے مختصر عرصے میں یہ رد عمل دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ رویے بتاتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سب کام ایڈہاک ، عارضی اور فوری بنیادوں پر کئے جار ہے ہیں۔ کسی کام کے لئے کوئی مستقل اور ٹھوس پالیسی ہے اور نہ ہی اس قسم کی کوئی پالیسی بنائے جانے کی کوشش کو جاتی ہے۔ایسی صورت حال میں تو بس ہمارا اﷲ ہی حافظ ہے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 68379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.