تم ہو کون ۔۔۔ ذاتیات یا سیاست

 آج مجھ سے گھی کا ڈبہ اُلٹ گیا تین کلو گھی برباد ہو گیا اسکی ذمہ داربھی حکومت ہے میں نے عمران خان کی طرح سوچا ۔پھر خیال آیااس سب کی ذمہ دار ٹی وی پر دکھائی جا رہی یوم تشکر ہے نہ میرا دھیان ادھر ہوتا نا میرے ذہن میں متضاد باتوں کا جوار بھاٹا چل رہا ہوتا تو یہ بھی نہ ہوتا۔

آج کے دور میں ہم سب نے یہی وتیرہ اپنا لیا ہے کہ جو بھی ہو جائے اُس کا ذمہ دار کسی دوسرے کو ٹھہرانا ،فیل ہونے پر اُستاد نے ہم سے دشمنی نکالی ،کام نہ ہونے پر پولیس پر رشوت خوری کا الزام ،میچ ہار جانے پر میچ فکسنگ کا الزام ،راستے میں کوئی حادثہ ہو گیا ہے لا پرواہی یا غفلت ڈرائیور کی ہے لیکن ذمہ داری ہم تھوپیں گے حکومت پر ،اور اگر شومئی قسمت اس کا تعلق کسی سیا سی جماعت کے رہنما سے نکل آئے پھر تو مخالف پارٹی کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی سمجھیں ۔اس ایک فرد کی ذاتی حرکت کا ذمہ دار ہم اُس جماعت کو ٹھہراتے ہیں انفرادی غلطی کی سزا اجتماعی کیوں ۔

میں نے ایک بار پہلے بھی کہا تھا اب پھر کہہ رہی ہوں جب تک ہر ایک فرداپنے طور پر اپنے حصے کی ذمہ داری نہیں نبھائے گا معاشرے کا سدھار ممکن نہیں ۔

لیڈر صوبائی و حکومتی ممبران ہمارے بھاری مینڈیٹ سے فتح یاب ہو کر آتے ہیں پھر اچانک ہی ہمیں لگنا شروع ہو جاتا ہے کہ یہ تو ہم پر مسلط کر دئیے گئے ہیں ۔دنیا میں محض بیس فیصد لوگ ا پنی ذاتی سوچ سے کام لیتے ہو نگے باقی اسی فیصد وہ افراد ہیں جن کا ریموٹ کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں اگر کوئی شادی کے بعد الگ رہنا شروع کر دے تو اُس پر جورو کی غلامی کی مہر لگا دی جاتی ہے۔ماں باپ بہن بھائی کی ذمہ داری سے لا پرواہی کی موجب بیوی ٹھہرائی جا تی ہے بھلے ہی شادی سے پہلے وہ شخص بلا کا لاپروا واقع ہوا ہو۔سب سے زیا دہ مشکل تو مشترکہ فیملی سسٹم میں ہوتا ہے جہاں ایک کے مقابل بارہ ذہن کارفرما ہوتے ہیں ہر ایک کی سازش کا جواب خاتون کے لیے مشکل ہوجاتا ہے خاص کر جب اُس کا اپنا بھی اُس کے ساتھ کھڑا نہ ہو۔کچھ ایسا ہی حال اس وقت پاکستان اور حکومت کا ہے ۔
کشمیر کا مسئلہ ، بھارتی مداخلت،بنیادی مسائل ،ڈیم ،بین الاقوامی مسائل ،دہشتگردی ،اور اندرونی جس خانہ جنگی کا سامنا ہوا ہے اُس کے لیے واقع مظبوط اعصاب کا ہونا بہت ضروری ہے،لیکن داد کی مستحق ہے گورنمنٹ جس نے ان حالات کا سامنا کیا ۔کبھی دھرنے کبھی املاک کا نقصان بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گی کہ اگر میاں صاحب کی جگہ کوئی اور ہوتا تو خان صاحب کی ملک بدری کر چکا ہوتا۔بحث کے قطع نظر اس بار حکومتی تقسیم بہت ہی معاملہ فہمی سے ہوئی ہے پیپلز پارٹی کا مرکز سندھ ہے انہیں وہی صوبہ ملا،پنجاب مسلم لیگ اور کے پی کے کی خوش بختی خان صاحب کے حصہ میں آئی ۔

