بلوچستان میں پولیس ٹریننگ مرکز پر حملہ۰۰۰ پاکستانی سیکیوریٹی کی نااہلی
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
پاکستان میں پھر ایک مرتبہ دہشت گردوں نے
درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے قصورعوام کی حفاظت و سلامتی کرنے والے ان
نوجوانوں کو نشانہ بنایا جو ابھی تربیتی مراحل سے گزر رہے تھے۔ ـذرائع
ابلاغ کے مطابق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واقع
سریاب پولیس ٹریننگ سنٹر پرپیرکی شب یعنی24؍اکٹوبر دس بچے کے قریب شدت
پسندوں کے حملے میں 61پولیس اہلکاربشمول ایک فوجی ہلاک جبکہ 120سے زائد
افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ روئٹرز خبر رساں ایجنسی کے مطابق شدت پسند تنظیم
دولت اسلامیہ نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نواز
شریف اپنی تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کرکے بلوچستان پہنچ گئے جبکہ فوجی
سربراہ جنرل راحیل شریف بھی منگل کی صبح کوئٹہ پہنچ کر مرحومین کی نماز
جنازہ میں شرکت کی اور فوجی عہدیداروں ودیگر اعلیٰ سیکیورٹی عہدیداروں سے
ملاقات کرکے تفصیلات سے آگاہی حاصل کی۔ پاکستان میں کبھی طالبان تحریک تو
کبھی داعش یا کوئی اور دہشت گرد گروپ بے قصور انسانوں پر فائرنگ ،خودکش
حملیاور بم دھماکے کرکے ظلم و بربریت کرتے ہیں۔ پاکستان کے اسکولوں میں
طلباو طالبات سکون و اطمینان سے پڑھائی کرسکتے ہیں اور نہ مساجد میں مسلمان
بارگاہِ الٰہی میں خشوع و خضوع سے نماز و ذکر اذکار کرسکتے ہیں۔ نہ صبح
سویرے حصول تعلیم اور روزگار پر جانے والوں کو شام اپنے گھر واپس لوٹنے کا
بھروسا رہتا ہے ۔ پاکستانی عوام پر سڑکوں، تفریحی مقامات ، شاپنگ مالس،
بازاروں و دیگر شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے اداروں میں جاتے ہیں تو
ہمیشہ انکے سروں پر موت کا سایہ سایہ فگن بنارہتا ہے۔ روزگار کے سلسلہ میں
خلیجی ممالک میں اپنے افراد خاندان کیلئے زندگیوں کو قربان کرنے والے جب
اپنے ملک عزیز واقارب سے ملنے آتے ہیں تو انہیں ایئر پورٹ سے گھر جانے تک
یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں کوئی دہشت گرد کا سامنا نہ ہوجائے اور وہ ان
سے سب کچھ چھیننے کے علاوہ انکی جان بھی نہ لے لیں۔جس ملک کو اسلامی
جمہوریہ کہا جاتا ہے وہیں مسلمان سب سے زیادہ پریشان حال زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں ۔ ان کے جان و مال کی سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں۔ یہی حال
افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیاء، مصروغیرہ کا ہے۔ شدت پسند تنظیمیں جو
جہاد کے نام پر عام بے قصور مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔
روئٹرز ایجنسی کے مطابق دولت اسلامیہ کی خودساختہ اعماق نیوز ایجنسی سے
جاری بیان میں کہا گیا ہیکہ پولیس تربیتی مرکز پر حملہ اس کے تین جنگجوؤں
نے کیا ہے۔ حملہ کے فوری بعد آئی جی ایف سی میجر جنرل شیرافگن نے ذرائع
ابلاغ کو بتایا کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی العالمی سے
ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے مطابق حملے کی اطلاع ملتے ہی ایف
سی ، پولیس اور کمانڈوز کے دستے جائے وقوع پر پہنچ کر حملہ آوروں کے خلاف
کارروائی کا آغاز کیااور کم بیش چار گھنٹے تک یہ کارروائی جاری رہی۔
سیکیوریٹی فورسز کے مطابق تمام حملہ آور مارے جاچکے ہیں دو حملہ آوروں نے
خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور ایک کو سیکوریٹی اہلکاروں نے ہلاک کیا۔ آئی
جی ایف سی میجر جنرل شیرافگن نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ کالعدم تنظیم لشکر
جھنگوی العالمی سے تعلق رکھنے والے حملہ آوروں کو افغانستان سے ہدایات مل
رہی تھیں۔ انہوں نے بعض پولیس عہدیداروں کا بھی اس حملہ آوروں سے ملے ہونے
کا اشارہ دیا ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے غیر ملکی سیکوریٹی ایجنسیوں کے ملوث
ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری کے
مطابق انہیں چند روز قبل اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ دہشت گرد کوئٹہ شہر
میں گھس گئے ہیں جس کے بعد پورے شہر میں ہائی الرٹ نافذ کیا گیا تھا ۔ ان
دہشت گردوں کو شہر میں موقع نہیں ملا اور وہ شہر کے باہر 15کلو میٹر دور
پولیس تربیتی کیمپ جو دو ڈھائی سو ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے پر پہنچ کر حملہ
کیا۔بلوچستان صوبائی حکومت کے ترجمان انور الحق نے اعتراف کیا ہے کہ شدت
پسندوں کے حملے کا نشانہ بننے والے پولیس ٹریننگ سنٹر مرکز میں سیکوریٹی کی
صورتحال مثالی نہیں تھی اور موجودہ خطرات کے پیش نظر سیکیوریٹی زیادہ سخت
اور غیر معمولی ہونی چاہیے تھی اس سنٹر میں چار سو زیرتربیت اہلکار موجود
تھے ، وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی سیکیوریٹی خامیوں سے
متعلق کہا کہ دہشت گردی کے واقعات سیکیوریٹی میں خامیوں کی وجہ سے ہوتے
ہیں۔پاکستانی حکومت اور فوج کا دعویٰ رہا ہے کہ پاکستان سے شدت پسندوں کا
تقریباً صفایا ہوچکا ہے اس کے باوجود ہرچند ماہ کے وقفے کے بعد کسی نہ کسی
شہر و مقام پر بڑے حملہ کی خبر پاکستانی فوج اور حکومت کے دعوؤں کو مسترد
کردیتی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ پاکستانی حکومت و اپوزیشن پڑوسی ملک ہندوستان
پر الزام عائد کرکے یہ بتانے کی کوشش کرے کہ یہ حملہ اڑی فوجی کیمپ پر ہونے
والے دہشت گردحملہ کا جواب ہو۔ دہشت گرد حملہ چاہے ہندوستان میں ہو یا
پاکستان میں یا کوئی اور ملک میں اس کے خلاف عالمی سطح پر مذمتی بیانات
جاری ہوتے ہیں ۔ ہند وپاک کی حکومتیں یا اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات عائد
کرکے عوام کے دلوں میں پڑوسی ملک کے خلاف زہر بھرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ
ہونا تو یہ چائیے کہ جس کسی نے بھی دہشت گردانہ حملے کئے ہیں ان کے خلاف
دونوں ممالک کی خفیہ و سیکیوریٹی ایجنسیاں ملکر کارروائی کرے تاکہ مستقبل
میں ایسے دہشت گردانہ حملوں سے محفوظ رہا جاسکے کیونکہ ملک کے ایک ایک فرد
کی جان کی حفاظت و سلامتی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو بحسن
خوبی انجام دینے کے بجائے پڑوسیوں پر الزامات عائد کرکے حکمراں واعلیٰ
قیادت اپنے دفاع کی کوشش کی کوشش کرتی ہے۔
موصل سے داعش کا خاتمہ اورکرکوک پرداعش کا حملہ ناکام
عراق کے حالات شاید ابھی بہتر ہوتے دکھائے نہیں دے رہے ہیں ، عراق کے دوسرے
بڑے شہر موصل میں دولت اسلامیہ (داعش ) سے قبضہ چھڑانے کے لئے عراقی فوج نے
گذشتہ چند روزقبل جس طرح مہم کا آغازکیااس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عراق
کے اس شہر کو جو کچھ کے یہاں بچا کچا ہے اسے بھی پھر سے ایک مرتبہ دولت
اسلامیہ کے قبضہ سے حاصل کرنے کے نام پر تباہ و برباد کیا جائے۔ عراق کے اس
تاریخی شہر کو عراق میں شدت پسندی کے آغاز سے قبل یعنی عراقی صدرصدام حسین
