بر صغیر پاک و ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے
آنے سے پہلے مسلمانوں کی حکومت تھی ۔درحقیقت ان دنوں انگریز اس بات پر زور
لگا رہا تھا کہ کسی طرح اسے پاؤں رکھنے کی جگہ مل جائے تو وہ حکومت کرنے کی
جگہ خود ہی بنا لے گا جس کیلئے اسکے پاس منظم انتظام موجود تھا ۔بظاہر تو
ایسٹ انڈیا کمپنی خطے کیلئے بہت بڑے معاشی استحکام کا ذریعہ تھا لیکن تکبر
اور عیش و عشرت کے نشے میں دھت حکمران یہ نہیں جان سکے کہ ان معصوم چہروں
کے پیچھے ایک خوفناک درندہ ہے جو عنقریب ان کی سلطنتوں کو نگلنے والا ہے
۔کافر کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتا یہی بات تاریخ بتاتی ہے
کہ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں اپنے پاؤں جما لئے تھے تو کفار کو
ورغلایا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا جس کے نتیجے میں
مسلمانوں کی حکومت برصغیر سے ختم ہو گئی اور پھر یہ سلسلہ آگے سے آگے بڑھتا
گیا ۔اسی سلسلے نے غرناطہ ،فلسطین ،عراق ،شام، لیبیا،مصر ،افغانستان اور
دیگر مسلم ممالک کی جانب سفر کیا اور ہر جگہ مسلمانوں کو رسوا کیا ۔اگر ہم
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ بات واضح ہو تی ہے کہ جب بھی مسلمانوں نے
شکست کھائی اس میں ایک بات یکساں تھی کہ سبھی حکمران عیاشی اور کرسی کے
لالچ میں کھوئے آپس میں ہی لڑ رہے تھے محل کے باہر کیا ہو رہا ہے اتنی بھی
معلومات نہیں رکھتے تھے اور پھر اﷲ کے راستے سے ہٹ کر شیطان کے راستے پر
چلنا سب سے بڑی وجہ تھی ۔لیکن اس کے بعد جب مسلمان برصغیر کے ایک چھوٹے سے
خطے پر اپنی حکمرانی کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اب ستر سال گزرنے کے با
وجود ان لوگوں نے سبق نہیں سیکھا کہ اسی کرسی کے لالچ اور عیاش پرستی کی
وجہ سے پہلے بھی ہم نے کفار کی غلامی کی اور اب پھر اپنی عیاش پرستی اور
جھوٹی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کیلئے کرپشن کا سہارا لے کر ملک کو
دیوالیہ ہونے کے دوہرائے پر لا کھڑا کیا ہے اور پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ
کرسی کے لالچیوں نے جو تھوڑی بہت معیشت چل رہی ہے اس کو بھی جام کر کے با
لکل پاکستان کے وجود کو ختم کرنے کی تیاریاں کر لیں ہیں جن میں نہ تو یہ
لالچی حوس کے پجاری کبھی جیت سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی دشمن اپنی سازشوں میں
کامیاب ہو سکتا ہے ۔حال ہی میں ملک پاکستان جو اس وقت ایک اسلام کا قلعے کی
اہمیت کا حامل ہے کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑا چیلنج
دہشتگردی اور اقتصادی راہداری منصوبے کی کامیابی کے ساتھ تکمیل جس کو
ثبوتاژ کرنے کیلئے دشمن ممالک بلوچستان ،سندھ اور گلگت بلتستان میں
سرگرمیاں کرتے پکڑے گئے ہیں اور دہشتگردی کو ختم کرنے کیلئے سب سے بڑا
آپریشن ضرب عضب پر اب تک ستر ارب ڈالر سے زائد کی خطیررقم جبکہ سینکڑوں
نوجوان بھی شہید ہو چکے ہیں ۔ ان تمام واقعات کے پیش نظر نہ صرف پاکستان
بلکہ دنیا بھر میں مقبول ترین پاکستانی سیاستدانوں کے رویے اور بیانات
مضحکہ خیز ہیں ۔کبھی سال 2013 کے الیکشنوں کو دھاندلی کی بنیاد پر کالعدم
قرار دے کر دھرنے اور احتجاج بازی کرنا تو کبھی سندھ میں پکڑے جانے والے
دہشتگردوں اور سہولت کاروں کے معاملوں پر سخت بیانات دینا ۔اب پاناما لیکس
کے معاملے کو آٹھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے جس پر نت نئے ہنگامے اور
ناچ بازیاں منظر عام پر آ رہی ہیں اور اس سے بھی پہلے ماڈل ٹاؤن کا سانحہ
جو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا بھی زیر غور ہے ۔فیصل آباد میں دن دیہاڑے دو
