عبید اللہ سندھی سوشلزم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

مولانا عبید اللہ سندھی کی سیاسی فکر کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ ایک متحرک، آزاد اور ترقی پسند ذہنی قوتوں کے مالک تھے، مذاہب کا مطالعہ کیا تو ایک ترقی پسند مذہب کو قبول کیا اور پھر اس کامطالعہ بھی ایک متحرک دماغ اور عقلی قوتوں کو بروئے کار لا کر کیا اور اپنے علمی و عقلی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لئے انہوں نے ولی اللہی فکر، سوشلزم اور عصری سماجی وسیاسی تبدیلیوں کا انتہائی باریک بینی سے مطالعہ کیا۔یہی وجہ ہے مولانا کو کسی خاص مسلک، نظریہ یا گروہ سے نہیں جوڑا جا سکتا، ان کے نظریات سیاسیات کے طالب علموں کو خود سے سوچنے اور اپنی عقلی قوتوں کو استعمال میں لانے کے لئے اکساتے ہیں تاکہ ایک متنوع دنیا میں مستقبل کے لئے بہتر سے بہتر راہیں متعین کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں سرمایہ داریت کے غلبہ کو ختم کر کے اور ارتکاز دولت کے خاتمہ کے لئے مولانا سندھی کا نقطہ نظر کسی اور ازم سے متاثر نہ تھا، وہ ولی اللہیٰ فکر ہو یا سوشلزم یا دیگر نظریات کو اپنی فکر سے پرکھتے تھے، اور ارتقائی سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے کسی مخصوص دائرے میں اپنے آپ کو مقید نہیں کیا۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ وہ سوشلزم سے متاثر تھے، اس حوالے سے ان پہ طرح طرح کے الزامات بھی لگائے گئے، اگر ان کی تحریروں اور ان کے نقل کردہ نظریات کا تجزیہ کیاجائے تو یہ خیال باطل ثابت ہوتا ہے کہ وہ شاید اس خطے میں سوشلزم کے اس نظام کو بعینہ اسی طرح ہندوستان میں قائم کرنا چاہتے تھے جس کا تجزیہ انہوں نے روس میں کیا یا انہوں نے اسی طرز پہ انقلاب لانے کی دعوت دی ہے۔ یقیناً مولانا سندھی نے سوشلزم کی تعریف کی اور اسے انسانوں کے لئے مفید قرار دیا لیکن ان کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کی سوچ کا دائرہ سوشلزم تک محدود ہوکر رہ گیا تھا، مولانا کی ترقی پسند مزاج اورانقلابی طبیعت کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ سوشلزم کے بارے میں مولانا سندھی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔

’’سوشلزم انسانی زندگی کا ترقی کی طرف ایک قدم ہے بہت اہم اور ضروری قدم اس سے آگے بھی انسانیت کے اور مقام ہیں شاہ ولی اللہ کا فکر زندگی کی آخری وسعتوں کو اپنے دامن میں لیتا ہے۔‘‘(1)

مولانا سندھی سوشلزم کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں
’’جب میں ماسکو میں تھا اور سوشلزم اور کمیونزم سے متعارف ہو رہا تھا اگر اس وقت میں یہ محسوس کرتا کہ سوشلسٹ نظام انسانیت کے پس ماندہ اور مظلوم طبقوں کو جو سماجی اور معاشی آزادی دلانے کا داعی ہے اس میں حقیقی طور پر مذہب اسلام رکاوٹ ہے تو میں کسی کی پرواہ کئے بغیر اسے چھوڑ دیتا ،میرا اس وقت بھی یہ یقین تھا اور آج بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ انسانیت عامہ کی اس فلاح وبہبود میں مذہب حارج نہیں،میں مارکسزم کا مخالف نہیں ہوں وہ بے شک انسانوں کی بھلائی کی ایک کوشش ہے اور قابل تعریف کوشش لیکن میرے نزدیک وہ میرے دین سے ایک درجہ کم ہے اور میرا دین اس سے اعلیٰ اور برتر ہے دونوں میں تضاد وتناقض نہیں فرق مراتب ہے۔‘‘(2)

سوشلسٹ معا شرے کا تجزیہ کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں
’’زندگی کے مادی تصور میں سب سے بڑا نقص یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کی تمام صلاحیتوں کی تکمیل نہیں کر سکتا مثلاً روس کے انقلاب میں چند بڑی بڑی شخصیتیں تھیں شروع میں تو ٹھوس سیاسی ومعاشی مقاصد کا سامنا تھا اور ان کو فوری حل کرنا تھا اس لئے عقلاً (دانشور)اور مزدور طبقہ دوش بدوش لڑتا رہا لیکن جب ادھر سے کچھ اطمینان ہوا تو عقیدہ مادیت کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہر شخص اپنی ذاتی مصلحت کی بنا پر اپنے گروہ کو زیادہ سے زیادہ اقتدار دینے لگا اور اس طرح قوم کے اجتماعی اخلاق بگڑنے لگے زندگی کا کوئی ماورائی تصور نہ تھا جو انہیں اس اغراض پرستی سے بچانے ممد ومعاون ہوتا۔‘‘(3)

