کوئٹہ میں ایک بار پھر شب ِظلم کے بعد صبح ِملال

سریاب پولیس ٹریننگ سنٹر پردہشت گردوں کا حملہ،61زیر تربیت اہلکار شہید، 120زخمی
کوئٹہ شہردہشت گردی کے واقعہ سے لہو لہو ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کے بعد سے پاکستان کو بدترین قسم کی دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستانی قوم آج بھی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں… اور عوام کا حال تو بقول شاعر یہ ہوگیا ہے کہ …
جبر کی بھاری چٹانیں ہر طرف رکھ دی گئیں
مجھ کو یوں چنوایا گیا زیست کی دیوار میں

اب نوحہ کناں ہے پورا پاکستان کہ نہ جانے ان دہشت گردوں اور سانپوں کا اگلا ٹارگٹ کیا ہوگا… کیونکہ کیا خبر کہ دہشت گرد کب، کہاں اور کس وقت اپنا کام دکھا دیں… کوئٹہ میں ہونے والا یہ واقعہ یقینابہت بڑا حادثہ ہے جس میں معاشرے کے اہم ترین ادارے اور زیر تربیت نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد واقعی بزدل ہیں کیونکہ کبھی وہ بچوں کواس خوف سے نشانہ بناکر تسکین محسوس کرتے ہیں کہ شاید ہمار امستقبل محفوظ ہو گیا ہے ان بچوں میں سے کوئی بھی بچہ بڑا ہو کر ہمیں واصل جہنم کر سکتا تھا اب ایسا نہیں ہو گا اور اسی طرح یہ پولیس ٹرئننگ سنٹراور نوجوان طبقہ کو بھی اپنے ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لیے نشانہ بناتے ہیں مگر دشمن یہ جان لیں کہ پاکستان کا بچہ بچہ دہشت گردوں سے لڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ دہشتگردی کے پے در پے واقعات سہنے والی کوئٹہ کی سر زمیں ایک بار پھر دہشتگردوں کی بزدلانہ کاروائی کا نشانہ بن گئی،بھاری ہتھیاروں اور خود کش جیکٹس سے لیس3 حملہ آوروں نے 24 اکتوبر کی رات 11 بجکر 10 منٹ پر پولیس ٹریننگ کالج پر اس وقت دھاوا بولا جب کیڈٹس آرام کررہے تھے جس کے بعد فائرنگ اور دھماکوں کا آغاز ہوگیا۔جس کے نتیجے میں61زیر تربیت اہلکار شہید اور 120 زخمی ہوگئے۔شہیدہونے والے 20پولیس اہلکاروں کا تعلق تربت سے،11کا تعلق پنجگور،7کا تعلق قلعہ عبداﷲ سے ،2,2اہلکاروں کا تعلق کوئٹہ،ڈیرہ بگٹی اور لورالائی جبکہ ایک ایک کا تعلق پشین،گوادر،ہرنائی ،سبی ،خضدار اور مستونگ سے ہے۔ ایس ایس جی کمانڈوز نے فوری طورپر آپریشن کرکے کالج کے ہوسٹل سے 200زیر تربیت اہلکاروں کو بازیاب کروا کر 2دہشتگردوں کو ہلاک کرڈالا۔اس دوران ہوسٹل میں کئی دھماکے بھی سنائی دیئے ،پاک فوج کے اہلکار ، ایس ایس جی کمانڈوز بھی فوری طور پر ہوسٹل پہنچ گئے۔کمانڈوز نے کالج کو گھیرے میں لیکر آپریشن شروع کردیا۔بہادر ایس ایس جی کمانڈوز نے ہوسٹل میں داخل ہوکر فوری طور پر دہشتگردوں کو ٹھکانے لگایا اور اہلکاروں کو بازیاب کر والیا۔ ذرائع کے مطابق حملہ آور عقب سے ٹریننگ کالج میں داخل ہوئے۔ ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اْڑا لیا جس سے ہوسٹل کے کمرے کی دیوارگرگئی۔دہشتگرد وقفے وقفے سے دستی بم حملے کررہے ہیں،دستی بم حملوں سے ہوسٹل کے ایک کمپاؤنڈ میں آگ لگ گئی جس پر فوری قابو پالیاگیا۔ہوسٹل کی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔ایک زخمی اہلکار کے مطابق تمام دہشتگردوں نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔زخمی اہلکاروں میں کانسٹیبل صدیق،فراز،عنایت اﷲ، مجیب اﷲ ، کامران، بشیر، جاوید عالم، شیر جان، عاصم اور دیگر شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق حکومت بلوچستان نے بعض زخمی اہلکاروں کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس سلسلے میں محکمہ صحت سندھ سے رابطہ کر لیا گیا۔ذرائع کے مطابق پولیس کالج میں اسلحے کا ذخیرہ بھی تھا جو محفوظ ہے۔پہلے دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے واچ ٹاور پر موجود اہلکار کو شہید کیا اور پھر ہاسٹل میں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا۔ اطلاع ملتے ہی پاک فوج کی اسپیشل ٹیم، ایف سی اور اے ٹی ایف اہلکاروں نے علاقے کا محاصرہ کیا۔ پاک فوج اور ایف سی کمانڈوز کی کارروائی میں ایک بمبار مارا گیا جبکہ دو نے خود کو دھماکوں سے اڑا لیا۔ آپریشن کے دوران ہیلی کاپٹرز سے فضائی نگرانی بھی کی گئی۔ سول اسپتال میں خودکش حملے کے بعد کوئٹہ میں گزشتہ 3 ماہ کے دوران دہشتگردی کی یہ دوسری بڑی کارروائی ہے، جس پر شہر میں سوگ کا سماں ہے، اہم کاروباری مراکز اور مارکیٹیں بند ہیں۔ بلوچستان حکومت نے صوبے بھر میں 3 جبکہ پنجاب حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا ہے۔ جس کے تحت صوبے بھر کی تمام سرکاری، نیم سرکاری اور اہم نجی عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رہیں گے۔

