بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس دہشت گردوں نے کوئٹہ کے پولیس
ٹریننگ کالج پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 60 اہلکار شہید اور 120 افراد
زخمی ہوگئے۔ تین حملہ آوروں نے 24 اکتوبر کی رات 11 بجکر 10 منٹ پر پولیس
ٹریننگ کالج پر اس وقت دھاوا بولا جب کیڈٹس آرام کررہے تھے جس کے بعد
فائرنگ اور دھماکوں کا آغاز ہوگیا۔ وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے
تصدیق کی کہ واقعے میں 60 اہلکار جاں بحق اور 117 زخمی ہوئے، جبکہ ایک خود
کش حملہ آور کی لاش کو قبضے میں لے لیا گیا۔ ایک زخمی اہلکار کا کہنا تھا
کہ جب حملہ ہوا تو کیڈٹس کے آرام کا وقت تھا اور اس موقع پر افرا تفری پھیل
گئی، جبکہ ان کے پاس رائفل بھی موجود نہیں تھی، جس سے وہ حملہ آوروں کا
مقابلہ کرسکتے۔ حملے کے بعد جائے وقوع پر فرنٹیئر کوراور ایس ایس جی
کمانڈوز پہنچے جنہوں نے ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ ایک کیڈٹ نے میڈیا کو
بتایا کہ میں نے تین نقاب پوش افراد کو دیکھا جن کے پاس کلاشنکوف تھیں، وہ
سینٹر میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کردی، تاہم میں دیوار کود کر بچ نکلنے
میں کامیاب رہا۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے حملے کے بعد میڈیا
کو بتایا کہ واقعے میں تین دہشت گرد ملوث تھے، انہوں نے پہلے واچ ٹاور میں
موجود گارڈ کو نشانہ بنایا اور پھر اندر اکیڈمی گراؤنڈز میں داخل ہوگئے۔
علاوہ ازیں جوابی آپریشن کی قیادت کرنے والے فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی)
بلوچستان کے آئی جی میجر جنرل شیر افگن کا کہنا تھا کہ ایف سی کے آنے کے
تین سے چار گھنٹے بعد صورتحال پر قابو پالیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت
گرد افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے، تینوں حملہ
آوروں نے خود کش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ دو حملہ آوروں
نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، جبکہ تیسرے دہشت گرد کو سیکیورٹی اہلکاروں نے
ہلاک کیا۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ پولیس ٹریننگ کالج میں تقریباً 700 کے
قریب کیڈٹس موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کیڈٹس کو بحفاظت بازیاب کرالیا
گیا۔ جوابی کارروائی میں اندھیرے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ
زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس کالج کے اندر آتی جاتی رہیں ، اس
دوران کئی ہیلی کاپٹرز بھی فضاء میں گشت کررہے تھے۔ جائے وقوع پر موجود
پولیس اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا
کہ حملے کے دوران کئی زور دار دھماکے بھی سنائی دیے۔ کم سے کم 65 زخمیوں کو
سول ہسپتال لایا گیا جن میں سے پانچ کو گولیاں لگیں، جبکہ ان میں سے تین کی
حالت تشویشناک بتائی گئی۔ ایک عینی شاہد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا
کہ اس نے تین دہشت گردوں کو براہ راست بیرکس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔
دہشت گرد شال اوڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی جس کے
بعد ہم سڑھیوں اور خارجی راستے کی جانب بھاگنے لگے۔ قانون نافذ کرنے والے
ادارے کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹریننگ سینٹر پر
پانچ مختلف سمتوں سے فائرنگ کی۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ دو حملہ آور
واچ ٹاور کے گارڈ کو ہلاک کرکے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے جبکہ ایک حملہ
آور کمپاؤنڈ کی پچھلی دیوار کود کر اندر آیا۔ ایس ایس پی آپریشنز محمد
اقبال نے بتایا کہ دو حملہ آور مرکزی دروازے سے داخل ہوئے۔ تین میں سے ایک
حملہ آور کی خود کش جیکٹ پھٹ سکی جس کی لاش سینٹر کے احاطے میں ملی۔
وزیراعظم نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج پر حملے کی مذمت کرتے
ہوئے کہا کہ دہشت گرد قوم کے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ ریڈیو پاکستان کی
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے صوبائی اور وفاقی حکام کو ہدایات
جاری کیں کہ وہ اس حملے میں ملوث افراد کو جلد از جلد بے نقاب کرکے انصاف
کے کٹہرے میں لائیں۔ پاکستان کے اکثر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے کوئٹہ میں
دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔ دوسری جانب امریکا نے بھی کوئٹہ حملے کی مذمت کی
اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا مشکل کی اس گھڑی
میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر
کے مطابق پولیس ٹریننگ کالج حملے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف کوئٹہ
پہنچے، جبکہ ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل
رضوان اختر اور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) میجر جنرل ندیم ذکی منج
بھی ان کے ہمراہ تھے۔ آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل شیرافگن کا کہنا ہے
کہ کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کا تعلق
لشکر جھنگوی سے تھا، جنہیں افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں۔ وزیر داخلہ
چودھری نثار کا کہنا تھا کہ آج ہم سب کے لیے دکھ کا لمحہ ہے، کوئٹہ میں بڑی
تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور لوگ روز روز اپنے پیاروں کی میتیں
اٹھاکر تنگ آگئے ہیں۔ چودھری نثار نے کہا کہ دہشت گردی کے تانے بانے سرحد
پار سے ہیں لیکن ہم نے اس کو ثابت بھی کرنا ہے، جب کہ دشمن کمزور ہوچکا ہے
تاہم ابھی ختم نہیں ہوا، ملک میں پہلے روزانہ 5 یا 7دھماکے ہوتے تھے، لیکن
اب 5، 7 ہفتوں بعد کوئی دھماکا ہوتا ہے اور ہمارا یہ مسئلہ ہے کہ کسی بھی
واقعہ کے بعد 20 دن تک ہم الرٹ رہتے ہیں، اس کے بعد پھر معمول پر آجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہیں خامی ہوتی ہے تو دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں،
لہٰذا اگر کہیں رو گردانی ہوئی ہے تو ذمے داروں کے خلاف کارروائی ہونی
چاہیے اور اگر سیکورٹی ناقص تھی تو ذمے داروں کو بھی برطرف کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہکوئٹہ سبی شاہراہ پر واقع یہ تربیتی مرکز بلوچستان کا واحد
پولیس ٹریننگ کالج ہے، جس میں بلوچستان بھر سے پولیس میں بھرتی ہونے والے
اہلکاروں کو تربیت دی جاتی ہے۔ کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج کو شدت پسندوں
نے اس سے پہلے بھی نشانہ بنایا تھا۔ یہ پولیس ٹریننگ کالج شہر کے نواحی
علاقے سریاب میں واقع ہے جو شہر سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کچھ عرصہ
قبل زیر تربیت پولیس اہلکاروں کو بارودی سرنگ کے حملے کا نشانہ بنایا گیا
تھا، جس میں پولیس اہلکار ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس پر راکٹ
حملے کے علاوہ بعض حملہ آوروں نے اس میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی، لیکن اس
حملے کو ناکام بنایا گیا تھا۔ رواں برس کوئٹہ میں دہشت گردی کے مختلف
واقعات رونما ہوئے، 28 جون 2016ء کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات
میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔ 8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر
دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد جاں بحق اور 112 سے زاید زخمی ہوئے تھے۔ 13
ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب
دھماکا ہوا تھا، جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ پولیس ٹریننگ کالج ماضی میں 2008 اور 2006 میں بھی دہشت گردوں
کے حملوں کی زد میں آیا تھا، جہاں کالج کے میدان میں راکٹ فائر کیے گئے تھے۔
صوبہ بلوچستان میں مختلف کالعدم تنظیمیں، سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں
پر حملوں میں ملوث رہی ہیں، جبکہ گزشتہ ایک دہائی سے صوبے میں فرقہ وارانہ
قتل و غارت میں اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان دہشتگردی میں بھارت کے کردار کو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان میں دخل اندازی کرتا رہا
ہے، گزشتہ کچھ ماہ سے بھارت نے کشمیر میں درندگی کی انتہا کردی، جس پر اس
کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے اور وہ تنہا ہوگیا ہے، جس کے بعد اس نے
پاکستان کو کھلی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں، بلوچستان واقعہ انہیں دھمکیوں
کا عملی مظاہرہ ہے، بھارت اس سے پہلے بھی پاکستان میں دہشتگردی کرواتا رہا
ہے۔پاکستان بننے کے بعد سے بھارت پاکستان میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور
بلوچستان میں اس کا جاسوسی کا نیٹ ورک ہے جہاں سے ٹریننگ حاصل کر کے دہشت
