محمد سلیم خان
جنوبی ایشیاء کی سیاست کا بنظر غائرجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر
سامنے آجاتی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت ساڑھے تین سال مکمل کرتی ہے تو
اپوزیشن پارٹیاں لنگوٹ کس کر میدان میں آجاتی ہیں۔ رابطہ عوامی مہم احتجاجی
تحریک میں بدل جاتی ہے جس سے سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔ تحریک انصاف
تو الیکشن کے بعد ہی کمر کس کر میدان میں موجود ہے جوا ب آں غزل کے طورپر
مسلم لیگ (ن) بھی دفاعی حکمت عملی چھوڑ کر جارحانہ انداز اپنا رہی ہے۔
جمعیت العلمائے اسلام بھی ملک گیر اجتماعات منعقد کر رہی ہے۔ قومی وطن
پارٹی بھی اپنے بازؤوں میں قوت پیدا کر رہی ہے۔ اے۔این۔پی بھی اپنے کارکنان
کو نٹ پریکٹس کروا رہی ہے۔ رہی بات جماعت اسلامی کی تو اس نے اضاخیل میں
صوبائی سطح پر دو روزہ اجتماع منعقد کر کے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ
سیاسی جماعتوں میں ایک منظم جماعت ہے جو اپنے کارکنان کی ہمہ وقت تربیت میں
مصروف رہتی ہے۔ جماعت اسلامی کا اجتماع جہاں حاضری کے اعتبار سے متاثر کن
رہا وہاں ڈسپلن اور سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بھی معیاری رہا اگر ایک
طرف مردوں کے کیمپ میں رش دیکھنے میں آئی تو دوسری طرف خواتین کے کیمپ میں
بھی حاضری زبر دست رہی۔ گھومتے گھومتے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق
احمد خان اور صوبائی سنیٹر وزیر عنایت اﷲ خان سے مڈ بھیر ہوگئی۔ انہوں نے
بتایا کہ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ خواتین اور یو تھ ہمارے خصوصی ٹارگٹ ہیں۔
سراج الحق نے اعلان کیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو بلا سود
قرضے فراہم کریں گے۔ خواتین کی تعلیم لازمی ہوگی اور جو اپنی بیٹی کو تعلیم
کے لیے سکول نہیں بھیجے گا اسے جیل میں ڈالا جائے گا۔ جو بھی الیکشن لڑے گا
وہ اپنی بہن اور بیٹیوں سے یہ سرٹیفیکیٹ پیش کرے گا کہ انہیں جائیداد کا
پورا پورا حق مل گیا ہے ورنہ دوسری صورت میں وہ صادق اور امین نہیں کہلائے
گا۔ یوں الیکشن سے 63,62 دفعات کے تحت ڈس کوالیفائی ہوگا۔ اجتماع میں مجھے
ایک اور تبدیلی محسوس ہوئی۔ جماعت اسلامی کی قیادت پہلے انٹر نیشنل افئیر
پر زیادہ بولتی تھی اس دفعہ انہوں نے عام آدمی کے مسائل کو ایڈریس کیا۔ وہ
زبان بولی جو عوامی جماعتیں بولا کرتی ہیں۔ روٹی ، کپڑا اور مکان جیسے
نعروں کی طرز پر اسلامی پاکستان، خوشحال پاکستان، پر امن پاکستان و جمہوری
پاکستان کی ٓاصطلاحات استعمال کیں۔ اسلامی فلاحی ریاست کے حوالے سے مجمع کو
بتایا گیا کہ اسلام ہاتھ کاٹنے اور سزا دینے کا مذہب نہیں بلکہ فلاح
انسانیت کا عالمی پروگرام ہے۔ 2018 کے الیکشن میں جماعت اسلامی کا واضح روڈ
میپ بیان کیا گیا ۔ مجھے تو یوں لگا کہ جماعت اسلامی اب دھرنوں ، احتجاج
اور استعفوں کی بجائے حکومت کے ساتھ خدمت پر توجہ دے گی۔ پارٹی کے پالیسی
سازوں کو اندازہ ہو گیا ہے کہ کس طرح پارٹی کو تنظیمی سے عوامی بنایا جاتا
ہے ۔ کس طرح حکومتی پنجوں پر بیٹھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت نے اپنی
مجلس شوریٰ میں خواتین کو پہلے ہی سے شامل کیا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی والے
ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے تھے کہ انکی پارٹی موروثی نہیں ہے جمہوری ہے۔ انکی
پارٹی ترقی پسند ہے وہ آئین پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے صوبائی خود
مختیاری پر یقین رکھتی ہے۔ امیر جماعت کے ایک اور اعلان نے ہمیں ورطہ حیرت
میں ڈال دیا۔ جب انہوں نے صوبائی حکومت پرواضح کیا کہ اگر سرکاری سکولوں
میں اسلامیات ٹیچرز کی پوسٹیس بحال نہ ہوئی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے
مطابق حکومت نے اردو زبان دفاتر میں نافذ نہ کی تو وہ حکومت کو خدا حافظ
کہنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ مذکورہ اعلان سے اندازاہ لگایا جا سکتا ہے کہ
جماعت اسلامی صوبائی حکومت کو چھوڑنے کا اراداہ رکھتی ہے۔ منظم اور بڑے
سیاسی اجتماع کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت کے ووٹ بینک میں کتنا
اضافہ ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اجتماعات کی سیاست سے
سیاسی کلچر فرروغ پا رہا ہے ۔جمہوری ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔ سیاسی ورکرز
کی تربیت ہو رہی ہے جو جمہوریت کے لیے نیک شگون ہے۔ اب وہ دن گز ر گئے جب
ملک پر آمریت نافذ کردی جاتی تھی،اور عوام بھی مٹھائیاں تقسیم کرتے پھرتے
تھے،یہ اکیسویں صدی کا دورہے میڈیا کا دورہے،اور آزادی اظہار رائے کا
دورہے،اور سب سے بڑی بات یہ کہ پارٹیاں عوام میں دن بدن مقبول ہوتی جارہی
ہیں،جس کی وجہ سے عوا م کی بڑی تعداد جلسے جلسوں اور دھرنوں میں شامل ہورہی
ہے،اور اسی طرح ہماری عدالتیں بھی آزادی کے ساتھ فیصلے دے رہی ہیں،یہی وجہ
ہے کہ جمہوری کلچر اورجمہوری روایات پنپ رہی ہیں۔
|