واضح رہے کہ رواں برس کوئٹہ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات رونما ہوئے، 28 جون 2016 کو کوئٹہ میں فائرنگ کے 2 مختلف واقعات میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔8 اگست کو کوئٹہ سول ہسپتال کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد ہلاک اور 112 سے زائد زخمی ہوئے تھے، ہلاک ہونے والوں میں نجی ٹی وی کا کیمرہ مین بھی شامل تھا جبکہ اکثریت وکلا کی تھی جو بلوچستان بارکونسل کے صدر انور بلال کاسی کے قتل کی خبر سن کرہسپتال پہنچے تھے۔اسی طرح13 ستمبر 2016 کو کوئٹہ کے علاقے سریاب روڑ پر پولیس ٹریننگ کالج کے قریب دھماکا ہوا تھا جس میں 2 پولیس اہلکار ہلاک اور 8 افراد زخمی ہوگئے تھے۔اور اب 24اکتوبر 2016کی درمیانی شب دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ کالج پر حملہ کر دیایہ پولیس ٹریننگ کالج سریاب روڈ پر واقع ہے جو کوئٹہ کے حساس ترین علاقوں میں سے ایک ہے،کالج کا رقبہ تقریباً ایک ایکڑ ہے اور یہ کوئٹہ شہر سے تقریباً 13 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں رات کے وقت اور سردیوں کے موسم کا فائدہ اٹھا کر کوئی بھی گھس سکتا ہے۔ اس علاقے میں شدت پسند تقریباً ایک دہائی سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے آرہے ہیں۔پولیس حکام نے زخمیوں کی تعداد 124 بتائی ہے جن میں ریسکیو آپریشن میں شامل چار فوجی اور دو ایف سی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے 20 کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب ملک بھر خصوصاً بلوچستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کی وجہ سے سکیورٹی کے مزید سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔مزید کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے کوئٹہ کے ہسپتالوں کے باہر سیکیورٹی کے غیرمعمولی اقدامات کئے گئے ہیں بالخصوص 8 اگست کو دہشت گردوں کی جانب سے سول ہسپتال کو نشانہ بنائے جانے کے بعد اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے خصوصی اقدامات کئے گئے۔ادھر صوبائی حکام کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد کوئٹہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے عملے کو فوری طور پر طلب کرلیا گیا۔اس سے قبل 2006 اور 2008 میں بھی ٹریننگ کالج پر راکٹ حملہ کیا گیا تھا جو کالج کے گراؤنڈ میں جاکر گرا تھا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے رات گئے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے پہلا حملہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقبی علاقے میں واقع واچ ٹاور پر کیا گیا جہاں موجود اہلکارنے بھرپور مقابلہ کیا لیکن جب وہ شہیدہوگیا تو حملہ آور دیوار پھلانگ کر کالج کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔حملے کے وقت ٹریننگ سینٹر سے باہر نکلنے والے ایک زیرِ تربیت اہلکار نے مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ساڑھے نو سے دس بجے کے درمیان شدت پسندوں نے اندر داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی۔پولیس کا یہ تربیتی مرکز خاصے بڑے علاقے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا رقبہ دو سو ایکڑ سے زیادہ ہے وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ اس حملے کی اطلاع ملتے ہی ایف سی، پولیس اور کمانڈوز کے دستے وہاں پہنچ گئے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی چار گھنٹے میں مکمل کی گئی۔ پولیس ٹریننگ کالج میں تقریباً 700 کے قریب کیڈٹس موجود تھے جن میں سے زیادہ تر کیڈٹس کو بحفاظت بازیاب کرالیا گیا۔ واقعے میں تین دہشت گرد ملوث تھے ۔جوابی کارروائی میں اندھیرے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس کالج کے اندر آتی جاتی رہیں ، اس دوران کئی ہیلی کاپٹرز بھی فضاء میں گشت کررہے تھے۔جائے وقوع پر موجود پولیس اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں نے بتایا کہ حملے کے دوران کئی زور دار دھماکے بھی سنائی دئیے۔

