تحریک انصاف کی طر ف سے 2نومبر کو اسلام
آباد بند کرنے کے اعلان کے بعد سے ملکی سیاست جمود کا شکار ہو چکی ہے ایک
طرف تو حکومت 2 نومبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کے تحریک انصاف کے فیصلے
سے نپٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی
حکومتی چالوں اور بیانات کی جواب دہی میں سرگرم ہے دونوں اطراف سے سیاسی
الزام تراشیوں اور بیانات کی وجہ سے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ خون
خرابہ ہونے کا قوی امکان ہے اور ایسا لگتاہے کہ پی ٹی آئی راہنماؤں کی
گرفتاری بارے بھی سوچا جائے گا تاکہ اس احتجاج کو روکا جا سکا کیونکہ
حکومتی ترجمانوں کے مطابق احتجاج کی کوئی حد ہوتی ہے ویسے واقعی ہر کام حد
میں ہی اچھا لگتا ہے خواہ ظلم و زیادتی ہو یا نا انصافی اور جو حدود سے
تجاوز کرتے ہیں وہ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں اور پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ
نہیں آتا مگر کیا کریں کہ اب وقت ہی الٹا ہے پہلے تھا ـ’’لاکھ جائے مگر
ساکھ نہ جائے ‘‘ اب یہ محاورہ کچھ یوں ہے کہ ساکھ جائے مگر لاکھ نہ جائے۔
کاش کوئی یہ بھی سوچے کہ احتجاج کیوں کیا جا رہا ہے ؟ کھلا سبب یہ ہے کہ
بروقت فیصلہ نہیں کیا گیا اگر دامن صاف ہے تو خود کو کیوں پیش نہیں کیا گیا؟
کیا وجہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اٹھنے والے سوالات کو ہتک عزت کا مسئلہ
بنا لیا گیا ہ جبکہ ان سوالات کا جواب پوری قوم ہی نہیں بلکہ دنیا بھی
جاننا چاہتی ہے اور ہماری ہٹ دھرمی مسلسل جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے دو
نومبر کے حوالے سے عمران خان کاکہنا ہے کہ پانامہ میں وزیراعظم پر الزام
نہیں بلکہ کرپشن کے ثبوت ہیں اس لیے وزیراعظم استعفی دیں یا تلاشی دیں ان
کے خیال میں ایک مجرم کو کوئی وزیراعظم نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر وزیراعلی
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیا ہے
اس کے بعد اسلام آباد کو بند کرنے کا جواز نہیں بنتا ـسپریم کورٹ ملک کا سب
سے بڑا فورم ہے سب کو اسے تسلیم کرنا چاہیئے جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ
نے وفاقی حکومت کو دوٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے حالات دیکھ کر خوف
آرہا ہے مشکل وقت گزرانے کے لیے حکومت کو کندھا نہیں دیں گے جماعت اسلامی
کے امیر سراج الحق بھی ایک بہت بڑاکامیاب جلسہ کر کے حکومت کو واضح پیغام
دے چکے ہیں کہ کرپٹ حکومت کا خاتمہ کر کے اسلامی نظام نافذ کریں گے انھوں
نے پانامہ لیکس کو شرمناک اور خیانت قرار دیتے ہوئے سٹیٹس کو کے خلاف جہاد
کا علان کر دیا ہے یعنی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی اپنی پرانی روایتی
بیان بازی کی سیاست کر رہی ہیں ان کا کوئی پتہ نہیں کہ یہ کس کے گرین سگنل
پر کہاں گاڑی کھڑی کر دیتے ہیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مولانا فضل
الرحمن عمران خان کی سیاسی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے نت نئے بیانات کی شکل
میں بارود داغ رہے ہیں انھیں کسی بات کی فکر نہیں کیونکہ عقل عیار ہے سو
بھیس بدل لیتی ہے جبکہ عمران خان کھلاڑی ہونے کیوجہ سے سینچری بنانے کی تگ
ودو میں ہیں اگر ہم حکومت کی اتحادی جماعتوں کے موجودہ بیانات کو پڑھیں جن
میں پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے بیانات بظاہر حکومت
مخالف لگتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ جب وقت آئے گا تو یہ تمام عمران کے ساتھ
کھڑے ہونے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوں گے کیونکہ ا ن کے ذہن میں ہے کہ :
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے
یوں نظر آتا ہے کہ حکومت سے ناراض پارٹیوں کے سربراہان شاید حکومت ہی کی
