بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اﷲ کریم جس انسان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اس کوحق کی روشنی عطا
کر دیتے ہیں ،وہ کفر و شرک کے اندھیروں سے نکل کراسلام کی دولت پالیتا
ہے،مصائب،مشکلات،دکھ،الم،رشتے ،قوم و قبیلے ہر ایک رکاوٹ اس کو اسلام اور
ایمان کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی ،ایسی ہی داستان حیات امام انقلاب،شاگرد
رشیدشیخ الہندمولانامحمود حسن ؒ،جدوجہد آزادی کے عظیم مجاہد،مفسر قرآن،مفکر
و ماہرسیاست دان مولانا عبیداﷲ سندھی ؒ کی ہے ،آپ 12محرم 1289ھ
بمطابق10مارچ 1872ء ضلع سیالکوٹ کے گاؤں چیانوالی کے سکھ گھرانے میں پیدا
ہوئے،آپ کے والد کا نام رام سنگھ ولد جسپت رائے ولد گلاب رائے تھا،جو آپ کی
پیدائش سے چار ماہ قبل وفات پا گئے تھے،آپ کی والدہ محترمہ پریم کو اور شیخ
التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کے دادا محترم نہن بھائی تھے ،یہ خاندان
جاٹ باجوہ کہلاتا تھا ،پیشہ کے اعتبار سے زرگر تھے ،جب عمر دو سال کی ہوئی
تو دادا دنیا فانی سے کوچ کرگئے، والدہ نے آپ کو ننھیال لے آئیں ،یہ خالص
سکھ خاندان تھا ،ناناکی وفات کے بعد ڈیرہ غازی خان میں مقیم اپنے ماموں کے
ہاں آ گئے۔
1878ء میں آپ نے جام پور سکول جانا شروع کیا ،دوران تعلیم آپ نے تقویۃ
الایمان اور تحفۃ الھند کا مطالعہ کیا جو آپ کی زندگی کے رخ کی تبدیلی کا
باعث بنا ، توحید باری تعالیٰ آپ کے دل میں رچ بس گئی اور آپ مشرکانہ ماحول
سے سخت بیزار ہوگئے،17اگست1987ء کو جب آپ مڈل کی تیسری جماعت میں تھے ،اظہار
اسلام کے لیے اپنے گھر کو خیرآباد کہا اور کوٹلہ رحم شاہ ضلع مظفر گڑھ پہنچ
کرتحفۃ الھند کے مصنف کے نام پر اپنا نام عبیداﷲ رکھا،یہیں آپ کا ختنہ کیا
گیا ۔ عزیز و اقارب آپ کو تلاش کررہے تھے کہ آپ نے سندھ طرف ہجرت کرلی،ایک
طالب علم جو آپ کا ہمسفر تھا اس سے دوران سفر صرف کی کتابیں پڑھ لیں،سندھ
میں عارف باﷲ،حافظ محمد صدیق صاحب کی خدمت میں پہنچے،اسلامی تعلیمات و مزاج
،فرائض وواجبات اور تہذیب و معاشرت کوپوری طرح سیکھنے کا موقع ملا،اسلام آپ
کی طبیعت ثانیہ بن گیا،حافظ محمد صدیق صاحبؒ فرماتے تھے کہ "عبیداﷲ نے اﷲ
کے لیے اپنے والدین کو چھوڑا اور اﷲ کے لیے ہم کو اپنا ماں باپ بنا لیا
ہے۔"آپ طریقہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے ، تحصیل علم کے لیے جب آپ اپنے
استاد محترم اورپیرو مرشد سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے دعا کی ،"اے اﷲ !عبیداﷲ
کا کسی راسخ عالم سے پالا پڑے،اسی دعا کا اثر تھا کہ آپ کو حضرت شیخ الھند
ؒ کی رفاقت حاصل ہوئی۔دین پور سیدالعارفین حافظ محمد صدیق ؒ کے خلیفہ
مولانا ابو السراج غلام محمد ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے،مولانا عبدالقادرؒاور
مولانا خدابخش ؒسے ہدایۃ النحو اور کافیہ پڑھیں ،خلیفہ صاحبؒ کے خط لکھنے
پرآپ کی والدہ یہیں آپ سے ملنے آئیں ،صفر1306ھ دارلعلوم دیوبند میں داخلہ
لیا منطق کی کتب ،شرح جامی مولانا حکیم محمد حسن ؒ سے پڑھیں ،1307ھ حضرت
شیخ الھند ؒ کے حلقہ درس میں بیٹھے،عقائد ،فلسفہ ،فقہ، اصول فقہ ،تفسیر اور
احادیث مبارکہ کی تمام کتب آپ سے پڑھیں اور امتیازی نمبروں سے کامیاب
ہوئے،ابوداؤد شریف مولانا رشید احمد ؒ سے پڑھنے گنگوہ تشریف لے گئے ، بیما
ر ہونے پر دہلی علاج کے لیے آئے اور یہیں مولانا عبدالکریم دیوبندی ؒ سے
حدیث شریف کی کتب مکمل کیں،مدرس اول دارالعلوم دیوبند مولانا سید احمد
دہلویؒ نے فرمایا "اگر اس کو کتابیں ملیں تو شاہ عبدالعزیز ثانی ہو
گا۔"دوران تعلیم "اصول فقہ "پر ایک رسالہ لکھا جس کو حضرت شیخ الھند مولانا
