خوفزدہ،سہمے ہوئے،دولت اورآسائش سے پروردہ
لوگو ں کی محفل ان دنوں دیدنی ہے۔ان کے تبصرے عین اس شخص کی صورت ہیں،جس نے
ایک خوبصورت،تما م ضروریات زندگی اور آسائشوں سے مزین ایک گھربنایاہو،ایک
ایساگھرجس میں اس کی نسلوں تک قائم و دائم رہنے کی صلاحیت موجود ہولیکن
اچانک دور سے ایک طوفان ا ٹھتا ہوا دکھائی دے، سیلاب کا کوئی ریلا اس کی جا
نب بڑھے یا آتش فشاں کے لا وے کی زد میں وہ گھر آتا ہوا دکھائی دے،ایسے میں
اس شخص کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ کبھی اس شخص کوکوس ر ہا ہوتا ہے جس نے اسے
یہاں گھر بنا نے کا مشورہ دیا تھا ،کبھی نقشہ نویس کوگالیاں دیتاہے اورکبھی
اس گھرپراتنا سرمایہ خرچ کرنے پراپنے آپ کولعنت ملا مت کررہاہوتاہے،جب اسے
اس بات کایقین ہوجائے کہ اب گھرآفت کی زدمیں آکرخس وخاشاک ہوجائے گااوروہ
بس اسے دیکھتاہی رہ جائے گا۔
ایسی حالت آجکل ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اس مملکت خدادادپا کستان کواپنے
آرام،دولت کی ہوس،تعیش کی لت اوراقتدارکی طلب کیلئے منتخب کیاتھا ۔ جن کے
تما م اثاثے توملک سے باہرہیں لیکن ان کی عزت وآبرواورپہچان اس ملک سے
وابستہ ہے،یا پھروہ لوگ جنہوں نے دولت اورآسائش کی چادراپنے اردگردتان رکھی
ہے اورانہیں کہیں بھوک،افلاس،غربت،بیماری اورناداری نظرنہیں آتی۔یہ ان دنوں
عجیب وغریب تبصرہ کرتے ہیں۔ان کی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں اورغصے کے عا لم میں
ان کے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں۔کہیں گے دیکھوامریکاکتنی بڑی طا قت ہے،وہ تمہارا
کچومرنکال دے گا۔یہ واحد سپر طاقت کا زمانہ ہے ۔کوئی تمہا ری مدد کونہیں
آئے گا۔کبھی ان لوگوں پربرس پڑتے ہیں کہ سب جہادی پاگل ہیں، یہ فرسودہ لوگ
ہیں،انہوں نے ہمیں بدنام کر کے رکھ دیا ہے،کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کبھی افغان
جہاد کولعنت ملا مت کریں گے اورکہیں گے کاش ہم اس میں حصہ نہ لیتے تویہ دن
دیکھنانہ پڑتے ۔
اپنے نصیبوں کوروتے ہوئے یہ لوگ پاکستان کے وجود،اس کے قیام اور اس کے مقصد
تک کولایعنی گردانتے ہیں اورپھرمستقل تبصرہ کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ
بناہی اس لئے تھاکہ ٹوٹ یاختم ہوجائے۔کوئی آمریت کوذمہ دارٹھہراتا ہے
اورکوئی جمہوریت کو۔پھر تان اس بات پرٹوٹتی ہے کہ یہ معاشیات کی دنیا ہے ۔
اپنی غربت دیکھو،اپنی مفلسی اورناداری دیکھو اورمقابلہ امریکاجیسی عالمی
طاقت سے جس کی کمپنیاں پوری دنیا پرچھائی ہوئی ہیں ۔بابا یہ جدید ٹیکنالوجی
کازمانہ ہے ۔تم فرسودہ لوگ،نہ علم رکھتے ہونہ ہی کوئی دولت کی ریل پیل
اورنہ ہی جدید ٹیکنالوجی!تم کیامقابلہ کروگے؟بس خاموش رہو،چپ کرکے زندگی کے
دن پورے کرو،کیوں خودبھی تباہ ہوتے ہواورہمیں بھی غارت کرتے ہو۔ان لوگوں
میں اہل علم بھی ہیں،اہل ثروت بھی اوراہل دانش بھی۔ مفکر بھی ہیں،کالم نگار
بھی اور صحا فی بھی۔سب طوفان کو ا پنی جا نب بڑھتادیکھ کرایک ہذیان میں
مبتلا ہیں ۔جا نتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہو نے والاہے لیکن دنیااوراس کے مال و
آسائش سے وا بستہ بزدلی کچھ ہمت پکڑنے ہی نہیں دیتی۔
لیکن خوف کی دلدل میں ڈوبتے لوگوں کو تا ریخ کا یہ سبق کون پڑھائے کہ اگر
معاشی برتری کسی کوتحفظ دینے کے قا بل ہوتی تومسلم ہندوستان پر جب چاروں
جانب سے مغربی طا قتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی تھیں تواس زمانے میں
اس کوسونے کی چڑیاکہاجاتاتھا۔بقول لارڈ میکاولے مجھے پورے ہندوستان میں
کوئی فقیر نظرنہیں آیااورنہ کوئی چوراورپھراس ہندوستان امر اء اوررؤساء
کایہ حال تھا کہ دلی کے با زاروں میں گڈچلاتے تھے یا سامان اٹھا کرمزدوریاں