علاوہ ازیں جوابی آپریشن کی قیادت کرنے والے فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی) بلوچستان کے آئی جی میجر جنرل شیر افگن نے بتایا کہ ’ایف سی کے آنے کے 3 سے 4 گھنٹے بعد صورتحال پر قابو پالیا گیا دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے، تینوں حملہ آوروں نے خود کش جیکٹس بھی پہن رکھی تھیں۔دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جبکہ تیسرے دہشت گرد کو سکیورٹی اہلکاروں نے ہلاک کیا۔ دہشت گردوں کی گفتگو سے ایسا لگتا تھا کہ ان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ تنظیم لشکر جھنگوی العالمی گروپ سے تھا تاہم خود اس گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ۔زیر تربیت اہلکاروں کو ایک شدت پسند نے یرغمال بنایا ہوا تھا اور جیسے ہی سکیورٹی اہلکار اس کمرے میں داخل ہوئے خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑا دیا۔ایک عینی شاہد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے تین دہشت گردوں کو براہ راست بیرکس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔دہشت گرد شال اوڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے اچانک فائرنگ شروع کردی جس کے بعد ہم سڑھیوں اور خارجی راستے کی جانب بھاگنے لگے‘۔قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ حملہ آوروں نے ٹریننگ سینٹر پر پانچ مختلف سمتوں سے فائرنگ کی۔یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ 2 حملہ آور واچ ٹاور کے گارڈ کوشہید کرکے مرکزی دروازے سے داخل ہوئے جبکہ ایک حملہ آور کمپاؤنڈ کی پچھلی دیوار کود کر اندر آیا۔، ایک زخمی کیڈٹ نے بتایا کہ جب حملہ ہوا تو کیڈٹس کے آرام کا وقت تھا اور اس موقع پر افرا تفری پھیل گئی جبکہ ان کے پاس رائفل بھی موجود نہیں تھا جس سے وہ حملہ آوروں کا مقابلہ کرسکتے۔حملے کے بعد جائے وقوع پر فرنٹیئر کوراور ایس ایس جی کمانڈوز پہنچے جنہوں نے ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ دو حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور زیادہ تر ہلاکتیں ان دھماکوں کے نتیجے میں ہی ہوئیں جبکہ تیسرے حملہ آور کو فرنٹیئر کور کے اہلکاروں نے ہلاک کیا۔ایک کیڈٹ نے بتایا کہ ’میں نے تین نقاب پوش افراد کو دیکھا جن کے پاس کلاشنکوف تھیں، وہ سینٹر میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کردی تاہم میں دیوار کود کر بچ نکلنے میں کامیاب رہا‘۔

