خدا کے سوا ہر چیز محض سراب ہے

سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں لیکن کیسی تعریف کس سے تعریف۔ خود ذاکر خود مذکور۔ خود شاکر خود مشکور۔ وہی محب وہی محبوب۔ کسی چیز کی کوئی حقیقت نہیں حقیقت صرف اسی ایک ذات کی ہے باقی ہر چیز ایک امر اعتباری ہے
ہر قطرہ ایک دریا ہے اور ہردریا ایک قطرہ۔اگر ساکن نہ ہو تو کوئی چیز متحرک نہیں۔

متحرک پھر ساکن سے عبارت ہے۔ آخرحقیقت کیا ہے ۔ کون ساکن ہے اور کون متحرک۔ حقیقت کچھ بھی نہیں۔حقیقت صرف اسی ایک ذات کی ہے۔ڈوبتے سورج کو دیکھ کر کوئی کہتا ہے شام ڈھل رہی ہے۔عین اسی وقت کوئی کہہ رہا ہوتا ہے صبح بخیر۔ آخر اوقات کی کیا اوقات ہے۔ حقیقت کیا ہے کچھ بھی نہیں سب امر اعتباری ہے۔ وہی سب کچھ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔سب پانی پر لکیریں ہیں۔سب ریت کی تحریریں ہیں۔ اس کے راز وہی سمجھے جسے وہ سمجھائے۔طاقتور کوئی نہیں ہوتاشکست کھانے والا کمزور ہوتا ہے طاقتور صرف خدا کی ذات ہے۔

سفید اس لیے سفید ہے کہ سیاہ موجود ہے۔ اور سیاہ پھر سفید سے عبارت ہے۔ ہر کسی کا ایک اپنا رنگ ہے مگر ہر رنگ بے حقیقت ہے۔ہر رنگ کا ایک ہی رنگ ہے بیرنگ۔کوئی زمانہ نیا زمانہ نہیں۔سب گزرا ہوا زمانہ ہے۔ ماضی اس لیے ماضی ہے کہ ہم اس کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور مستقبل کو ہم مستقبل اس لیے کہتے ہیں کہ ہماری رفتار اس قابل نہیں کہ ہم اس سے آگے نکل سکیں ورنہ ہم مستقبل ہوتے اور مستقبل ماضی۔ بڑی چیز وہی ہے جس سے ہم چھوٹے ہیں ورنہ ہم بڑے اور وہ چیز چھوٹی ہے۔ سردی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی گرمی نہ ہونے کا نام سردی ہے اور گرمی نام ہے جب کسی چیز کا درجہ حرارت آپ کے درجہ حرارت سے زیادہ ہو جائے ورنہ وہ سردی ہی ہے ۔ مادے کی تمام قسمیں سب امرِ اعتباری ہیں۔ روشنی نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے ورنہ اندھیرا بذاتِ خود کوئی چیز نہیں اور جن کو اندھیرے میں نظر آتا ہے ان کے لیے روشنی اندھیرا ہے۔

دانے میں پورا شجر پوشیدہ ہے اور شجر سے پھر دانہ آشکار۔ بیماری پیدا کرنے والا بھی وہی اور شفا دینے والا بھی وہی۔ عشق لگانے والا بھی وہی۔ جدا کرنے والا بھی وہی۔ پھر ملانے والا بھی وہی۔ اس کی ذات سمجھ سے وراء اس کی صفات لا محدود۔ لیکن اس کے لیے محدود۔ ہے ناعجیب بات ذرا سوچو۔۔۔۔لا محدود ۔۔۔محدود کیسے ہے۔اگر وہ محدود ہے تو پھر لامحدود کیوں؟۔۔۔سوچو۔۔ ۔۔پھر سوچو۔۔۔ھاں بولو۔۔۔نہیں آئی نا سمجھ۔۔ یہ باتیں ایسے سمجھ آتی بھی نہیں جب تک کوئی سمجھانے والا نہ ہو۔ سب معرفتیں اسی سے ہیں۔ وہ جس کے لیے چاہے اس کا سینہ کشادہ کر دے اور وہ سب کچھ سمجھا دے جس کا وہ متحمل ہے۔ اور جس کے لیے چاہے اس سے اس کا سب کچھ چھین لے اور وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
اس کی قدرتیں بہت عجیب ہیں ۔ آسمان کسی کے لیے تو آسمان ہے