کرتے تھے۔عام آدمی توپہلے بھی اسی طرح پسینہ بہا کررزق کماتاتھا،اس کی بلا
سے،نہ اس کی جائیداد تھی جوکوئی لوٹتااورنہ ہی عزت وتوقیرتھی جوکوئی
چھینتا۔جوعلم اورٹیکنا لوجی کی باتیں کرتے ہیں انہیں شایدعلم نہیں کہ تا
ریخ جنگ جیتنے کیلئے ان دونوں چیزوں کو کسی کھا تے میں نہیں ڈالتی۔
جب چنگیزخان نے غربت اورافلاس کے مارے ہوئے منگولوں کودنیافتح کرنے کیلئے
اکٹھاکیاتھاتوان کے پاس دووقت کی روٹی کھا نے کے بھی وسائل نہیں تھے۔بس
گھوڑے تھے اوراپنے کم علم لوہاروں کی بنائی ہوئی تلواریں جبکہ دوسری جانب
بحری جہازوں،رسد گاہوں،دورتک مارکرنے والی منجنیقوں اور دورتک آگ کے گولے
پھینکنے والی توپوں کاوافر ذخیرہ موجود تھا۔بغداد،بصرہ ،استنبول اورقاہرہ
کے کتب خانے،یونیورسٹیاں اورسا ئنسی تجربہ گا ہیں اپنے زمانے کی جدیدترین
ٹیکنا لوجی پڑھارہی تھیں بلکہ تخلیق کررہی تھیں لیکن چنگیزخان ان ممالک
کویوں روندتاہواگزراکہ شہروں کے شہرکھائے ہوئے بھس اورجلے ہوئے شمشان گھاٹ
کی طرح ہوگئے تھے۔
تا ریخ کی اوربہت سی گواہیاں ہیں لیکن جن کے تصور میں مرنجا مرنج زندگی
اورصبح وشام کاسہ لیسی رچ بس گئی ہو۔انہیں کون سمجھائے کہ کیا ہم ویت نام
سے بھی گئے گزرے ہیں جس کے زخم آج تک امر یکہ چاٹ رہا ہے۔ واشنگٹن میں
کیپیٹل ہل کے سا منے گول سی سیاہ سنگ مرمرکی دیوارہے جس پرا ن
ہزاروں مرنے والوں امریکی فوجیوں کے نام درج ہیں ۔انہیں کون بتائے کہ ١٩٠١ء
سے امریکانے دنیا کے ملکوں پراپنے تسلط کاآغازکیااورپھرجس ملک میں گیا وہاں
سے ذلت ونامرادی سے واپس لوٹا۔ کیاہماری سکت جنوبی امریکاکے چھوٹے چھوٹے
ملکوں،چلی،ہنڈوراس،نکاراگوا،بولیویا اور وینزویلا سے بھی کم ہے،ہر گز
نہیں!ا نہیں اندازہ نہیں کہ اگر امریکاکی شہہ پربھارت اس مملکت خدادا
دپاکستان میں داخل ہواتویہ پھرمحاذجنگ ہمالیہ کے پہا ڑوں،دہلی اورممبئی کی
وادیوں اور کلکتہ کے با زاروں سے نکل کربحیرہ عرب تک جاپھیلے گا۔جسے ہم
سرحد کہتے ہیں،وہ جہاں امریکاکے نئے اتحادی بھارت کیلئے ختم ہوگی وہاں اس
سے لڑنے وا لوں کیلئے بھی ملیامیٹ ہوجائے گی اوردنیاکی کوئی فوج اتنے بڑے
میدان جنگ میں،کوچوں،قریوں اورکھلیانوں میں لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ا یک
بڑے کوبرے سا نپ کی طرح ہرجگہ ا پنی ریڑھ کی ہڈی تڑوائے گی۔شاید اسی دن کا
انتظار وہ سب لوگ کررہے ہیں جن کی آنکھیں آسمانوں کی طرف نصرت الٰہی کیلئے
لگی ہوئی ہیں۔ہاتھ بدست دعا ہیں اوردل میں ان بشارتوں کی شمعیں روشن ہیں جو
اہل نظر سا لوں سے اس ملک کے با شندوں کو دیتے آئے ہیں۔
مولانا روم کی حکائت کے مطابق ایک بھیڑگلے سے الگ ہو گئی تو ایک بھیڑیے نے
اسے جا لیا۔بھا گتی ہوئی ایک دلدل میں جا گری،بھیڑیا پیچھے آیا تو وہ بھی
پھنس گیا۔لگا ہاتھ پاؤں مارنے لیکن دیکھا کہ بھیڑبڑی مطمئن ہے۔پوچھا کہ تم
باہر نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتی ۔اس نے جواب دیاکہ میں ایک گلے سے ہوں،
میرا مالک گنتی کرے گاتومجھے نہ پاکر میری تلاش شروع کردے گا،مجھے ڈھونڈ
نکالے گااورمجھے باہربھی نکال لے گالیکن تمہاراتوکوئی مالک نہیں۔تم نے اسی
دلدل میں ڈوبناہے ۔دلدل بھی تیارہے اورمیرامالک بھی آتاہوگا۔بھیڑیے نے حملہ
کر نے کیلئے اپنے خونخوارپنجے تیزکرلئے ہیں اور ایسے میں وہ جن کا ایمان
کامل ہے اورجواپنے اللہ کواس ملک کاگلہ بان سمجھتے ہیں ان کے حوصلے دیکھنے
کے لائق ہیں ۔نصرت کے فیصلے میرارب کرتا ہے۔اگر یہودیوں کا چیف ربی یہ کہتا
ہے کہ امریکاکی حفاظت پریہودیوں کی ہزاروں روحانی طاقتیں دن رات پہرہ دے
رہی ہیں تواس مملکت خداداد کی پیشا نی پرتومیرے رب کانام جگمگ کررہاہے۔پیش
گوئیوں،شہادتوں اورفیصلوں کے دن قریب آرہے ہیں ۔اہل نظرکی آنکھیں آسمان کی
سمت اوردل کی دھڑکنیں دعابنی ہوئی ہیں۔ |