ایس ایس پی آپریشنز محمد اقبال نے بتایا کہ ’دو حملہ آور مرکزی دروازے سے داخل ہوئے‘۔ تین میں سے ایک حملہ آور کی خود کش جیکٹ پھٹ گئی جس کی لاش سینٹر کے احاطے میں ملی۔بلوچستان کی صوبائی ترجمان انوار الحق کاکڑنے بتایا کہ تربیتی مرکز کی سکیورٹی کے انتظامات پر خصوصی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ صوبائی حکومت کے پاس محرم کے دوران کسی دہشت گرد واقعے کے بارے میں اطلاعات تھیں۔’محرم کے دوران سکیورٹی ہائی الرٹ تھی لیکن عاشورہ کے بعد سکیورٹی معمول کے مطابق آ گئی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے ٹریننگ سینٹر کو نشانہ بنایا اس حملے میں ناقص سکیورٹی کے ذمے داروں سے جواب طلبی کی جائے گی۔شدت پسند افغانستان اور انڈیا کی رہنمائی میں ٹریننگ حاصل کریں گے تو انھیں لاجسٹک مدد فراہم ہو گی، وہ ٹیکنیکل اور سٹرٹیجک دونوں لحاظ سے ہم سے آگے ہوں گے۔ ہمیں صرف شدت پسندوں کا مقابلہ نہیں کرنا بلکہ ہمیں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور افغان انٹیلیجنس ایجنسی این ڈی ایس کا بھی مقابلہ ہے۔ شدت پسند اْن کے ساتھ تیسرے فریق ہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سکیورٹی میں خامیوں کی وجہ سے ہی دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں میں صوبائی حکومتوں سے پوچھوں گا کہ ہم مسلسل الرٹ کیوں نہیں ہوتے۔

آئی جی ایف سی کا کہنا ہے کہ اس حملے میں لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے۔فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل شیر افگن نے حملے کے بعد پریس کانفرنس میں لشکر جھنگوی العالمی کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا اور حملہ آور افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔تاہم تحریکِ طالبان پاکستان کراچی کے نام سے موصول ایک پیغام میں حکیم اﷲ محسود گروپ کے ملا داؤد منصور کی جانب سے یہ حملہ کرنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے تاہم اس کی آزادی ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔بیان کے مطابق اس حملے میں چار حملہ آور شامل تھے اور یہ حکومتی کارروائیوں کا ردعمل ہے۔ادھر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے منگل کی صبح بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ایک مبینہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا پیغام تو جاری کیا ہے لیکن اس حملے کے بارے میں وہ خاموش ہیں۔حکام کی جانب سے اس حملے کے حوالے سے جس تنظیم یعنی لشکر جھنگوی العالمی کا نام لیا گیا ہے وہ پاکستان میں متحرک شدت پسند تنظیموں میں زیادہ فعال دکھائی نہیں دیتی۔اس کالعدم تنظیم کا قیام بنیادی طور پر فرقہ وارانہ تشدد میں ملوث گروپ لشکری جھنگوی کے ٹوٹنے سے عمل میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ ایشیئن ٹائیگرز، جنداﷲ اور جند الحفصہ نامی دیگر ایسے گروپ تھے جنھوں نے لشکر جھنگوی سے جنم لیا تھا۔لشکر جھنگوی خود بھی سنہ 1996 میں ایک دوسری فرقہ وارانہ تنظیم سپاہ صحابہ کی کوکھ سے پیدا ہوئی تھی اور کراچی سے لے کر قبائلی علاقوں تک فوجی آپریشن ضرب عضب سے قبل وجود رکھتی تھی۔لشکرِ جھنگوی العالمی کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا تحریک طالبان جماعت الحرار کی طرح تو سرگرم نہیں ہے لیکن خیال ہے کہ یہ حملہ کراچی اور پنجاب میں شدت پسندوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل ہوسکتا ہے۔اس سال اگست میں کراچی میں رینجرز نے لشکرِ جھنگوی العالمی کے ایک رہنما سید صفدر کے سر کی قیمت 50 لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ سید صفدر عرف یوسف خراسانی پر الزام ہے کہ وہ ملک میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔لشکر جھنگوی العالمی نے کوئٹہ میں جنوری سنہ 2013 میں ایک حملے میں 92 جبکہ فروری میں ایک بازار پر حملے میں 81 افراد کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی اور ان حملوں میں مرنے والوں کی اکثریت شیعہ ہزارہ برادری کے افراد کی تھی۔ایک بڑی سکیورٹی تنصیب کو نشانہ بنا کر تنظیم نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اب بھی اس طرح کی کارروائیوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔سکیورٹی حکام کی جانب سے فوری طور پر لشکری جھنگوی العالمی کا نام لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں ممکنہ طور پر ایسے کسی حملے کا خدشہ تھا۔زخمیوں میں ایسے کئی اہلکار بھی شامل ہیں جو حملے کے وقت عمارت سے باہر چھلانگیں لگانے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ثنا اﷲ زہری نے بتایا کہ ’مجھے چند روز پہلے اطلاع موصول ہوئی تھی کہ کچھ دہشت گرد کوئٹہ شہر میں گھس گئے ہیں جس کے بعد پورے شہر میں ہائی الرٹ نافذ کر دیا تھا۔ انھیں شہر کے اندر موقع نہیں ملا تو وہ شہر سے باہر تربیتی مرکز تک پہنچ گئے۔‘