پر خطرناک زہریلی کیمیکل رکھنے کا الزام عائد کرکے امریکہ، برطانیہ اور
دیگر اتحادی مغربی و یوروپی ممالک نے اس ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت کو تباہ
بربادکردیااور صدام حسین کو یوم عرفہ کے روز پھانسی پر چڑھادیا ۔عراق کی
تباہی سے قبل یہاں کی معیشت بہت بہتر تھی جبکہ آج عراق معاشی اعتبار سے کئی
سال پیچھے پہنچ چکا ہے۔صدام حسین کے دورِ اقتدار میں تعلیم، صحت پر خصوصی
توجہ دی جاتی تھی، خواندگی کا فیصد تناسب 100%تھا۔اسی لئے تجزیہ نگاروں کا
ماننا ہیکہ صدام حسین جیسے حکمراں کی اپنی قوم اور ملک کے لئے کامیاب
حکمرانی تصور کی جاتی ہے۔ دشمنانِ اسلام نے اسلام کے اس اہم ابھرتے ہوئے
ملک کی تاریخ کو جس طرح اپنے ناپاک عزائم کے تیئں برباد کیا اسی کا نتیجہ
ہیکہ آج عراق میں شدت پسند تنظیموں کا وجود ہے۔القاعدہ، داعش اور کئی دیگر
شدت پسند تنظیموں کا وجود عراق، شام،افغانستان، پاکستان، لیبیاء، اردن،
مصر،یمن، ترکی وغیرہ میں امریکی، برطانوی اور دیگر مغربی و یوروپی طاقتوں
کی جانب سے خطرناک فضائی حملوں کا نتیجہ ہے۔اس بات میں بھی صداقت ہوگی کہ
ان نام نہاد جہادی تنظیموں کے وجود میں بھی امریکہ و دیگر مغربی و یوروپی
ممالک کا کافی عمل دخل ہے۔ انکے پروان چڑھنے کے لئے جس طرح تربیت یا مالی
امداد کی گئی ہوگی اس کے پیچھے بھی کئی ایک راز پوشیدہ ہونگے۔ عالمی سوپر
پاور طاقتوں کو اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانے اور ناکارہ ہونے والے
ہتھیاروں کو ضائع کرنا بھی ضروری تھا ، یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ان ہتھیاروں
کا اتلاف بھی ہوجائے اور معیشت بھی مستحکم ہوجائے ۔ تیل کے معاملے میں کویت
کی پالیسی کے خلاف صدام حسین نے اپنی عراقی فوج کو جس طرح راتوں رات کویت
میں تعینات کرکے صبح ساری دنیا کو صدام حسین نے حیران کن حالات سے دوچار
کردیا ۔ صدام حسین کی اس کارروائی کے خلاف کویتی حکومت نے امریکہ سے مدد
مانگی اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک سعودی عرب ، عرب امارات، قطر و
غیرہ نے بھی امریکی فوجی تعاون کروڑوں ڈالرز کے عوض طلب کیا۔ اس طرح دشمنانِ
اسلام جس سرعت کے ساتھ اپنی کامیاب پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے عالمِ
اسلام پر اثر انداز ہوئے اس کا علم عالمِ اسلام کے حکمرانوں کے وہم و گمان
میں بھی نہ تھا کہ وہ (مغربی و یوروپی طاقتیں)ان اسلامی ممالک پر ایک ایسی
خطرناک جنگ مسلط کررہے ہیں جو ایک طویل عرصہ تک جاری رہے گی اور اس کیلئے
انہیں کروڑوں ڈالرز اپنے ان دوست نما دشمنوں کو ہی دینے پڑیں گے۔ آج عالمِ
اسلام یعنی سعودی عرب، عرب امارات، قطر ، بحرین، کویت ان ہی عالمی طاقتوں
سے کروڑہا روپیوں کے فوجی ساز و سامان حاصل کرتے ہوئے اپنی معیشت کی زبوں
حالی کی جانب رواں دواں ہیں۔
ان دنوں ادھر موصل کو حاصل کرنے کے لئے عراق فوج جس تیزی سے کارروائی کرتے
ہوئے قبضہ کرنے کی کوشش کررہی تھی اسی دوران داعش کے جنگجوؤں نے کرکوک شہر
پر حملہ کرکے عراقی فوج اور اسکے دیگر دشمنوں کو اپنی طاقت بتانے کی کوشش
کی لیکن عراقی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ کرکوک شہر پر جہادی تنظیم دولت
اسلامیہ‘ کے ایک بڑے حملے کو تقریباً چوبیس گھنٹے تک لڑائی کے بعد ناکام
بنا دیا گیا ہے۔ حملے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 46 بتائی گئی ہے اور
بیشتر سکیورٹی اہلکار ہیں۔ داعش کے اس حملے کے بعد سے اب سارے شہر میں