گرد بلوچستان ہی نہیں بلکہ کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی گھناؤنی
کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث متعدد بھارتی جاسوس
پہلے بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارتی
ظاہری بیانات اور درپردہ کاروائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارتی
حکمرانوں نے پاکستان کے اندر ریشہ دوانیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے ،
اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انہی مکروہ سازشوں کے ذریعے وطنِ عزیز کو دو لخت
بھی کیا جا چکا ہے۔ جس کا اعتراف مودی نے اپنے دورہ بنگلا دیش کے دوران
کھلے عام کر چکا ہے۔
تجزیہ نگار اس امر پر حیران ہیں کہ آخر دہشت گردوں نے بلوچستان ہی کا رخ
کیوں کیا ہے، کیا اس علاقے میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں زیادہ ہیں، کیا
ان کے سہولت کاروں کی تعداد بہت زیادہ بااثر ہے جس کے باعث دہشت گرد اپنی
کارروائیوں میں کامیاب ہو رہے اور سیکورٹی اداروں کے ہتھے نہیں چڑھ رہے ہیں۔
حالانکہ جب معلوم ہے کہ دشمن بلوچستان میں بزدلانہ کارروائیاں کر رہا ہے تو
اس سے پہلے سیکورٹی بڑھانی چاہیے تھی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان
میں دہشت گردوں کے کیمپ موجود ہیں جہاں سے وہ باآسانی بلوچستان کے راستے
داخل ہو جاتے ہیں، بھارتی ایجنسی ’را‘ بھی ان دہشت گردوں کی بھر پور معاونت
کر رہی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ’را‘ کے ملوث ہونے کے
ثبوت پاکستان باقاعدہ طور پر بھارتی حکومت‘ امریکا اور اقوام متحدہ کو پیش
کر چکا ہے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ نہ
بھارتی ایجنسیوں ہی نے بلوچستان میں مداخلت کا سلسلہ کم کیا اور نہ اقوام
متحدہ اور امریکا ہی نے بھارتی مداخلت روکنے کے لیے کوئی مذمتی بیان دینے
کی زحمت گوارا کی۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ بلوچستان میں
دہشتگردی کے سب سے زیادہ واقعات کوئٹہ اور سریاب روڈ پر پیش آتے ہیں اور
ایک عرصے سے پیش آرہے ہیں، گزشتہ روز بھی دہشتگردی کا واقعہ سریاب روڈ پر
پیش آیا ہے، یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان بہت زیادہ آبادی والا شہر نہیں ہے اور
نہ ہی سریاب روڈ اس قدر طویل ہے کہ وہاں کی سیکورٹی انتظامات میں بہتری نہ
لائی جاسکے، لیکن اس کے باوجود کوئٹہ میں دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بعد
حکومت دہشتگردوں کو پکڑنے کے اعلانات تو کرتی ہے، لیکن سیکورٹی کے انتظامات
نہیں کر پاتی، حالانکہ کم آبادی والے شہر میں سیکورٹی کے انتظامات کرنا
قدرے آسان ہے، لیکن حکومت اس کے باوجود ناکام ہے۔ اگر حکومت چاہے تو کوئٹہ
شہر میں بلاتفریق آپریشن کر کے دہشتگردوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتی ہے۔
اس کے ساتھ حکومت کو یہ بات بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ بلوچستان میں بدامنی
پھیلانے میں غیر ملکی عناصر ملوث ہیں، کئی بار اس کے شواہد سامنے آچکے ہیں
اور سیکورٹی ادارے بھی اس بات کا اقرار کر چکے ہیں، حکومت خود بھی کئی بار
اس بات کو میڈیا کے سامنے لاچکی ہے۔ کئی سرکاری اہلکار اس بات کی تصدیق
کرچکے ہیں کہ بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے
سرگرم ہیں، جن کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی ادارے اور انٹیلی
جنس ایجنسیاں سرگرداں ہیں۔ جب اس قسم کے حقائق سامنے آچکے ہیں تو اس کے بعد
بلوچستان میں سیکورٹی کو مزید متحرک و فعال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ ان
حالات میں تو سیکورٹی کے انتظامات مزید بہتر کیے جانے چاہیے، لیکن حکومت
تمام غیر ملکی سازشوں کے باوجود سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ملک بھر میں
پھیلی ہوئی دہشت گردی کا خاتمہ عوامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں اس کے ساتھ
ساتھ انٹیلی جنس اداروں کے باہمی روابط کو بھی منظم کیا جائے، پولیس
اہلکاروں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جدید اسلحہ کی تربیت دی جائے کیونکہ
پولیس روایتی تربیت اور اسلحہ کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت
نہیں رکھتی۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما جنگ ہے اس میں کامیابی کے لیے پوری
قوم کو متحد ہو کر میدان عمل میں اترنا ہو گا۔ |