وزیراعظم محمد نواز شریف نے کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سنٹر پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکام کو ہدایت کی ہے کہ حملہ آوروں کو فوری طور پر کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔وزیراعظم نے سنٹر میں زیر تربیت کیڈٹس کی سکیورٹی اور حفاظت سے متعلق تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران ریکروٹس کی قیمتی جانوں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی جائے اس کے ساتھ وزیراعظم نے سول ہسپتال کوئٹہ میں جا کر زخمیوں کی عیادت کی اور ان کے بہترین علاج کے لیے ہدایت بھی کی۔جنرل راحیل شریف بھی سانحہ کے فورا بعد کوئٹہ پہنچ گئے اور زخمیوں کی عیادت بھی کی۔

پاکستان میں ماضی میں بھی پولیس کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ مارچ 2009 میں لاہور کے نزدیک مناواں میں پولیس کے تربیتی مرکز پر شدت پسندوں کے حملے میں8 پولیس اہلکار ہلاک اور سو کے قریب زخمی ہوئے تھے۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارکا کہنا ہے کہ لوگ روزجنازے اٹھا کرمایوس ہو رہے ہیں۔میں پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کوئی جان بوجھ کر کوتاہی نہیں کرتا مگرکہیں خامی ہوتی ہے تو واقعات ہوتے ہیں۔ جب خدشات تھے تو سیکیورٹی مزید مضبوط ہونی چاہیے تھی، کہیں روگردانی ہوئی ہے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ صوبائی حکومتوں سے پوچھوں گا کہ ہم مسلسل الرٹ کیوں نہیں ہوتے۔ سکیورٹی ناقص تھی تو ذمہ داروں کو برطرف کرنا چاہیے۔ میں اندرونی میٹنگ میں سوال اٹھاتا ہوں اور جواب طلبی بھی کرتا ہوں۔چوہدری نثار نے کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملے کے شہداٰء کیلئے مغفرت اور زخمیوں کیلئے صحت کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ ہم انصاف کی بات کرتے ہیں مگر انصاف ہوتانہیں۔ انصاف ہوتا دکھائی دینا چاہیے صرف انصاف کی رٹ لگانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ممتاز عالم دین مفتی نعیم نے کہاکہ کوئٹہ دہشت گردی کی جس قدر مذمت کریں کم ہے۔ ان کا کہناہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی قربانیاں لازوال ہیں۔ آئے دن ہماری فورسزپرحملے ہو رہے ہیں۔بھارت ہمارادشمن ہے،ہمیں کمزور کرناچاہتاہے۔ بھارت کے معاملے پرہماری پالیسی نرم ہے۔ حکمرانوں کو مقابلے کے لیے سخت جواب دینا ہوگا۔ترجمان امریکی محکمہ خارجہ جان کربی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ سینٹر پردہشت گردی کا واقعہ افسوسناک ہے جس میں قیمتی جانی نقصان ہوااور امریکا اس مشکل صورتحال میں پاکستان اور عوام کے ساتھ ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، جاں بحق اہلکاروں کے خاندانوں اور زخمیوں سے یکجہتی کا اظہار بھی کیا۔