آج اگر سوشلسٹ معاشروں کا تجزیہ کیا جائے تو مولانا سندھی کے درج بالا قول کی صداقت کا اندازہ ہوتا ہے آج سوشلسٹ معاشرہ اسی ڈگر پہ چل رہا ہے آج وہ بھی معاشی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، معاشی حوالے سے طبقاتی کشمکش کی تصویر نظر آ رہے ہیں، اس وقت سابقہ سوویت یونین کی تمام ریاستوں بشمول روس کے غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، نچلا طبقہ روزی کی تلاش میں مختلف ممالک کا رخ کر رہا ہے۔اور مقامی طور پہ مخصوص افراد اور گروہ مالی اجارہ داری حاصل کر رہے ہیں۔روس اور چین بھی آج طبقاتی کش مکش میں مبتلا ہو چکے ہیں، وہاں بھی سرمایہ دار طبقہ پیدا ہو چکا ہے اور ایک بڑی آبادی غربت سے بھی نیچے زندگی گذارنے پہ مجبور ہے۔ ذیل میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
روس کے سربراہ پوٹن ولادیمیر روسی معاشرے کے بارے میں اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سے روسی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں:
"Translating this indicator into the international statistics language, we have approximately 26% of people living below the poverty line by international standards," he said.
"Putin acknowledged that this indicator was comparable with such countries as Greece and Spain, where about 20% of people live below the poverty line. In the United States, the poor account for 18% of the population." (www.kyivpost.com/russia-and-former-soviet-union/pu tin-26-of-russians-live-below-poverty-by-in)

اعداد وشمار کے مطابق روس میں امیر، امیر تر اور غریب بدستور اسی حالت میں ہے:
(The rich are getting richer in Russia while the poor are staying the same despite rising living standards, according to statistics.It146s a fairly well-established clich233: Russia is the land of a few mega-rich oligarchs who plunder the country146s raw material wealth, while millions of poor people scrape by on stingy state handouts and miserly wages almost oblivious to the rising standard of living.Every year, statistics bear out a widening gulf between the rich and poor, despite the growth and consolidation of the middle
(4)class.

روس کی طرح اس وقت چین کے معاشرے کی بھی یہی حالت ہے، سرمایہ کی طاقت بڑھ رہی ہے، معاشرے میں غربت اور طبقات میں اضافہ ہو رہے ذیل کے اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں
China facts: POOR & POVERTY STATISTICS
China has about 150 million people living below the United Nations poverty line of one US dollar a day.
[ Wikipedia "Income Inequality in China"; China Development Research Foundation Feb 2011 report ]
Nearly 500 million Chinese people live on less than $2 a day.
[ BBC News "Millions 'left behind' in rural China" May 12, 2010 ]
85% of China's poor live in rural areas, with about 66% concentrated in the country's west.
[China Development Research Foundation Feb 2011 report ]
آج بلا کسی تعصب کے سوشلسٹ معاشروں کا بھی تجزیہ کیا جا سکتا، اس پہ تحقیق کی جا سکتی کہ کس طرح وہاں غربت و فلاس کے ڈیرے ہیں اور کس طرح سرمایہ داریت وہاں پنپ رہی ہے،وہی سوشلزم کا پرچار کرنے والے کمیونسٹ پارٹیوں کے کرتا دھرتا آج مال بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔پرچار سوشلزم کا اور بزنس ، منافع کا حصول اورسرمایہ دار ممالک کی طرز پہ مارکیٹوں اور اقوام کے وسائل تک رسائی کا عمل،چین کے اندر سرمایہ داروں کی کمپنیوں اور ان کی پرتعیش زندگی کے بارے میں بھی انٹر نیٹ پہ کافی مواد موجود ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جا سکتاہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ علمی اور عقلی پسماندگی کی وجہ سے �آج ہمارے معاشرے میں جس طرح کی خوش فہمیاں ماضی کے انقلابات کے حوالے سے پائی جاتی ہیں انہیں آئیڈیل بناکے انقلابی نعرے لگائے جاتے ہیں۔کاش وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کے ادراک کر کے کوئی بہتر حکمت عملی اپنائی جاتی۔اس وقت حالت یہ ہے کہ خود روسی اور چینی معاشرے میں نسلیں اس نظام سے تنگ نظر آتی ہیں راقم الحروف نے ایک چائینی دوست سے ماؤ کی تعلیمات اور سوشلزم کے بارے میں پوچھا تو اس نے ’’نہایت بے دلی اور مضحقہ خیز انداز میں کہا کہ وہ نہیں جانتا کہ ماؤ کی تعلیمات کیا ہیں اور نہ انہیں جاننے میں دلچسپی ہے‘‘۔اس کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک آزاد اور ترقی پسند معاشرہ چاہئے جہاں ہم آزادی سے رہ سکیں اور ترقی کر سکیں۔شاید اس کا نقطہ نظر قابل التفات نہ بھی ہو، مگر ایک سیاست کے طالب علم کو ان معاشروں میں ہونے والی تبدیلیوں کو ضرور سمجھنا چاہئے۔لب لباب یہ کہ مولانا سندھی نے ایک ترقی پسند عالم کی حیثیت سے اپنے آپ کو نہ تو سوشلزم کے دائرے میں بند کیا اور نہ ہی کسی اور فکر تک محدود کیا ، بلکہ یہ سوچ دی کہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکر کی تبدیلی ضروری ہے۔یعنی ہر دور ایک نئے فکر اور فلسفہ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، اس کے تقاضے پچھلے دور سے یکسر مختلف ہوتے ہیں اگر گذشتہ فکر سے عصری مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔لہذا نیا دور ایک نئی فکر کا متقاضی ہوتا ہے اس کے لئے فرسودہ سوچ اور فکر کو ترک کرنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے۔
(حوالہ جات)
1۔عبیداللہ سندھی،مولانا،افادات وملفوظات(مرتبہ پروفیسر سرور)لاہور،سندھ ساگر اکیڈمی،۱۹۹۶ء،ص۱۹۲تا۱۹۳
2۔ایضاً،ص۱۹۶
3۔ایضاً،ص۲۷۱
4۔(https://www.telegrap
h.co.uk/sponsored/rbth/society/9775359/russia-rich-poor-divide.html)
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151420 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More