بھارتی
قیادت کی طرف سے جنگ نہ ہونے کے امکانا ت پربیانا ت کا سلسلہ بڑھنے کے بعد
اب امریکی سائنس دانوں کے ایک تھنک ٹینک نے اپنی تہلکہ خیز ریسرچ اسٹڈی میں
انکشاف کیا ہے کہ اگرپاکستان اوربھارت کی جنگ ہوتی ہے تواس کانتیجہ پاکستان
کیلئے جوبھی ہو،مگربھارت کیلئے تقسیم کی صورت میں نکلے گا۔ یہ تقسیم ممکنہ
طورپرتامل ناڈواورآندھراپردیش میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے آزادی کے اعلان
کی صورت میں سامنے آسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کبھی بھی اپنے کسی بھی
پڑوسی کے ساتھ مکمل جنگ کی طرف نہیں جائے گا۔
’’فیڈریشن آف امریکن سائنسٹسٹ‘‘نامی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ دراصل
سائنسدان معاشرے کے وہ لوگ ہو تے ہیں جنہیں عام فرد سے زیادہ شعور اور
آگاہی ہوتی ہے اس لیے انہیں حالات کا سائنسی تجزیہ کرکے رائے عامہ بنا نی
چاہئے ،یہی وجہ اس رپورٹ کا بھی سبب ہے ۔
فیڈریشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی فوج اور انٹیلی جنس کو افراد
ی قوت کے لحاظ سے دنیا کی چندبڑی فورس میں سے ایک قراردیاجاسکتا ہے مگریہ
ایک ایسی فورس ہے جواب بھی پرانے زمانے میں جی رہی ہے اورنئے حالات
کاسامناکرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔اسی لئے اسے زمانہ امن میں بھی چار طرح
کی جنگیں مسلسل لڑنی پڑرہی ہیں۔مثلا ً بھارتی بحریہ افرادی اور سازوسامان
میں عدد ی لحاظ سے دنیاکی بڑی نیول فورس ہے۔ بھارت کی سمندر ی سرحد یں
زمینی سرحدوں سے کہیں بڑی ہیں اوراس کی معیشت بھی ان سرحدوں بڑی حد تک
بھروسہ کرتی ہے مگریہ نیوی ان سرحدوں کی نگرانی تک مؤثراندازمیں نہیں
کرسکتی،اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پالیسی سازوں نے سازوسامان بڑھانے پرتوتوجہ
دی مگر منظم کرنے اورمعیاربڑھانے پراس قدر توجہ نہیں دی گئی اس لئے کسی بھی
دہشتگرد یاآزادی پسند گروپ کیلئے بھارت سمندری حدودکو اسی کے خلاف استعمال
کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
منشیا ت کے اسمگلراس کی سمندری حدودکوبلاخوف وخطر استعمال کرتے ہیں مگر
انہیں روکنے والاکوئی نہیں ہوتا۔یہی اسمگلراسلحے کاکاروباربھی کر تے ہیں
جوبھارت بھرمیں پھیلے جرائم پیشہ گروہوں اورآزادی پسندوں کواپنی جدوجہدجاری
رکھنے میں مدددیتے ہیں ۔ گوکہ بھارت اپنی آئی ٹی انڈسٹری کیلئے دنیا میں
مشہورہے مگروہ اسے اپنے دفاع کیلئے استعمال کرنے میں مکمل ناکام رہاہے۔مثلا
ًجدیدسائنسی بنیادوں پر منظم انداز میں معلومات جمع کرکے ممبئی حملوں کو
وقوع پذیرہونے سے قبل ہی ناکام بنانے میں ناکامی اس کی ایک مثال ہے دوسرے
نمبرپرنامعلوم گروہوں کی طرف سے سا ئبر وار فیئرمیں بھی بھارت
کوباربارپریشان کئے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔مضبوط آئی ٹی انڈسٹر ی
رکھنے والابھارت ان واقعات کی روک تھام میں ناکام رہا جس سے اس بات کا خطرہ
اوربڑھ جاتا ہے کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اگرسائبراٹیک ہو تا ہے
توحالات مزید گمبھیر ہوجائیں گے۔
دوسرے نمبرپربھارت کوسب سے بڑاخطرہ بڑھتی ہوئی لسانی نسلی،اورمعاشی خلیج سے
ہے گوکہ بھارت اب بھی اس بات کوسمجھنے میں ناکام رہاہے کہ کسی بھی مخالف کے
لئے یہ ایک سنہری موقع ہوتاہے کہ وہ اپنے مخالف معاشرے میں موجودناپسند یدہ