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹرپرحملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے شہداء اورزخمیوں کے اہل خانہ سے ہمدردی اوریکجہتی کااظہارکیاہے۔عمران خان نے مطالبہ کیاکہ صوبائی حکومت زخمیوں کے بہترین علاج کویقینی بنائے۔سابق صدر آصف زرداری نے بھی کوئٹہ میں دہشت گردی کی شدیدمذمت کی ہے۔انہوں نے شہداکے لواحقین سے اظہارتعزیت کیاہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اﷲ زہری کوکوئٹہ سانحے پر تعاون کی پیشکش کی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کا کہناتھا کہ ہمیں دہشت گردوں کیخلاف مل کرلڑناہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے بھرپورعزم کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ ایسی کارروائیاں حوصلہ پست نہیں کرسکتیں۔ ڈی آئی جی آپریشنزحیدراشرف نے کہاکہ وطن کاایک ایک بچہ ہمیں عزیزہے۔ڈی آئی جی آپریشنزپنجاب کا کہنا تھاکہ کلمہ پڑھتے ہی ہمارے اندر شہادت کاجذبہ آجاتاہے۔حیدراشرف نے کہاکہ پولیس میں جذبے کی کمی نہیں ہے،محبت چاہیے۔ انھوں نے زور دیاکہ پولیس کوٹریننگ اور جدید آلات کی ضرورت ہے۔ سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید نے کہا ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی بہت افسوسناک ہے، بھارت پاکستان کے ساتھ سرحد پر نہیں لڑ سکتا، اسی لیے ایجنٹوں کے ذریعے کام لے رہا ہے۔ بھارتی انفرا اسٹرکچر پاکستان میں داخل ہو چکا ہے۔ بھارت پاکستان کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔قوم دہشت گردوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرے گی۔

پاکستان میں 10برسوں کے دوران دہشت گردی کے بڑے واقعات
پاکستان کو دہشت گردوں نے لہو لہو کرکے رکھ دیا۔دہشت گردی کے حملوں نے عوام کو بھی شدید دکھ میں مبتلا کردیاہے۔ دس برسوں کے دوران ملک میں کئی بڑے اور اہم واقعات ہوئے جس نے خون کے آنسو رلا دیا۔ گذشتہ شب کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردواقعے نے قیمتی جانوں کانقصان کیا۔ملک میں 10 برسوں کے دوران ہونے والے دھماکے اور حملوں کی تفیصلات درج ذیل ہیں۔
پاکستا ن کے حساس اور ملٹری اداروں میں حملوں کے باعث ہونے والی ہلاکتیں
کب کہاں ہلاکتیں
24اکتوبر2016 پولیس ٹریننگ کالج ہاسٹل،کوئٹہ 59اور3 حملہ آور
18ستمبر2015 پی اے ایف ائیر کیمپ ،پشاور 30اور 3حملہ آور
6ستمبر2014 نیول ڈوکیارڈ،کراچی 1اور 2حملہ آور

14اگست2014 پی اے ایف سیمونگلی ائیر بیس 11حملہ آور
8جون2014 کراچی ائیر پورٹ 26 اور10 حملہ آور
24جولائی2013 آئی ایس آئی آٖفیسر سکھر 8اور4 حملہ آور
15دسمبر2012 پشاور ائیر پورٹ 15اور5 حملہ آور
16اگست2012 پی اے ایف ائیر بیس کامرہ 2اور9 حملہ آور
22مئی2011 پی این ایس نیول بیس مہران 18 اور4 حملہ آور
10جولائی2010 سی آئی ڈی بلڈنگ کراچی 18
8دسمبر2009 آئی ایس آئی آفس ملتان 15
4دسمبر2009 پراڈا لین مسجد ،جی ایچ کیو 37اور5 حملہ آور
15اکتوبر2009 ایف آئی اے لاہور ،مناواں پولیس اسٹیشن 16اور8 حملہ آور
10اکتوبر2009 آرمی جی ایچ کیو ،راولپنڈی 10اور4 حملہ آور
7مئی2009 آئی ایس آئی آفس لاہور 40
30مارچ2009 پولیس ٹریننگ اکیڈمی ،مناواں لاہور 15اور4 حملہ آور
10دسمبر2007 پاکستان ائیرونوٹیکل کمپلیکس کامرہ 7
13ستمبر2007 آفیسر میس، تربیلا غازی 20ایس ایس جی کمانڈوز
8نومبر2006 درگائی،کے پی کے،ملٹری کیمپ 42ٹرووپس
 
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92593 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.