بھائیوں کو قتل کر وا دیا جاتا ہے تو کبھی پشاور میں روح پرور سانحہ ہو
جاتا ہے گویا یوں لگتا ہے کہ سب کی کڑی ملتی ہے جو کہیں الجھی ہوئی ہے ۔ اس
وقت اگر ملکی سیاست میں موجود بے اعتدالی کے تناظر میں چند دنوں کے اخبارات
پر نظر دوڑائی جائے تو یہ ایک افسوسناک حقیقت نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ
وزیر اعظم نواز شریف ،وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،پیپلز پارٹی کے سید
خورشید شاہ اور قمرالزمان کائرہ اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران
خان ایسی معزز اور معتبر شخصیات کے بیانات اس قدر اشتعال انگیز اور ہیجان
انگیز ہیں کہ کوئی بھی ان کے اخلاقی اور سیاسی معیار سے مطمئن نہیں ہو
گا۔سیاسی میدان میں ایک دوسرے کی ڈگڈگی بجانے والے ،چور ،ڈاکو ،لٹیرے
،بدنیت جیسے غیر مہذب اور غیر اخلاقی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے پاناما
پیپرز کی آڑ میں ایک دوسرے کو نا اہل قرار دیا جاتا ہے ۔تحریک انصاف ہر وقت
کبھی اسلام آبادبند کرنے تو کبھی احتجاجوں اور ریلیوں جیسے جنونی فیصلوں پر
قائم نظر آتی ہے تو حکمران جماعت بھی اس کے جواب میں سرکاری طاقت اور قوت
کے بل پر اشتعال انگیز بیان بازی کر رہی ہے ۔ایسے میں پیپلز پارٹی کے لیڈر
سید خورشید شاہ کی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عمران خان کو سیاست اور نواز
شریف کو حکومت کرنی نہیں آتی ان بیانات کی نشاندہی کے بعد اس بارے میں کسی
ثبوت کی مزید ضرورت ہرگز نہیں کہ ہمارے سیاسی اکابرین کو ایک دوسرے کے خلاف
شعلہ بیانی سے کام لینے کیلئے کس قدر فالتو وقت میسر ہے ۔ان سب واقعات اور
بیانات کے پیش نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سیاستدانوں کو وطن عزیز
کی واقعی کوئی فکر ہے ؟یا ان کیلئے وطن عزیز کا وجود ان کے اپنے وجود اور
کاروباروں کی نسبت مضحکہ کے سوا کچھ نہیں ؟؟کیونکہ جب سے آپریشن ضرب عضب
میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت بڑی کامیابی اور اقتصادی راہداری کا
منصوبے کا معاہدہ طے پایا ہے تب سے ملک مخالف دشمنوں کی سرگرمیاں بھی بڑھ
گئیں ہیں اور یہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اقتصادی راہداری
منصوبہ ان کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے جس کیلئے وہ دن رات جی توڑ کوششوں میں
مگن ہیں ۔پہلے تو ملک میں مداخلت کر کے ملک مخالف سرگرمیاں کی گئیں اور پھر
سفارتی سطح پر پاکستان کو اکیلئے کرنے کی ناکام سازشیں رچائیں گئیں اور پھر
چند روز قبل بھارتی شہر گوا میں برکس کانفرنس کے موقع پر بھارتی حکام نے
روایتی فریب کاری کے ساتھ پاکستان کو دہشتگردی کا منبع قرار دینے کیلئے
کھلم کھلا سفارتی کوشش کی جس کو چین نے بروقت مداخلت کر کے بہر حال ناکام
بنا دیا ۔کسی بھی جمہوریت کا حسن یہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن حکومت کو تنقید کا
نشانہ ضرور بنائے لیکن وہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح
ہو جبکہ حکومت کام ہوتا ہے کہ وہ عوام کو سنہرے خواب اور روشن باغ دکھانے
کی بجائے ملکی ترقی کیلئے عملی اقدامات کرے کیونکہ آئندہ الیکشنوں میں یہ
بھی ہو سکتا ہے کہ آج کی حکمران جماعت اپوزیشن بن جائے اور اپوزیشن جماعت
حکمران !!اس لئے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ حکمران جماعت مثبت قدم اٹھاتے ہوئے
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرکے ان کے تحفظات دور کرنے کے ساتھ ساتھ
اعتماد میں لے تاکہ ملک میں استحکام آنے کے بعد مسئلہ کشمیر کو جلد از جلد
حل کیا جا سکے۔
|