15اگست
2013کو شام 5بجکر45منٹ پر سکندر نامی ایک شخص اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لہرا
کراسلام آباد میں ڈرامہ لگا دیتا ہے اور پورے 5گھنٹے ہماری بہادر پولیس اسے
پکڑنے میں ناکام رہتی ہے اردگرد کا علاقہ سیل کردیا جاتا ہے اور کسی کو بھی
ادھر اودھر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ملک بھر کا میڈیا اسے بھر پور کوریج
بھی دے رہا تھا اور ٹیلی فون لائن پر لا کر براہ راست سکندر کی گفتگو بھی
نشر کی جارہی تھی اور یہ ڈرامہ پورا ملک دیکھ رہا تھا کہ کیسے ایک مسلح شخص
نے ہمارے اداروں کو مفلوج کردیا تھا حکومتی سطح پر بڑی بڑی بڑھکیں لگانے
والے بھی اس حوالہ سے کوئی پالیسی دینے میں ناکام رہے اور آخر کار یہ ڈرامہ
پیپلز پارٹی کے زمرد خان نے ختم کیا اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے
30ستمبر2016کو رائے ونڈ روڈ پر اڈہ پلاٹ کے مقام پر احتجاج کا اعلان کیا تو
حکومتی سطح پر بغیر کسی سوچ سمجھ کے خوامخواہ شور مچانے والوں نے ڈنڈے لہرا
لہرا کر ٹانگیں توڑنے کی باتیں کرنا شروع کردی اورایسے ایسے بیانات داغے
گئے کہ یہ جلسہ نہ ہوا پاک بھارت جنگ ہوگئی ہے مگر رائے ونڈ والہ جلسہ بھی
ہوگیا نہ کسی کی ٹانگ ٹوٹی اور نہ ہی کسی طرف سے کوئی مزاحمت ہوئی اب ایک
بار پھر حکومتی سطح پر بیٹھے ہوئے نمک خوار رٹے رٹائے اور گھسے پٹے وہی
پرانے الفاظ دھرانا شروع ہوچکے ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرینگے تو وہ
حکومتی سرپرستی میں اپنے آپ کو زندہ کیسے رکھیں گے عمران خان اور ڈاکٹر
طاہرالقادری کی جنگ ملک میں لوٹ مار ،کرپشن اور اس نظام کے خلاف ہے جہاں
غریب کا بچہ مزید غریب بنتا جاتا ہے جبکہ لوٹ مار کرنے والوں نے اپنی آنے
والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ کرلیا ہے کیا یہ ملک اس لیے بنا تھا کہ
یہاں پر ڈاکو راج کریں اور غریب انسان بغیر کسی جرم میں ساری عمر جیل میں
گذار کر بے گناہ پھانسی پر چڑھ جائیں کیا ہمارے آباؤاجداد نے اس لیے
قربانیاں دی تھی کہ غریب کا ایم اے پاس بیٹا چپڑاسی اور کلرک بھرتی ہونے کے
لیے بھی ایم پی اے اور ایم این اے کے ڈیروں کا طواف کرے جبکہ حکمرانوں کی
جوتیاں چاٹ کرلوٹ مارکرنے والوں کے معمولی پڑھے لکھے بچے اعلی عہدوں پر
براجمان ہوجائیں اور میرٹ کے نام پر غریبوں کے بچوں کے ارمان کا خون کرکے
انہیں ایسی دلد ل میں دھکیل دیا جائے جہاں بے گناہ بھی آسانی سے پھانسی
گھاٹ تک پہنچ جاتے ہیں اور ہم ان بے گناہوں کے اذیت میں گذرے ہوئے ایک ایک
پل کا احساس کرکے ندامت کے آنسو بہانے کی بجائے انکے لواحقین کے ساتھ اظہار
افسوس بھی نہیں کرتے کیونکہ ہمیں تو صرف اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہے جس کے
لیے ہم دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں اور اس کے لیے ہمیں حکمرانوں کے تلوے
بھی چاٹنا پڑیں تو یہ کام بھی خوشی سے کرتے ہیں کیا کبھی ہمارے حکمرانوں نے
ایک پل کے لیے بھی یہ سوچا کہ جو بے گناہ جیلوں میں پڑے ہیں انکے گھر والوں