محمود حسن ؒ نے پسند فرمایا ۔
مولانا عبیداﷲ سندھی ؒ20جمادی الثانی 1308 ھ بمطابق 1891ء کو دارالعلوم
دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے ،حضرت شیخ الھند ؒ سے اجازت نامہ لے کرواپس
پیر خانہ سند ھ لوٹے ،راستے میں سیالکوٹ والدہ سے ملاقات کی ،انہوں نے آپ
کی ملاقات اپنے بھائی کے بیٹے نوشیخ حبیب اﷲ سے کروائی،جنہوں نے اپنے بیٹے
احمدعلی کو آپ کے حوالے کیا کہ ان کی اسلامی تربیت کریں،آپ اپنے ماموں زاد
بھائی کو لے سندھ کے لیے روانہ ہوگئے، امروٹ پہنچنے سے دن قبل آپ کے مرشد
خلیفہ محمدصدیق ؒ رحلت فرما گے ،آپ کے سرپرستی ان کے خلیفہ مجاز مولانا سید
ابوالحسن تاج محمود امروٹی نے کی ، انہوں نے اپنے مرشد کی طرح آپ کے ساتھ
مشفقانہ طریق اختیا رکئے رکھا ،کچھ عرصہ بعد آپ کے ماموں اور حضرت مولانا
احمد علی لاہوری ؒ کے والد محترم کا انتقال ہوگیا،مولانا غلام محمد کے حکم
پر آپ کی والدہ ،مولانا احمد علی ؒ کی والدہ اور ان کے تین بھائی بھی یہیں
تشریف لے آئے،آپ کا عقد شیخ حبیب اﷲ کی بیوہ سے کیا گیا جو کچھ عرصہ بعد
وفات پا گئیں (خدام الدین حضرت لاہوری ؒ)اور پھرآپ کا نکاح اسلامیہ سکول
سکھر کے ماسٹر مولوی محمد عظیم یوسف زئی کی لڑکی سے کیاگیا،اﷲ نے آپ کو دو
صاحبزادیا ں بی بی حوا اور بی بی مریم عطا کیں جن میں ایک کا نکاح مولانا
احمد علی لاہوریؒ اور دوسری کا نکاح مولانا غلام محمد دین پوری ؒکیا ۔آپ کی
والدہ استقامت کے ساتھ دین اسلام پر عمل پیرا رہیں،بقول مولانا عبیداﷲ
سندھیؒ والدہ اخیر وقت تک میرے طرزز پر رہیں یعنی اسلام پر قائم رہیں۔(ذاتی
ڈائری ص 10تا16)۔
حضرت شیخ الھند ؒ نے آپ کو 1315ھ میں دیوبند طلب کیا اور علمی کام کے ساتھ
ساتھ تحریکی سرگرمیاں شروع کرنے کی ہدایت فرمائی ،آپ نے واپس آکر ایک مطبع
قائم کیا جس سے اصلاحی ماہنامہ پرچہ "ہدایت الاخوان"شائع کرنا شروع کیا۔آپ
نے 1319ھ میں مولانا رشداﷲ ؒ کے ساتھ مل کر گوٹھ پیر جھنڈ ا(حیدرآباد )میں
"دارالارشاد "کے نام سے مدرسہ قائم کیا، جس کے سات سال تک آپ سرپرست اور
نگران اعلیٰ رہے۔حضرت شیخ الھند ؒ کو سندھ کے دورے پر بلوایا اور سلسلہ
قادریہ راشدیہ کے بزرگوں کو آپ کی تحریک سے وابستہ کرنے کے لیے انتھک محنت
فرمائی،یوں قادری راشدی بزرگان کے ذریعے علمائے دیوبند کی تعلیمی و سیاسی
جدوجہد کو سندھ میں متعارف کروایا اور ان بزرگوں کی جہادی تحریک کو شیخ
الھند کی سیاسی تحریک سے ہم آہنگ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا،آپ ؒ نے میرٹھ
اور دین پور کے ان بزرگوں کودارالعلوم دیوبند کے سالانہ جلسہ دستاربندی میں
مدعو کرکے ان مراکز کے درمیان درینہ رابطوں کودربارہ بحال کیا گویا آپ
دیوبند اور سندھ کے ان عظیم مراکز کے درمیان مضبوط واسطہ تھے۔
امام انقلاب مولانا عبیداﷲ سندھیؒ کو1327ھ میں دوبارہ دیوبند طلب کیا گیا
جہاں آپ ؒنے چار سال تک جمیعۃ الانصار کے لیے فعال کردار اد اکیا ،پھر حضرت
شیخ الھندؒ نے آپ کو دہلی بھیج دیا ،یہاں آپ ؒنے1331ھ میں ایک ادارہ"
نظارۃ المعارف القرآنیہ" قائم کیا، جس کا مقصد نوجوانوں کے عقائد و خیالات
کی درستگی اور الحاد ودینی سے بچانا تھا،وہ پکے اور نظریاتی مسلمان بن
جائیں۔ یہیں قیام کے دوران حضرت شیخ الھند ؒ امت کو درپیش مشکلات ،ان کے حل
کی جدوجہد کے حوالے سے آپ پر محنت کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ان کے ہم خیال
اور ہم عمل بن گئے،آپؒ کے حلقہ احبا ب میں حکیم اجمل خانؒ ،مولانا
ابوالکلام آزادؒ،مولانا محمد علی جوہرؒ،ڈاکٹر انصاری اور نواب وقار الملک
ؒشامل ہوئے، ان حضرات نے بھرپور انداز میں حضرت شیخ الھندؒ کے دست وبازو بن
کر سیاسی جدوجہد کو جاری رکھا۔ |