چیزوں یااقدامات کومزیدابھارے۔جدیددنیامیں اب یہ کو ئی غیرمعمولی چیزنہیں
رہی کہ کس طرح مخالف معاشرے میں بے چین گروپوں کو مزید بے چین کرکرے
سارانظام تہس نہس کردیاجا ئے۔بھارت میں یہ چیزبہتات سے موجودہے دنیاکی سب
سے زیادہ متضادزبانوں،مذاہب اورمعاشرت کے حامل بھارت میں کوئی بھی
ایسااقلیتی گروپ نہیں جوخوش ہویہ بات بھی کسی سے پو شیدہ نہیں کہ کوئی بھی
تحریک کسی امدادکے بغیرنہیں چلتی اورجنگ کی صورت میں ایسے گروپ مخالفین
کیلئے سرمایہ ثابت ہوں گے۔ بھارت نے کبھی بھی ایسی کوئی کو شش نہیں کی جس
سے اقلیتی گروپوں کویہ احساس ہوتاکہ بھارت ان کاملک ہے ۔
یہی سلوک ریاستوں کے ساتھ بھی مسلسل جاری رکھاگیاہے۔اگر بھارت کسی بڑی جنگ
میں مصروف ہوتاہے تویہ موقع ان گروپوں کیلئے آزادی کاایک ایسا موقع ہو
گاجسے وہ حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔جنگ کی صورت میں بھارتی دفاعی
اداروں کی کیاپوزیشن ہوگی اس کی ایک جھلک اس وقت بھارتی خفیہ اداروں کی
صورت میں دیکھی جاسکتی ہے جنہیں اس وقت ہرطرف سے اتنے دباؤکاسامناہے کہ وہ
یہ بتائیں کہاں کہاں کیامسئلہ ہے اوراس سے کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
بھارتی حکومت اپنے اداروں سے یہ جانناچاہتی ہے کہ اندرون ملک ناراض گروپوں
کی حقیقی تعداداورکاروائی کی صلاحیت کیاہے اوروہ کب کونسی کارروائی کاارادہ
رکھتے ہیں۔ بھارتی انٹیلی جنس ان سوالا ت کاجواب دینے سے قاصرہے۔ بھارتی
سلامتی کوجنگ کی صورت میں چوتھابڑا خطرہ منظم اورزیرزمین مجرم گروپوں سے ہے
جوتیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اورگنجان شہروں میں اس طرح سرایت کرچکے ہیں کہ
انہیں معاشرے سے الگ کرنا کسی صورت ممکن ہی نہیں۔
خیال کیاجاتاہے کہ ان کیلئے پیسہ ہی سب کچھ ہے اوریہ اس کیلئے منشیات کی
اسمگلنگ سے لے کراسلحہ فراہم کرنے تک ہرکام کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں کے
ساتھ ان کی مڈبھیڑکی وجہ سے یہ کسی بھی سرکاری گروپ کے دوست نہیں ہیں گوکہ
سرکاری ایجنسیوں نے ایسے گروپوں میں اپنے آدمی داخل کررکھے ہیں جوانہیں
معلومات پہنچاتے رہتے ہیں مگریہ گروپ سرکاری اداروں سے زیادہ بہترانٹیلی
جنس اوروسائل رکھتے ہیں۔کوئی بھی خارجی ادارہ ان گروپوں سے اپنے تعلقات
بہتربناکربھارتی معاشر ے کوغیرمستحکم بناسکتاہے حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ
گروپ اپنے اپنے علاقوں میں اس قدر طاقتورہیں کہ کسی بھی علاقے کوغیرمستحکم
کرناان کیلئے مشکل نہیں۔ یہ منشیا ت سپلائی کرتے ہیں اوراسلحہ اسمگل کرتے
ہیں۔ یہی دوچیزیں ان کے دوست اوردشمن بناتی ہیں۔ بھارت سے آزادی کے
خواہشمندایسے مجرم گروپوں سے نہ صرف قریبی تعلقات رکھتے ہیں بلکہ مذہبی
اورنسلی بنیادوں پر وفاداریاں بھی پیداہوتی ہیں ممبئی حملوں میں بھی ان
گروپوں کاہاتھ واضح تھااورحملہ آوروں نے ان ہی کی مددسے اپنامنصوبہ ترتیب
دیاتھا ۔
داخلی طورپربھارت کوسب سے خطرہ بظاہرکشمیرمیں محسوس ہوتاہے مگردر حقیقت سب
سے بڑاخطرہ آندھراپردیش اورتامل ناڈومیں نکسل باڑیوں سے ہے۔ ان دونوں
ریاستوں میں بھارت سے علیحدگی کی تحریک نہ صرف انتہائی منظم ہے بلکہ اس کی
بنیادقومیت اورلسانیت پرمبنی ہے۔گہری عوامی جڑیں ہونے کے سبب بہت کو شش کے
باوجوداس تحریک کوختم نہیں کیاجاسکا،انہیں سب سے زیادہ امداداپنے ہی
