تبدیلی یا ٹرک کی بتی

اُردو اَدب کا ایک مشہور محاورہ ہے ’’ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا‘‘ کہا جاتا ہے کہ ایک دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والوں کو ایک سرخ نشان دِکھا کرکہا گیا کہ اُس نشان کو ہاتھ لگاکر واپس آنا ہے۔دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک بندہ دو( 2) دن بعدواپس آیا جب وجہ پوچھی گئی تو اُس کا جواب تھاکہ ٹرک رُکتا تو مَیں ہاتھ لگاتا۔آج کل کچھ لوگوں نے عوام کو انقلابی، تبدیلی اور جمہوری ٹرکوں کے پیچھے لگایا ہواہے۔ اب پتہ نہیں یہ ٹرک کہاں جا کے رُکتا ہے اور عوام کے ہاتھ آتا ہے۔

جمہوریت کے نام پہ تو عوام ہمیشہ سے بے وقوف بنتی آئی ہے آج کل تبدیلی اور انقلاب کے نام سے بے وقوف بنانے کا موسم آیا ہواہے حالانکہ موسم تو سردیوں کا آرہا ہے تبدیلی اور انقلاب سردیوں کی بیماریاں تو نہیں ہیں ۔ بات ہو رہی تھی بے وقوف بنانے کی لیکن اب تو بے وقوف بنانے والوں کو محنت بھی نہیں کرنا پڑتی کیونکہ ہمارے ہاں بنے بنائے بہت سے بے وقوف یہاں وہاں بِکھرے پڑے ہیں۔ بس تبدیلی، انقلاب اور جمہوریت خطرے میں ہے کی آواز لگانے کی دیر ہے آپ کے اِردگرد مجمع لگ جائے گا۔تبدیلی اور انقلاب کے نام پہ بے وقوف بننے والے بھی ایسے ہیں کہ آواز لگانے والے ان کواپنے مفادات کے اندھے کنویں میں لا پھینکتے ہیں اور خوداپنا مقصدپورا ہونے پہ بُلٹ پروف گاڑیوں اور کنٹینرز میں بیٹھ کے آرام سے یُو(U)ٹرن لے لیتے ہیں یا اُڑن چُھو ہو جاتے ہیں۔

اگست 2014میں بھی تبدیلی اور انقلاب کے نام پہ دو ٹرک مطلب کنٹینرز تیار کئے گئے اور عوام ان کی بتیوں کے پیچھے چار مہینے اور چار دن (126دن)لگے رہے اور مرد وزن کے اس مجمع کو اپنے ٹرانس میں رکھنے کے لئے روزانہ ڈھول کی تھاپ اور موسیقی کے طوفانِ بد تمیزی کی محفلیں سجائی جاتی اور عوام بانہوں میں بانہیں ڈال کے ناچتے رہتے، ملکی املاک پہ حملے بھی کئے گئے تھے اور جن کی وجہ سے بے وقوفوں کا مجمع لگا تھا وہ لوگ اپنے مفادات پورے ہونے پہ یوٹرن لے کے اپنے محلوں میں عیش وآرام میں گم ہو گئے۔سمجھ نہیں آتی خود کو وزیر اعظم بننے کی دیکھنے کے ضدی لوگوں اور دوسرے ملک کی قومیتکے لئے دھکے کھا کھاکے ملکہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف اُٹھا کے پاکستان کے آئین سے غداری کرنے والوں کواپنے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کے پاکستان کے حالات کی فکرکیوں کھاتی ہے اور عوام کی ہمدردی کا دورہ کیوں پڑتا ہے۔یہ مرگی کا دورہ بھی نہیں ہوتا کہ گندی جرابیں یا جوتا سونگھا کے علاج کیا جا سکے۔

آزادی مارچ کا دھرنا جس جگہ دیا گیا تھااُس ایریا میں لوگوں نے اتنی آزادی سے انقلاب کیا کہ ہرطرف انقلاب کے ڈھیر لگ گئے ملک میں تبدیلی تو نہ آئی لیکن لوگوں کے کئے گئے انقلاب سے ماحول میں تبدیلی آگئی اور اس تبدیلی کی بد بُونے کئی کلومیڑتک دوسرے لوگوں کا جینا محال کر دیاتھا۔کہنے والے تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ آزادی پسند نا محرموں کو جب آزادی سے گھل ملنے کے مواقعے ملے اوپر سے موسیقی کے نشے میں چُور تبدیلی کے خواہاں میں اتنی تبدیلی آئی کہ وہ بھول گئے کہ وہ پاکستان میں ہیں یورپ میں نہیں اوررات کے اندھیرے گواہ ہیں کہ خالی کنٹینروں اور گیسٹ ہاوٗسز میں کیا کیا انقلاب آتے رہے۔ ان انقلاب اور تبدیلی پسندوں کے ماں باپ خوش کہ ہمارے بچے تبدیلی لائیں گے اور پھر بعض لوگوں کو کچھ عرصہ بعد تبدیلی کے آثار بھی اُبھرتے نظر بھی آئے۔اس کے علاوہ صفائی کرنے والے عملے کو بھی انقلابی تبدیلیوں میں استعمال ہونے والا سامان بھی وافرمقدار میں ملا۔