پر کیا بیت رہی ہوگی وہ کتنی جرات اور بہادری سے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں
اگر ایک شخص بندوق اٹھا کر اسلام آباد میں پورے پانچ گھنٹے حکمرانوں کو
ناکوں چنے چبوا سکتا ہے تو بے گناہوں کی سزائے موت کا غم برداشت کرنے والے
اور غربت کی ٹھوکریں سہنے والے کروڑوں بے گناہ جب اپنا حساب مانگنے میدان
میں نکلیں گے تو پھر صرف ایک شہر ہی بند نہیں ہوگا بلکہ پورا ملک ہی جام
ہوجائیگا کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہمارے حکومتی ادارے اپنا پنا کام ایمانداری
اور حب الوطنی سے کرتے مگر ملک کا پیسہ لوٹنے والوں نے نہ صرف لوٹ مارکرکے
خود کرپشن کے پیسوں کے انبار لگالیے بلکہ اکٹھی کی گئی ناجائز دولت کو
نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے ایسے ایسے بیوروکریٹ بھی ڈھونڈ لیے جو بات کرتے
ہوئے انکی جوتیوں سے نظر نہیں اٹھاتے جن کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی بلکہ
انہیں جو حکم دیا جاتا ہے اسے وہ من وعن پورا کرنے میں لگ جاتے ہیں بڑی
سیٹوں پر چھوٹے عہدے اور چھوٹے ذہن کے لوگ تعینات کردیے جاتے ہیں جو نہ صرف
عوام کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرتے ہیں بلکہ انہیں پھانسی گھاٹ تک لے جانے
میں بھی چوروں اور ڈاکوؤں کی مدد کرتے ہیں ایسے ہی افراد ملک اور قوم کے
دشمن ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں غربت اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے اوراسکے
نتیجہ میں جرائم کی نرسریاں پیدا ہورہی ہیں حب الوطنی سمیت ایثار اور
قربانی کا جذبہ ختم ہوتا جارہا ہے ایسے میں اگر عوام چوروں اور ڈاکوؤں کے
احتساب کے لیے اور اپنے حق کے لیے باہر نکلتی ہے تو بھانت بھانت کی بولیاں
بولنے والوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتے ہیں کیا پاکستان میں اچھی تعلیم ،بہتر
علاج اور اپنا گھرغریبوں کیلیئے صرف ایک خواب ہی رہے گا اور اسکی تعبیر
لٹیروں اورڈاکوؤں کے پاس ہوگی پیپلز پارٹی نے روٹی ،کپڑا اور مکان کے نام
پر عوام کو ایسا بیوقوف بنایا کہ ہماری سادہ لوح اور بھولی عوام آج تک بھٹو
کو نہیں بھولی اور بھٹو کے نام پر اسکے حواریوں نے عوام کا پیٹ کاٹ کر اپنے
گھوڑوں اور کتوں کو بھی انسانوں سے اعلی خوراکیں دیں اور انکے دور میں
پاکستان کا غریب مزدور دو وقت کی روٹی کو ترستا رہا مہنگائی اور مسائل ملک
میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے رہے اور ہمیں ہر گذرا دور آج سے بہتر لگنا محسوس
ہونے لگا کیونکہ ہر گذرنے والے دن کے ساتھ ہی خوشی کے لمحات کم ہوتے جارہے
ہیں اور انسان مسائل کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے پہلے مشکلات انسان کو
اپنوں سے بیگانہ کرتی تھی آجکل مسائل نے انسان کو اپنے آپ سے دور کردیا ہے
اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ہوسکتا ہے کہ کل ہمارے جنازے میں بھی شامل
ہونے کے لیے کسی کے پاس وقت نہ ہواس لیے ضروری ہے کہ ہم ابھی سے چوروں اور
ڈاکوؤں کو انکے قریبان سے پکڑ لیں تاکہ کل ہمارے بچے کسی بوسیدہ نظام انصاف
اور حکمرانوں کے ظلم کا نشانہ نہ بن جائیں ۔ |