یہ حادثات، شامتِ اعمال!

 گزشتہ دو تین روز میں پاکستان بھر میں حادثات اس تسلسل سے رونما ہوئے کہ پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کونسا دل ہے جس نے آنسو نہیں بہائے، کون سا انسان ہے جو سوگوار نہیں ہوا۔ موٹر وے پر سفر کرنے والے لطف اندوز ہی ہوتے ہیں، ماحول کے مطابق گاڑی چلانے میں ذہنی کوفت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے، رفتار بھی بڑی مشکلوں سے قابو میں رکھی جاتی ہے۔ بار بار بریک لگانے کا تصور نہیں ہوتا۔ یار لوگ بڑی بے فکری سے ڈرائیونگ کرتے اور منزل سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ موٹر وے پر چلتے ہوئے کسی سفری پریشانی کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر یہ کیا ہوا کہ ایک ٹرک کا حادثہ ہوا اور اس میں بہت سی گاڑیاں جاٹکرائیں، کچھ دھند تھی تو کچھ فضائی آلودگی۔ ماحول عجیب سا تھا، ٹکراؤ کے نتیجے میں ڈیڑھ دجن کے قریب جانیں ضائع ہوگئیں۔دوسرا حادثہ کراچی میں اس وقت پیش آیا جب زکریا ایکسپریس ٹریک پر کھڑی فرید ایکسپریس سے جاٹکرائی۔ دودرجن سے زائد مسافر ملکِ عدم کے راہی ہوئے، بیسیوں زخمی ہوگئے، یقینا بہت سے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہوگی۔ پاکستان میں ریلوے کی نیّا ڈوب رہی تھی، موجودہ حکومت کے وزیر ِ ریلوے خواجہ سعد رفیق نے بہت محنت سے ریلوے کو بحال کیا، اجڑے سٹیشن آباد ہوگئے، اور ویران لائنوں پر گاڑیاں چلنے لگیں۔ اگرچہ خواجہ صاحب نے اپنی وزارت سے ہٹ کر حکومت مخالفین کے حملوں کا جواب بھی اپنے ہی ذمہ لے رکھا ہے، تاہم وہ اپنی وزارت کو بھی خوب وقت دے رہے ہیں۔ مگر اس ساری محنت اور کامیابی کے باوجود ایک منفی پہلو یہ ہے کہ گزشتہ ساڑھے تین برس میں ریل کو سیکڑوں حادثات بھی پیش آئے، جن میں درجن بھر بڑے حادثات تھے ، جن میں ایک سو سے زائد مسافر اپنی منزل پر پہنچنے کی بجائے سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ حادثے کے فوراً بعد معاملہ اس کی ذمہ داری کا ہوتا ہے، اپنے ہاں یہ سلسلہ رائج ہے کہ کسی کمزور فرد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر جان چھڑا لی جاتی ہے۔ جبکہ ریلوے میں حادثات کی روک تھام کے لئے بارہ ارب روپے مالیت کا آٹو میٹک پروٹیکشن سسٹم بھی منظور کیا گیا تھا، جس پر عمل کی نوبت نہیں آئی۔

تیسرا حادثہ بہت بڑا ہے، مگر ہمارا میڈیا ذرا اسلام آباد کی کوریج میں مصروف تھا، اس لئے وہ عوام کو یہ خبر نہیں دے سکا کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ پر کھڑے جہاز میں موجود لوگوں پر کیا بیتی؟ ساحل پر کھڑے ناکارہ جہاز کو کاٹ کر توڑا جارہا تھا، جس میں بچا ہوا تیل بھی تھا، جہاز صاف کرنا اور اس کو کاٹنا معمول کا کام اور کاروبار ہے۔ مگر سیٹھ اور ٹھیکیدار کی مجرمانہ غفلت کی بنا پر جہاز کی صفائی اور کٹائی بیک وقت شروع کردی گئی، تاکہ وقت اور پیسہ بچایا جاسکے، یوں لالچ نے سیکڑوں خاندان اجاڑ دیئے۔ کٹائی سے اڑنے والی چنگاریاں تیل میں گرنے سے آگ بھڑک اٹھی، بیسیوں مزدور مارے گئے، بیسیوں لاپتہ ہیں، چوتھا روز ہے ، متعلقہ ادارے آگ بجھانے میں ناکام ہو چکے ہیں، مرنے والوں کی درست تعداد کا علم نہیں ہو رہا، آگ بجھنے کے بعد مرنے والوں کی اصل تعداد کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔ حادثے ایسے ہی پیش نہیں آجاتے، غفلت کا عمل دخل موجود ہوتا ہے۔ زندگی کے سفر میں حادثات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جب انسان سفر کرتا ہے تو حادثات اس کے منتظر ہوتے ہیں، کبھی اس کی اپنی غفلت کی وجہ سے اور کبھی کسی دوسرے کی غفلت کی وجہ سے حادثہ پیش آجاتا ہے۔

اپنے ہاں حکومتیں اپنی ترقی کے دعوے کرتی نہیں تھکتیں۔ ملکی ترقی کے لئے عالمی بینک اور اسی قسم کے دیگر اداروں کے سرٹیفیکیٹ روزانہ زبانی طور پر سنائے جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو چکی ہے۔ مگر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی اہتمام ہی موجود نہیں، قدرتی آفت تو دور کی بات ہے، یہاں انسان کے ہاتھ کی پیدا کردہ آفت بھی بے قابو ہی رہتی ہے، کسی مریض کو ہنگامی طور پر ہسپتال جانا پڑ جائے تو ڈاکٹر ، مشین اور دوائی سب کچھ ہی نایاب ہوتا ہے۔ مریض ایڑیاں رگڑتے مر جاتے ہیں، یہاں سکول چلے جائیں تو سہولتیں نہ ہونے کے برابر ، سفر کریں تو مقامی سڑکیں کسی عذاب سے کم نہیں۔ بات صرف مجرمانہ غفلت اور حکومتوں کی طرف سے سہولتوں کی کمی تک ہی محدود نہیں، ہم سب لوگوں کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر اس قدر آفات نے ہمارے گرد گھیرا تنگ کیوں کردیا ہے، کیا یہ ہماری شامتِ اعمال ہے، یا محض حادثات؟ ہمیں دونوں صورتوں پر غور کرنا چاہیے۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.