حالانکہ اس الیکشن سے پہلے تک صرف دو پارٹیز کو ہی بڑی پارٹی مانا جا رہا تھا مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ،بیس سال سے سیاسی دوڑ میں شامل تحریک انصاف کو پہلی بار اتنی بڑی کامیابی ملی۔الزامات کی سیاست کی ابتداکہا ں سے ہوئی، نہیں علم، مگر اپنی ہوش میں اس کا منتج عمران خان کو پایا،اخلاقی حدود و قیود سے مبرا گفتگو،بد تہذیبی و قانون شکنی ،اوچھا پن ،کیا نہیں سکھا رہے وہ چند کم فہم لوگوں کو۔مثال دوں ؟چھپ کے روٹی لے جانے والے چوہے کی طرح آ کر کہہ رہا ہے میں علیؑ کی طرح زندگی اور حسین ؑ کی طرح شہادت کا رتبہ چاہ رہا ہوں ،اس کے ان الفاظ کو اپنی فتح کی طرح جشن منانا میرے نظریات کے مطابق نہیں کہ ایک تمباکو پینے والا اُن ہستیوں سے تقابل کرے جن کا نام لینے کے لیے بھی باوضو ہونا چاہیے ۔
ایک واقعہ گوش گزار کرنا چاہوں گی بہت بچپن میں سنا تھا کہ ایک بار کوئی شخص اپنے بیٹے کو لے کر آ یا کہ یا رسول ﷺ میرے بیٹے کو گُڑ کھانے سے منع فرمایئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا کل آنا۔ وہ اگلے دن آیا تو آپ ﷺ نے کہا گُڑ مت کھانا۔ اُس شخص کو حیرت ہوئی پوچھا یا رسولﷺ اتنی سی بات آپ ﷺ کل ہی فرما دیتے ۔آپﷺ نے فرمایا کل میں نے خود گُڑ کھا رکھاتھا۔

یعنی جو فعل خود کر رہے ہوں اُس کے لیے دوسروں کو بھی منع نہیں کرنا چاہیے۔ سیدھے لفظوں میں کہوں تو جو کام آپ نے خود کر لیا اسی کام کے مرتکب شخص پر انگلی نہ اُٹھائیں ۔دوسروں پر الزام کے لیے اپنا پاک ہونا ضروری ہے ۔ تو اسی طرح آف شور کمپنی کا شور مچانے والے خان صاحب اور حواری پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں کہ کیا آپ آف شور کمپنیوں کے بارے سوال اُٹھا سکتے ہیں؟ کہیں آپ نے تو کسی کا مال نہیں کھایا؟ کہیں آپ نے اپنے عزیزوں یا دوستوں کو اپنے مطلب کے لیے استعمال تو نہیں کیا ؟ آپ کو جہا ں کی ذمہ داری سونپی گئی کیا وہاں ساری ذمہ داریوں سے فراغت پا چکے ہیں جو سارے کام چھوڑ کر اسلام آباد بند کرنے یا حکومت گرانے میں لگے ہوئے تھے آپ ؟

حالانکہ حکومت آپ کو جوابدہ نہیں اس کے باوجود حکومتی نمائندگان نے بارہا دلائل پیش کئے آپ کی تسلی و تشفی کی خاطر خواہ کوشش کی گئی کہ اگر ثبوت ہیں تو عدالت لائیں گنہگار ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا ۔