ایما پر حکومت خلاف بیانات دیکر عمران خان کو ابتری کے حالات کی طرف کسی
بند گلی میں دھکیلنا چاہ رہے ہیں اور شاید آج کل اسی اکھاڑ پچھاڑ کا نام
سیاست ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میرٹ بس نام کا ہے بیشتر لوگ ایسے ہیں جو
سفارش اور رشتہ داری کیوجہ سے اداروں اور امور مملکت کے عہدوں پر فائز ہیں
یہی وجہ ہے کہ وہ حالات و واقعات کو اپنی محدود سمجھ سے دیکھتے ہیں مگر
سمجھتے ہیں کہ جیسے ید طولیٰ رکھتے ہیں اسی چل چلاؤ نے معاشرے کا حلیہ بگاڑ
کر رکھ دیا مولوی نما اینکر دین بھی بتاتے ہیں اور سیاست کے پینترے بھی
سکھاتے ہیں ،ڈاکٹر نما تجزیہ نگار معاشرے کا معائنہ بھی کرتے ہیں اور سیاسی
ہتھکنڈے بھی سلجھاتے ہیں ،اداکار ملکی حالات کا سلجھاؤ بھی بتاتے ہیں اور
حکمرانوں کو آخرت کا درس بھی دیتے ہیں الغرض جسے دیکھیئے وہ یہاں ارسطو ،
سقراط اور اشفاق بابا ہے جبکہ وہ بذات خود اپنے نامۂ اعمال سے کہیں نہ کہیں
شرمندہ ہے ایک پرانا قصہ ہے کہ ایک گھر میں ایک چور داخل ہوا ۔ایک بوڑھی
عورت سو رہی تھی ۔چور نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ لیٹے لیٹے بولی
یقینا حالات سے مجبور ہو کر اس راستے پر لگ گئے ہو ۔الماری کے تیسرے خانے
میں تجوری ہے اس میں سارا مال ہے تم خاموشی سے وہ سب لے جانا مگر اس سے
پہلے میں نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھا ہے ذرا اس کی تعبیر تو مجھے بتا
دو۔چور اس بوڑھی عورت کی رحم دلی سے بڑا متاثر ہوا اور خاموشی سے اس کے پاس
جا کر بیٹھ گیا ۔بڑھیا نے اپنا خواب سنانا شروع کیا ’’بیٹا ! میں نے دیکھا
کہ ایک چیل میرے پاس آئی اور اس نے ۳ دفعہ زور زور سے بولا ماجد ۔ماجد۔ماجد
!!! بس پھر خواب ختم ہوگیا اور میری آنکھ کھل گئی ذرا بتاؤ تو اس کی تعبیر
کیا ہوئی ۔چور سوچ میں پڑ گیا اتنے میں بڑھیا کا جوان بیٹا برابر والے کمرے
سے اپنا نام سن کر اٹھ کر آگیا اور اندر آکر چور کی خوب پٹائی کی ۔بڑھیا
بولی : بس کرو اب یہ اپنے کیے کی سزا بھگت چکا ہے ‘‘۔ چور بولا : ’’نہیں
نہیں مجھے اور مارو تاکہ مجھے آئندہ یاد رہے کہ میں چور ہوں خوابوں کی
تعبیر بتانے والا نہیں ہوں ۔
بہر حال حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہی احتجاجی سیاست کی ضرورت پیش
آئی ہے اگر حکومت ڈیلیور کرتی اور عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل
کیا جاتا تو نہ عوام مسیحا کی تلاش میں بھٹکتے اور نہ پی ٹی آئی کو استحکام
حاصل ہوتا تاہم اب جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ بھی بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ
سے ہورہا ہے کہ اگر حکومت نے ٹی اور آرز بنائے تو اپنی مرضی کے بنائے جن سے
صدیوں میں بھی انصاف نہیں مل سکتا تھا اور اس کے بعد پانامہ پیپرز کو
الزامات کہہ دیا گیاجبکہ یہ وہ ثبوت ہیں جن کی بنیادپر دوسرے ممالک کے
سربراہان نے فوراً سے پیشتر استعفی دیکر اپنی اور ملک و قوم کی ساکھ کو بچا
لیا تھا مگر ہمارے ہاں حکومت کے سکون کا کیا ہی کہنا کہ اس کارنامے پر
افسوس تو دور کی بات ہے بلکہ کبھی پانامہ کو ہنگامہ ہے کیوں برپا کہہ کر
مسکرا دیا جاتا ہے ،کبھی احتجاجیوں کو پاگل کہہ دیا جاتا ہے اور کبھی
جمہوریت پر حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ طبیب کی غلطی ایک
دو انسان ہی مارتی ہے لیکن حکمرانوں کی غلطیاں پورے ملک و قوم کو برباد کر
دیتی ہیں اب عجیب مذحکہ خیز صورتحال ہے کہ میاں صاحب نا آرمی چیف جنرل
راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے ہیں اور نہ ہی نئے آرمی چیف کا
علان کرتے ہیں رہ گئی گڈ گورننس وہ بھی سوالیہ نشان ہے یہاں تک کہ معیشت
بھی بر باد ہو چکی ہے ملکی بحران ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں لیکن ان سب پر
