پربتوں کے اس پار نہ جانے کتنی سہاگنیں روز
اجڑتی ہیں کتنی بہنیں بهائیوں کی شفقت سے مرحوم ہو جاتی ہیں کتنی اولادیں
یتیمی کا لقب اپنا مقدر بنا لیتی ہیں اور کتنی مائیں کوکھ سے لے کر لحد تک
کا سفر کرتے اپنے جگر گوشوں کو روز تکتی ہیں باپ جوان بیٹوں کے لاشے اٹها
اٹھا کر تهک جاتے ہیں بهائی بہنوں کی عصمت بچاتے بچاتے قربان ہو جاتے ہیں
اور کتنی بہنیں اور بیٹیاں عصمت دری کا کلنک لیے جیتے جی مر جاتی ہیں جو
کچھ اپنے جسم کا تحفظ کرنے کے لیے ہاتھ اٹهاتی ہیں تو بعد ازاں اسی پاداش
میں اپنے پستانوں تک کٹوا بیٹھتی ہیں باپ شرم کے مارے کچھ آنکھیں پهوڑ لیتے
ہیں تو کچھ خود سوزی کر لیتے ہیں یہ لہو کی ندیاں نصف صدی سے تو بہہ ہی رہی
ہیں لیکن حالیہ دنوں میں کچھ زیادہ ہی طغیانی مچل چکی ہے اب پربتوں کے اس
پار کے ساتھ اس پار کے بهی حالات ویسے ہی ہوتے جا رہے ہیں . سرحدی علاقوں
میں آئے روز کی گولہ باری سرسبز وادیوں کو لہو رنگ سے رنگ رہی ہے آنگن میں
چلتی پهرتی خواتین اچانک ہی جان گنوا بیٹهتی ہیں سکولوں میں چل کر جانے
والے بچے میت کی صورت میں کندھوں پر اٹھا کر لائے جاتے ہیں. بازار سنسان پڑ
گئے ہیں ہر گهر میں ہر روز کہرام برپا ہوتا ہے اور سرحدوں سے کچھ دور رہنے
والے بس افوس کے دو بول بول کر مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی جتلا
دیتے ہیں .
میرا کشمیر جس کی ندیاں نالے لہو بہتا دیکھ دیکھ کر اس قدر زندوں کی نفسا
نفسی پر ماتم کرتے ہیں کہ داستان سن کر شرم آنے لگتی ہے . یہ بهی کیا مرنے
والوں سے وفاداری ہے کیا ان سے کیے گے کسی عہد کی پاسداری ہے کہ جب ان کو
ہماری ضرورت پڑی تو ہم ٹولیوں میں بٹ گئے کسی نے نہیں سوچا کہ اب اس وادی
کو مذہب فرقوں اور پارٹیوں کی ضرورت نہیں بس اسے ضرورت ہے تو ایسے لوگوں کی
جو اس کی بقا کے لیے سر دهڑ کی بازی لگانے جانتے ہوں ایسے محب وطنوں کی جو
اس کی سلامتی کے لیے سربکف ہو کر یلغار کرنے جانتے ہوں ایسے لوگوں کی جو
مثل ابن زیاد اور ابن قاسم ہوں ایسے غیرت مندوں کی جو صلاح الدین ایوبی کی
تاریخ دہرا سکتے ہوں.
لیکن یہ میرے کشمیر کی بد قسمتی کہ اسے ایسے لوگ نہیں مل سکے جو بہن بیٹیوں
کے سر آنچل سے ڈهانپ سکتے ہوں جو روتے تڑپتے والدین کی ڈهارس بندها سکتے
ہوں .