اب میں آپ سے کچھ پوچھوں ۔زیا دہ تو نہیں پتا مجھے جتنا سامنے نظر آرہا ہے کہ ایک آدمی جس کے پاس کوئی بقول اُس کے نوکری نہیں ہے اتنی بادشاہوں والی زندگی کیسے گزار رہا ہے ؟غریب عوام سے سو سو روپیہ چندہ وصول کر کے آپ نے کونسی موٹر وے بنا دی ہے؟کونسی اورنج ٹرین چلا دی ہے ؟کیا سہولت دی آپ نے عوام کو؟ اُلٹا وہ کم فہم لوگ ماریں کھا رہے ہیں گرفتار ہو رہے ہیں قانون شکنی یا بد اخلاقی کا شکا ر ہو رہے ہیں آپ کا کیا بگڑ رہا ہے ؟ پچھلے دنوں آپکی پارٹی رہنما نے پولیس اہلکار سے بدتمیزی کی منہ نوچا اُلٹا میڈیا پر تماشہ بنایا کہ پولیس کی غلطی ہے ۔کسی پریس رپورٹر کے ساتھ بدتمیزی پر آپ کا ری ایکشن تھا ،اچھا وہ فلاں چینل اچھا ہوا اُس سے کہو صحیح کام کرے۔یہ کیسا انصاف ہوا ؟

ہمارے ایک پنجابی دوست ہیں وہ کہتے ہوتے ہیں ساڈاکتا کتا تے تواڈا کتا ٹومی ۔پولیس اہلکار کی بد تمیزی تو بہت اُچھال لی مگر آپ کی اُس خود ساختہ مظلومہ نے کیا کیا کِیا وہ دیکھا؟انتشار پھیلانے سے فرصت مل جائے تووڈیو ملاحظہ فرما لیجئے گاآپکی ممبر نے مرد پولیس اہلکار کو مارنے کے لیے پتھر اُٹھایاخاتون اہلکار پتھر پکڑنے کے لیے آئی تو آپکی رہنما اُس سے دست و گریباں ہو گئی منہ نوچا،یونیفارم کھینچا ،ہاتھا پائی کی ،قانون اور یونیفارم مذاق نہیں ہوتے سخت ٹریننگ اور اپنا خون پسینہ ایک کر کے محنت سے یونیفارم کمایا جاتا ہے ۔اتنا آسان نہیں ہوتا یونیفارم پہن کے لوگوں کی نظریں اور روئیے برداشت کرنا،اس یونیفارم ،اس قانون کو مذاق بنا کے رکھ دیاہے آپ کی پارٹی نے ۔

بات انفرادی ہو رہی ہے تو پھر معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیجئے کم از کم میں آپ کو پارٹی مانتی کیونکہ آپ نے بھی تو قانون کو ماننے سے انکار کر دیا تھا ۔سپریم کورٹ اگر آپ کو آرڈر دے رہی ہے تو آپ کو یہی قانون اپیل کا حق بھی تو دیتا ہے تو قانونی لڑائی لڑیئے ناں۔

سیاست تحمل کا کھیل ہے عشق کی طرح سیاست بھی آسان نہیں ۔آپ ابھی سیاست کے طفل مکتب ہیں اپنی ہٹ دھرمی میں نقصان آپ غریب بیچاری عوام کا کر رہے ہیں جو آپ کی ولولہ انگیزتقاریر کے زِیر اثر قانون شکنی اوربد اخلاقیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

کل سے ٹی وی بند ہے کیونکہ مجھ میں اتنا تحمل باقی نہیں رہا کہ آپ کی فضول بچگانہ سیاست کو نمک مرچ لگے مصالحے سمیت سنتی و برداشت کرتی رہوں۔آج میں باغی ہوں اور ذہن نشین کر لیجئے کہ جیسے ایک برہان کومار کر کوئی کشمیر کی آزادی کی تحریک کو دبا نہیں سکااُسی طرح آج میں باغی ہوں کل کوئی اور ہو گا ۔

الزامات کی سیاست کی بجائے حق کی لڑائی لڑئیے تو میرے جیسے لوگوں کو بھی سمجھ آئے کہ آخر آپ چاہتے کیا ہیں ؟مجھے تو ابھی تک آپ کا مقصد ہی سمجھ نہیں آیا کہ وزیر اعظم پر سوال اُٹھانے والے آخر آپ ہیں کون ؟اپنے اردگر دنظر دوڑا کر پہلے دیکھ لیں کہ کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوں اور پتا چلے دو بچے تو آپ کی بغل میں ہی دبکے ہوں۔
Ammara Kanwal
About the Author: Ammara Kanwal Read More Articles by Ammara Kanwal: 4 Articles with 2287 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.