کرفیونافذ کردیئے جانے کی اطلاعات ہے۔دولتِ اسلامیہ کے کئی جنگجوؤں نے جمعہ
21؍ اکتوبر کی صبح کرکوک پر چڑھائی کر دی تھی۔ ہفتہ کے روز ایک اعلیٰ عراقی
سکیورٹی اہلکار بریگیڈیئر جنرل خطاب عمر کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران
تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ بعض نے اپنی بارودی جیکٹیں
استعمال کرتے ہوئے خود کش حملے بھی کیے۔ اس فوجی اہلکار کے مطابق شہر کا
شدید لڑائی والا صوبائی ہیڈکوارٹرز کا علاقہ اب پرسکون بتایا جارہاہے۔
امریکی وزیر دفاع عراق میں
گزشتہ دنوں امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر ایک غیر اعلانیہ دورہ پر عراقی
دارالحکومت بغداد پہنچے۔ رواں برس کے دوران کارٹر تیسری مرتبہ بغداد پہنچے
ہیں۔ امریکی وزیر دفاع کی آمد کی بنیادی وجہ موصل کی بازیابی کے لیے جاری
عسکری مہم کا جائزہ لینا ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل قریب میں موصل شہر میں
ہونے والی ممکنہ جنگ کی منصوبہ بندی کو زیر بحث لانا ہے۔ موصل کی بازیابی
کی مہم میں عراقی فوج کو امریکی فوجیوں کی اسٹریٹیجک معاونت بھی حاصل ہے۔
کارٹر نے موصل کی لڑائی میں ترکی کے کردار پر بغداد اور انقرہ حکومتوں کے
مابین مفاہمت کی بھی تصدیق کی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ موصل شہر جس کی رونقیں
برباد ہوچکی ہیں اسے امریکی و عراقی فوج مزید کس مقام پر پہنچاتی ہے۔ غرض
کہ عراق ، شام ، یمن، افغانستان ، پاکستان کے حالات بہتر ہوتے دکھائی نہیں
دے رہے ہیں۔ شام کی لڑائی میں روس اور امریکہ بھی اب آمنے سامنے نظر آرہے
ہیں لیکن عالم ِاسلام کو ان دو عالمی طاقتوں کی اصلیت تک پہنچنا ہوگا تاکہ
عالمِ اسلام آج جس مقام پر پہنچ چکا ہے اس کے اصل ذمہ دار یہی عالمی طاقتیں
ہیں جنہو ں نے الزامات کے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کو ہلاک و زخمی کرنے کے
علاوہ مسلمانوں کی اربوں ، کھربوں ڈالرس املاک و معیشت کو تباہ و تاراج کیا
ہے یہی نہیں معصوم بچوں، نوجوانوں اور مرد و خواتین کو اپنے ہاتھوں میں
ہتھیار لینے پر مجبور کیا ہے۔ کاش مسلم حکمراں دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے
بچنے کے لئے ۰۰۰
شاہ سلمان اور اماراتی ولی عہد کا عالمی امور پرتبادلہ خیال
خطے میں ہر روز کشیدہ ہوتے ہوئے حالات نے عالم عرب کے حکمرانوں کی نیندیں
حرام کررکھی ہیں۔ گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد الشیخ محمد بن
زاید آل نہیان نے سعودی عرب کا دورہ کیا انہوں نے خادم الحرمین الشریفین
شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود سے ملاقات کی۔ العوجا شاہی محل میں دونوں
رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی اور عالمی
مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اماراتی ولی
عہد نے ’یو اے ای‘ کے فرمانروا الشیخ خلیفہ بن زاید آل نہیان کا خصوصی
پیغام بھی شاہ سلمان تک پہنچایا جس میں انہوں نے شاہ سلمان کے لیے نیک
تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔دونوں رہنماؤں میں ہونے والی بات چیت میں دو طرفہ
دوستانہ و برادرانہ تعلقات کے فروغ، باہمی تعاون کو تمام شعبوں میں آگے
بڑھانے، علاقائی سلگتے مسائل اور بین الاقوامی نوعیت کے معاملات پر تبادلہ
خیال کیا گیا۔اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ شاید ہوسکتا ہے کہ یہ دورہ اصل
میں خطے کے حالات کیلئے اہم حیثیت رکھتا ہو۔ |
|