پاکستان
میں دہشتگردی پر قابو پانے کے لئے مختلف حکومتیں اپنی اپنی بساط اور دلچسپی
کے اعتبار سے کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن انھیں کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں
ہوئی۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ موجودہ دور حکومت میں ضرب عضب نامی آپریشن نے
دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تاہم جب بھی ملک میں کوئی دہشتگردی کا
کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے تو حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اس دعوے پر
سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ابھی دو ماہ قبل ہی تو کوئٹہ میں پہلے عدالتی احاطے
اور بعد میں سول اسپتال میں دہشتگردی کا بڑا واقعہ ہوا تھا کہ جس میں 70سے
زائد وکلاء اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن اس کے بعد صرف دو ماہ کے
مختصر سے عرصے میں پیر کی شپ تقریباً 11بجے ایک اور اسی نوعیت کا دہشتگردی
کا واقعہ کوئٹہ کے پولیس ٹرینگ سینٹر میں پیش آیا ہے جس میں اب تک کی
اطلاعات کے مطابق61کے قریب زیر تربیت پولیس اہلکار اور افسران شہید ہو چکے
ہیں جبکہ آپریشن کے دوران فوج کے ایک کمانڈو سمیت متعدد فوجی جوان بھی شہید
ہوئے ہیں۔اس دہشتگردی کے واقعہ میں زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں و افسران
اور فوجی جوانوں کی تعداد 200کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔کوئٹہ میں دہشتگردی
کے چھوٹے موٹے واقعات تو روز کا ہی معمول ہے جن پر اب تک قابو نہیں پایا جا
سکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹوں میں اس بات کی نشاندہی کر دی
گئی تھی کہ چند خود کش حملہ آوور شہر میں داخل ہو گئے ہیں اور وہ سرکاری
املاک ، دفاتر یا اہم شخصیات کو نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن ان انٹیلی جنس
رپورٹوں پر کان نہیں دھرے گئے۔ اس حوالے سے دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ
6ستمبر 2016کو انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
دہشتگردی کا نشانہ بنے والے اسی ٹرینگ سینٹر کی چار دیواری کے حوالے سے بات
کی تھی ۔ انھوں نے کہا تھا کہ ٹرینگ سینٹر کی چار دیواری توٹ پھوٹ کا شکار
ہے لہذا سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اس کی فوری طور پر مرمت کرائی جائے۔ اس
تقریب میں وزیراعلی بلوچستان ثناء اﷲ زہری بھی موجود تھے۔ بعد ازاں ثناء اﷲ
زہری نے اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مذکورہ ٹرینگ سینٹر کی چار دیواری
فوری طور پر بنوانے کی یقین دھانی کرائی تھی لیکن 6ستمبر 2016سے
24اکتوبر2016آ گئی اور وزیراعلی کا وعدہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ چار دیواری
کی مرمت و تعمیر کے حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی یہاں تک کہ گزشتہ روز
یہ دہشتگردی کا واقعہ پیش آ گیا۔ دہشتگردوں نے ٹرینگ سینٹر کی ٹوٹی پھوٹی
اور کمزور چار دیواری کا بھر پور فائدہ اٹھایااو ر بھاری اسلحہ اور خود کش
جیکٹوں کے ساتھ ٹرینگ سینٹر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے جس کا نتیجہ
سب کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ملک میں کہ جہاں آئے روز دہشتگردی کے
واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ قدم قدم پر سیکیورٹی رسک موجود ہے،لیکن ہمارے
حکمرانو ں کی ترجیحات کیوں نہیں بدلتیں۔آج بھی ہمارے حکمرانوں کا طرز
حکمرانی شا ہانہ ہے کہ بادشاہ سلامت کو اگر یا د رہا اور ان کے دل میں رحم
آیا تو وہ عوام پر ترس کھائیں گے ورنہ حساس ترین معاملے کی فائل بھی
سردخانے کی نذر ہو جائے گی۔اس دہشتگردی کے واقعہ میں صاف طور پر دکھائی دے
رہا ہے کہ یہ دہشتگردی وزیراعلی بلوچستان ثناء اﷲ زہری کی نا اہلی اور غیر
ذمہ داری کی وجہ سے ہوئی۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں کہ جب وزیراعلی
ثناء اﷲ زہری کے خطاب کی فوٹج موجود ہے کہ جس میں آئی جی بلوچستان کے خطاب
کے بعد وہ خطاب کرتے ہوئے ٹرینگ سینٹر کی چار دیواری بنوانے کا وعدہ کر رہے
ہیں لیکن تقریباً پچاس دن گزر جانے کے بعد بھی یہ کام نہیں ہو سکا اور
دہشتگردی ہو گئی، تو کیا وزیر اعلی بلوچستان ثناء اﷲ زہری سے استعفیٰ طلب
کر کے ان کے خلاف مقدمہ نہیں در ج کیا جانا چاہیے؟ کیا ان کے خلاف اس غیر
ذمہ داری کی بنیاد پر کہ جس کے نتیجے میں 61پولیس اہلکار، افسر اور فوجی
جوان جاں بحق ہوگئے اور 200کے لگ بھگ زخمی ہوئے، بھر پور کارروائی نہیں
ہونی چاہیے؟
|