میرا کشمیر ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا ہے میرے کشمیری ایک اہم فریضہ سے کنارہ
کش ہو کر سیاسی ٹولیوں میں بٹے جا رہے ہیں . آج کشمیر کو کرنل راجہ محمود
خان ہاشم خان اور مقبول بٹ جیسے لوگوں کی کمی محسوس ہو رہی ہے . میرے کشمیر
کے بڑوں نے لحاف اور لوئیاں لیپٹ لی ہیں اور کشمیری جوان دھرنوں میں بٹ گے
ہیں اہل قلم نے کشمیر کی بے بسی کی داستانیں لکهنا چهوڑ کر تین سالہ پانچ
سالہ پردهان منترویوں کے قصیدے لکهنے کے لیے درباری قلم سنبھال لیے ہیں
میرے کیمرہ والے چائے، برف کے گولے، چاٹی کی لسی اور گول گپا فروشوں کی
تصویری جھلکیاں تو دے سکتے ہیں لیکن میرے کشمیر کے جلتے چناروں سے بے خبر
ہیں میرے کشمیر میں ایک ہی قطار میں لٹا کر کے ہندو سینا کتنی لڑکیوں کو
زندہ در گور کر دیتی ہے کسی کمیرے والے کی کوریج وہاں تک نہیں ہوئی کتنے
جوانوں کو کون کون سی اذیت دے کر مارا جاتا ہے کبهی کسی نے بریکنگ نیوز
نہیں دکهائی. ایسے حالات میں میرے( آزاد) کشمیری نوجوان کشمیر کو جلتا چهوڑ
کر دھرنوں کی شان بڑھانے کے لئے السلام آباد کے ڈی چوک کی طرف آتے ہیں.
یہ سوچے سمجھے بغیر کے اس مشن کا مقصد کیا ہے اگر وزارت عظمیٰ کی سنگاسن پر
بیٹھا میاں کچھ نہیں کر سکتا تو وزارت کے خوابوں میں گهومنے والا بلے باز
کیا کرے گا. کیا کسی نے یہ سوچا کہ ان لوگوں کو کشمیر کاز سے کتنی ہمدردی
ہے آج جب بهارت اپنی تمام تر توانائی کے ساتھ کشمیر کی سرحدوں پر ڈیپلاے ہے
تو میرے پاکستانی سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کے گیراو کی فکر کهائے جائے رہی
ہے اہل اقتدار کشمیری سرحدوں کی حفاظت سے بے خبر اپنے اقتدار کو بچانے کی
کوشش کیے جا رہے ہیں . کشمیری اگر نادانی سے کام نہ لیں تو یہ کهلا تضاد ان
کے سامنے ہے اگر آج کوئی کشمیر کا ہمدرد ہوتا تو اندرونی چپقلشوں کو بالائے
طاق رکھ کر بندوق اٹهاتا اور سرحد کی طرف چل دیتا .
تاریخ حجاج بن یوسف کو انتہائی ظالم اور سفاک انسان کی حیثیت سے گردانتی ہے
لیکن جب اسے دیبل کے ساحل سے ایک ناہید نامی لڑکی صرف اتنے حروف " یا
حجاجا" لکھ کر مخاطب کرتی ہے تو اسی وقت وہ سمجھ جاتا ہے کہ کہیں کوئی
مسلمان بیٹی مشکل میں اسی وقت وہ سات ہزار بری اور پانچ ہزار بحری جوانوں
کا لشکر اس نوجوان کی قیادت میں روانہ کرتا ہے جیسے آج دنیا محمد بن قاسم
کے نام سے جانتی ہے. تاریخ اسے کن وجوہات کی بنا پر ظالم گردانتی ہے جب کہ
اس کی زندگی ایسی داستانوں سے بهری پڑی ہے آج کوئی مورخ اگر سچ لکھنے کی
قوت رکهتا ہوا ہو تو سب سے پہلے ان لوگوں کو ظالم قرار دتے ہوئے یوں لکهے
گا ، کشمیر جل رہا تھا کشمیر کے دریا پانی نہیں خون بہا رہے تھے کشمیر کے
پربتوں سے خود رو جھاڑیوں کی جگہ لاشیں نکل رہی تھی اس وقت اہل اقتدار اپنی
رعایا کے ساتھ اور سیاسی مفاد پرست اقتدار کی خاطر اہل اقتدار سے لڑ رہے
تھے جبکہ سرحد پر کشمیری مولی گاجروں کی طرح کٹے جا رہے تھے کہ کوئی بلند و
بانگ انصاف کا ڈھونگ رچانے والا ڈی چوک میں آرمی اور پولیس کو مصروف رکهے
ہوا تها نوجوان نسل ڈهول کی تهاپ پر محو رقصاں تهی جب کہ بهارتی سینا مرضی
سے صبح و شام سرحد کی دونوں اطراف کے لوگوں پر اپنا نشانہ آزما رہی تھی. |