بات کرنے والوں کو پاکستان کا دشمن سمجھا جاتا ہے اور با بانگ دہل کہا جاتا
ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے ناکا م ہونگے ملک ترقی کی راہ پر
گامزن ہے اورملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کو عوام کبھی معاف
نہیں کریں گے جبکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جب تک ملک میں کرپشن موجود ہے ترقی
کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں
کرپشن کا ناسور صدیوں سے موجود ہے جو کہ مسلسل ملک کو تباہی کی طرف لیکر جا
رہا ہے اس کے آگے بھی بند باندھنا ضروری ہے جس کا دعوی ہر سیاسی جماعت کر
رہی ہے لیکن یہ کہنا کہ اسے فی الفور ختم کیا جا سکتا ہے یہ خواب و خیال ہے
ہاں کوشش کے بعد اسے کم ضرورکیا جا سکتا ہے وہ بھی خدا لگتی کہوں تو اس کی
ابتدا اپنی ذات سے کرنی پڑے گی اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اپنی صفوں میں
دیکھنا ہوگا صاف دامن لوگوں کا انتخاب ہی تحریک کو نئی جہت ، نئی راہیں اور
استحکام دے سکتا ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کے لیے مکافات عمل
ثابت ہو رہی ہے اور کوئی بھی تدبیر کار گر ثابت نہیں ہو رہی ہے اس لیے جوش
کی جگہ اب ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے مگر صورتحال اس کے برعکس ہے کہ
پانامہ لیکس کا کیس سپریم کورٹس میں زیر سماعت ہے اور دھرنے سے ایک روز قبل
اس کی شنوائی ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ
سپریم کورٹ کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے اس لیے بھی حالات کا پر امن رہنا
ضروری ہے مگر بعض حکومتی وزرا اور بعض صحافیوں کے بیانات سے ایسا معلوم
ہوتا ہے کہ وہ وقت سے پہلے سیاسی بحران کا قصہ تمام کر دینا چاہتے ہیں کہ
سننے میں آرہا ہے کہ حکومت نے احتجاجیوں سے جارحانہ انداز میں نپٹنے کا
فیصلہ کر لیا ہے جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے ۲ نومبر کو پر امن احتجاج کا
بار بار یقین دلوایا جا رہا ہے ویسے بھی تحریک انصاف ہمیشہ سے ہی پر امن
احتجاج کی قائل رہی ہے مگر حکومتی وزرا ء توپوں کے گولوں کی طرح اپنے
بیانات داغ رہے ہیں جیسے رائیونڈ جلسہ میں کیا گیا تھا ایسا لگتا ہے کہ یہ
بھی صرف اور صرف عوام کو پریشان کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ پر امن
احتجاج کی اجازت دی جا سکتی ہے ایسے میں دارلحکومت کو بند کرنے کو غیر
آئینی اور غیر قانونی اقدم کہنے والے پہلے یہ بھی تو بتائیں کہ وہ خود کس
حد تک آئین اور قانون پر کار بند ہیں اور اگر میں غلط نہیں تو یہ احتجاج
آئین و قانون کے فعال نہ ہونے کیوجہ سے ہی ہونے جا رہا ہے اس لیے اب مزید
تضحیک سے بچنے کا یہ مناسب طریقہ ہے کہ اگر افہام و تفہیم کا کوئی راستہ
نکلتا ہے تو وہ نکالا جائے ورنہ خاموشی اختیار کی جائے کہ اس بار حزب
اختلاف بھی نا امید ہو کر فیصلہ کن انداز میں میدان میں اتر رہی ہے اور
ایسے ہی حالات عوام کے بھی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ اس سیاسی بحران کو
مزید ہوا نہ دی جائے ورنہ حالات کشیدہ ہونے کا امکان ہے ویسے بھی جو گڑ
دینے سے مرے تو زہر کیوں دینا یقینا تصادم کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے باقی
اگر قضا اور مقدر کا پردہ نہ پڑا تو اس بار بھی حکومت اس جان لیوا بحران سے
نکل جائے گی ویسے میرے تجزیے کے مطابق لگتا ہے کہ حکومتی اراکین اور ان کے
قائدین نے پانامہ لیکس میں سرخرو ہونے کا کوئی فارمولہ تلاش کر لیا ہے بدیں
وجہ وہ اب بیانات دیتے ہوئے خوشحال نظر آتے ہیں باقی صحیح فیصلہ تو آنے
والا کل ہی کرے گا لیکن یہ طے ہے کہ جو لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ’’ بلھے
شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور ‘‘ان کا انجام عبرت ناک ہوگا ! |