اور کسی کے لیے یہی آسمان زمین ہے۔ قیامت کا دن کسی کے لیے تو پچاس ہزار برس کے برابر ہے اور کسی کے لیے صرف چند لمحے جتنا۔ حضرت شاہ آلِ رسول مارہروی رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مرید سوچ رہا تھا کہ معراج شریف کا قصہ بڑا ہی عجیب ہے۔ عالمِ بالا پر تو کئی برس گزر گئے اور یہاں ایک پل بھی نہ گزرا۔ آپ
وضو فرما رہے تھے۔ فرمایا ذرا اندر جا کر میرا تولیہ تو لانا اندر گیا تو مسجد کی وہی کھڑکی جس پر ہر روز کئی بار نظر پڑتی تھی آج عجیب سماں پیش کر رہی تھی ذرا جھانکا تو کیا
دیکھا کہ اندر ایک بہت ہی خوبصورت باغ ہے اس کے اندر چلا گیا خوب سیر کی۔

وہاں ایک دنیا آباد تھی ۔شادی بھی کر لی۔بچے بھی ہو گئے۔ کئی برس گزر گئے۔ ادھر سے پیر صاحب نے آواز دی بھائی کہاں رہ گئے تم ابھی تک تولیہ لے کر نہیں آئے۔ سننے والے نے وہ آواز سنی۔ وہیں سے واپس لوٹا۔ کھڑکی سے باہر آیا۔

تولیہ لے کر حاضر ہوا توادھر ابھی وضو کے قطرے بھی خشک نہیں ہوئے تھے فرمایا ہاں بولو۔ اب سمجھ آیا معراج کا واقعہ کہ نہیں؟ سمجھانے والے جب سمجھاتے ہیں
تو سب سمجھ آ جاتا ہے ورنہ سب بیکار کی باتیں لگتی ہیں ۔

وہ ہر چیز پر قادر ہے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ کبھی کسی نے سوچا کہ ہم اس کے کتنے سارے ناموں سے واقف ہیں۔ ایک سو دو سو تین سو چارسو۔۔۔بس اور کتنے۔۔ایک ھزار ۔۔۔۔لیکن اس کی صفات تو لا محدود ہیں آخر اس کی باقی صفات کون کونسی ہیں ۔ ضرور سوچنا مگر کسی صاحبِ حقیقت کی نسبت کے بغیر نہیں ورنہ شیطان سے بڑا دھوکے باز کوئی نہیں
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

اس کی صفات جاننے سے پہلے اپنی صفات پر غور کرو۔ پہلے اپنے آپ کو پڑھنا سیکھو ورنہ سب بیکار ہے۔

پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں
کدی اپنے آپ نوں پڑھیا نئیں
جا جا وڑدے مندر مسیتی
کدی من اپنے و چ وڑیا نئیں

وہ بے مثل اس کا کلام بے مثل اس کا کلام محض وہ الفاظ نہیں جو اوراق پر لکھے ہوئے ہیں۔ پارہ ۲۵ سورۃ شوریٰ آیت ۵۲ میں اس نے اپنے کلام کے لیے روح کا لفظ استعمال فرمایا۔ وہ روح کیا ہے کبھی غور تو کرو ۔
اے اللہ! ہمیں معاف فرما دے۔ ہمارے گناہوں سے در گزر فرما ۔ ہم تجھے کیا سمجھیں گے ہم تو یہ بھی نہیں جان سکتے کہ تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی ابتداء کیا ہے۔ انتہاتو دور کی بات ہے۔ اور پھر تیری ذات۔۔۔۔

اے اللہ! ان ٹوٹے پھوٹے چند لفظوں کو قبول فرما لے۔ اگر تیری قبولیت نہ ہو تو سب بیکار ہے۔ بے شک تیری رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے اور بے شک تو بہت ہی مہربان نہایت رحم والا ہے۔
Muhammad Abdul Munem
About the Author: Muhammad Abdul Munem Read More Articles by Muhammad Abdul Munem: 20 Articles with 20378 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.