آج کل احتسابی ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام کو لگا دیا گیا ہے احتساب مانگنے والے اور تلاشیاں لینے والے خود ایسے لوگ ہیں جب اُن کے لئے احتساب کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سے تو غلطی ہوئی ہمیں معاف کر دیں پر دوسروں کواحتساب کے کٹہرے میں کھڑا کر کے کھال کھینچ لیں اورجب ان کی تلاشی لی جائے تو ناجائز اسلحہ اور ولایتی شراب برآمد ہوتی ہے۔وہ اس پہ بھی تازہ بیوہ کی طرح بین ڈالنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہمیں سیکیورٹی تھریٹس ہیں چلو اسلحہ تو سیکیورٹی کے لئے ہے پر شراب کس لئے؟ شراب کا تو قرآن کریم میں واضح منع کیا گیا ہے تو کیا یہ لوگ پاکستان میں ایسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس میں غیر مذاہب کے قوانین ہوں گے اور وہ خود کچھ کریں تو اُن کے لئے جائز ہوگا کوئی دوسرا کرے گا تو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے پڑے گا۔

اس احتسابی احتجاج کے نام پر ملک کے درالحکومت کو بند کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور لوگوں کو بغاوت پہ اُکسایا جا رہاہے عدالت کے فیصلے کو ہوا میں اُڑایا جا رہا۔ آئین کو نہ ماننے والے احتجاج کو اپنا آئینی اور جمہوری حق کہتے ہیں اور اِسی آئین کے تحت ہونے والے فیصلے کو نہیں مانتے اور جمہوری حکومت کو گرانے کے در پے ہیں۔ چلو مان لیا احتجاج آئینی حق ہے تو پھر آئین کے اندر رہتے ہوئے ایک جگہ پہ پُرامن احتجاج کریں نہ دوسرے لوگوں کو تو ذلیل نہ کریں جو امن سے اپنی کام کرنا چاہتے یا اپنے فرائض سرانجام دینا چاہتے ہیں۔ ملکی اداروں اور عمارتوں کی توڑپھوڑ اور لوٹ مار تو نہ کریں نہ۔کیسی تبدیلی ہے یہ جس کی وجہ سے شریف النفس انسان ڈر کے مارے گھر میں محسور ہو جائیں اور اپنی جان مال اور عزتیں بچاتے پھریں۔

انقلاب، تبدیلی، احتساب اور جمہوریت کے نعرے لگانے والے بُلٹ پروف گاڑیوں اور ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں نہیں چھپتے بلکہ وہ تو عوام کے بیچ میں رہ کر اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر اس عمل کو پورا کرتے ہیں بغیر کسی حفاظتی حصار کے ۔وہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اپنے اپنی حفاظتی دیوار نہیں بناتے اور نہ ہی مذہب کے نام پہ بلیک میل کرتے ہیں بلکہ وہ تو اپنا سب کچھ عوام کی بھلائی اور اپنے مقصد کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔آج کل کے انقلاب اور تبدیلی لیڈروں کی اولادوں کو دھرنوں میں یا جلسے جلوسوں میں عوام کے ساتھ دھکے اور ڈنڈے کھاتے کبھی دیکھا ہے؟ کاش عوام کو بے وقوف بنانے والوں کی اولادیں بھی عوام کے ساتھ شانہ بشانہ ہوتیں تو پھر اس ملک میں تبدیلی آچکی ہوتی۔اپنے مفادات کی جنگ لڑنے والوں کو تو اپنے بچے عزیز ہوتے ہیں قربانی کے لئے تو دوسروں کے بچے سستے بلکہ مفت میں پڑتے ہیں نہ۔آپ نے کبھی کسی لیڈر کو اپنے کارکن کے مرنے پرآنسو بہاتے دیکھا ہے؟روتا تو وہ ہے جس کا اپنا مرتا ہے، خون کے آنسو تو وہ ماں روتی ہے جس کا جگر کا ٹکڑا مفاد پرست لوگوں کے جھوٹے نعروں میں آ کے اپنی ماں کو زندگی بھر کا وچھوڑا دے جاتا ہے۔

احتساب کا نعرہ لگانے والوں نے، تلاشیوں کا مطالبہ کرنے والوں نے کبھی اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے؟ کبھی اپنے اِرد گرد خوشامدی درباریوں اور پیسے کے بل بوتے پہ عیاشیاں مہیا کروانے والوں کے احتساب کیوں نہیں کرایا؟تبدیلی تو یہ ہے کہ آپ خود اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پہ خود کو سزادلوانے پہنچ جائیں۔آپ تو ویسے بھی عوام کے منتخب نمائندے ہیں آپ کو تو پارلیمنٹ میں جا کے عوام کے حقوق کی لڑائی دلائل سے لڑنی چاہئے، قانون سازی کرنی چاہئے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے چاہئے نہ کہ شہر وں کو بلاک کراکر عوام کو ناکوں چنے چبوانے چاہئے۔خدا را عوام کوانقلاب، تبدیلی ، احتساب اور جمہوریت کے ٹرکوں کی بتیوں کے پیچھے نہ بھگائیں۔دھرنوں، روڈ بلاک اور مفادات کی سیاست چھوڑ کے عوام اور ملکی مفادات کے لئے مثبت اقدام کریں اور ملک کو ترقی اور خوشحالی کے آکاش کا درخشاں ستارہ بنا دیں جس کی دنیا مثالیں دے۔ؒؒاﷲ ہم سب کو پاکستان کا وفادار اور مخلص بنائے اور لوگوں میں آسانیاں بانٹنے کو ہمت وتوفیق عطا کرے۔امین
Akash Baloch
About the Author: Akash Baloch Read More Articles by Akash Baloch: 3 Articles with 5886 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.