تاجربرادری سے ملتی ہے جونکسلوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔اگرپاکستان سے جنگ
ہوتی ہے اوربھارت کی توجہ آندھراپردیش سے ذرا بھی ہٹتی ہے تووہ اس کے ہاتھ
سے نکل جائے گا۔یہاں پرپہلے ہی بغاوت جیسی صورت حال موجودہے جوکسی بھی جنگ
کی صورت میں عام شورش میں بدل سکتی ہے اورطویل سمندری سرحدرکھنے والا یہ
علاقہ اگرغیرمستحکم ہوتاہے تواس کامطلب ہے کہ بھارتی بحریہ کوبھی اپنی کافی
توجہ اس طرف دینی پڑے گی ایک ایسی جگہ پرجوبھارت کی حدودمیں ہی واقع ہے
نیوی کی موجودگی دشمن کے خلاف ممکنہ اقدامات میں کمزوری کاباعث ہوگی۔
بھارتی ادارے بھی اپنی رپورٹس میں یہ بات وضاحت سے لکھ چکے ہیں کہ بیرونی
جنگ میں ملوث ہونے کے بعد تامل ناڈواورآندھراپردیش پہلے بھارتی علاقے ہوں
گے جہاں سخت مشکلات کاسامناکرناپڑے گا۔’’فیڈریشن آف امریکن سائنسٹسٹ‘‘نے
کارگل جنگ کے بعدبھارتی’’ کارگل ریویو کمیٹی‘‘ کی رپورٹ کا مطالعہ کیا
تھا،اس میں بھی یہ بات واضح طورپرلکھی تھی کہ بھارت کے داخلی خطرات میں سب
سے بڑاخطرہ تامل ناڈواورآندھراپردیش میں ہے۔ کمیٹی نے یہ بھی رپورٹ میں
شامل کیا تھاکہ ان علاقوں میں بھارتی انٹیلی جنس کا ر کردگی بہترنہیں
ہے۔کارگل جنگ کے برسوں بعد اب بھی یہی صورت حال ہے۔
نکسل باڑیوں کے بعددوسرابڑاخطرہ آسام میں چلنے والی تحریک ہے آسام ،
میزورام،ناگالینڈ،ہماچل پردیش اوراس کے ساتھ موجودتمام ریاستیں بھارت سے
علیحدگی کی طویل تحریکوں میں مصروف ہیں۔ ان ریاستوں اوربھارت کے درمیان
بنگلہ دیش حائل ہے جوکبھی مشرقی پاکستان تھامگراب بنگلہ دیش بننے کے بعدبھی
بھارت کی کٹھ پتلی حسینہ واجدبھی مداخلت کوروک نہیں سکی۔صرف ایک تنگ پٹی
اورایک مشکل سٹرک بھارت کو اپنی ان شورش زدہ ریاستوں سے ملاتی ہے جہاں
بھارت کومستقل حالت جنگ میں رہناپڑتا ہے نکسل باڑیوں کے برعکس ان شورش زدہ
ریاستوں کی سرحدیں چین کے ساتھ ملتی ہیں جنہیں بھارتی اداروں نے خارجی
خطرات میں سب سے اوپر رکھا ہواہے گوکہ چین کے ساتھ عرصے سے جنگ یاجھڑپ کا
کوئی واقعہ نہیں ہواہے اوردونوں ممالک کے درمیان دوستی کی منازل بھی طے
ہورہی ہیں مگرپھر بھی بھارتی اداروں نے چین کوبھارت کیلئے خارجی خطرات میں
سب سے مقدم رکھاہواہے۔آسام میں موجودعلیحدگی پسند گروپ جوبھارتی افواج کی
طرف سے کئے گئے آپریشنزمیں نقصان کاسامناکرتے رہے ہیں وہ کسی جنگ کی صورت
میں یقیناًحساب برابرکرنے کی کوشش کریں گے۔بھارتی علیحدگی پسند وں کی
موجودگی پاکستانی سرحدوں کے قریب بھارت پنجاب میں بھی ہے گوکہ بھارت نے سخت
ترین آپریشن کے ذریعے سکھوں کوکچل دیاتھا مگرزیرزمین تحریک اب بھی موجود ہے
اوربھارتی خفیہ اداروں کی رپورٹس میں ان کانمبرداخلی خطرات میں تیسرے
نمبرپرآتاہے اوراس کے ساتھ ہی کشمیر کی موجودہ صورتحال اب بھارت کی سرحد ی
خطرات کی فہرست میں سرفہرست ہوگیاہے کہ اب آئے دن کشمیری نوجوان نسل بھارتی
فوجی کیمپوں پرحملے کررہی ہے جس سے بھارتی فوج میں سراسیمگی دیکھنے میں
آرہی ہے۔ ان تمام اندرونی خطرات کی موجودگی میں بھارت کبھی بھی ایک مکمل
جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اگر ایسا ہو تاہےتو نتیجہ یقینا ًان علیحد گی
پسند وں کی جیت کی صورت میں نکلے گا جو کسی ایسے ہی موقع کی تلا ش میں اپنی
آزادی کا انتظارکررہے ہیں ۔ |