بستیاں کب ویران ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔!

طوطے اورطوطی کاگزرایک بستی سے ہوا، انہوں نے دیکھاکہ ساری بستی ویران پڑی ہے۔ طوطی نے طوطے سے پوچھایہ بستی ویران کیوں ہے۔۔۔! طوطے نے جواب دیالگتاہے یہاں سے الوکاگزرہواہے۔اس وجہ سے یہاں ہو کا عالم ہے ۔عین اس وقت ایک الو بھی وہاں سے گزر رہا تھا۔الو نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوا اور کہا کہ تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو۔آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ ، اآج کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ ۔الو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے الو کی دعوت خوشی سے قبول کرلی ۔کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی تو الو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہاتم کہاں جا رہی ہو طوطی پریشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے۔میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں ،الو یہ سن کر ہنسا.اور کہا یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو ۔

اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی توالو نے طوطے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ۔ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں ..قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا ..الو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے. قاضی نے دلائل کی روشنی میں الو کے حق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی.طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو الو نے اسے آواز دی بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جا۔طوطے نے حیرانی سے الو کی طرف دیکھا اور بولا اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو.یہ اب میری بیوی کہاں ہے .عدالت نے تو اسے تمہاری بیوی قرار دے دیا ہے۔الو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے.میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔

بظاہر تو یہ کہانی طوطے اور الو کے مابین ہے مگر پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی اس کے برعکس نہیں ۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دامن پاناما لیکس میں بقول تحریک انصاف کے مکمل طور پر داغدار ہے۔ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر پاناما لیکس کے ٹی او آرز کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق نہیں ہوا تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔عدالت کے حکم کے بعد تمام جماعتوں نے عدالت عظمیٰ کا رخ کیا ۔دوسری بار سماعت کر نے پر عدالت نے وزیراعظم کو بچوں کے تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیرتک ملتوی کردی ہے ۔

اس فیصلے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ حکومت پر اپوزیشن کی الزام تراشی ہو اور اس کیلئے عدلیہ میدان میں اتر آئے اور روزانہ کی بنیاد پر کیس کو سننے کا فیصلہ بھی کر ے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی اکثریت عوام عدالت عظمیٰ سے اظہار تشکر کرتے نظر آتے ہیں ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے ادارے آزاد ہیں ۔ کیا عدلیہ وزیراعظم پر احتساب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ۔ کیا اس فیصلے میں عدلیہ کو مکمل اختیار ہو گا ۔

طالب علم کی حیثیت سے میں یہ بات جانتا ہوں کہ دینا بھر میں جہاں بھی کامیاب جمہوریت ہے تومحض اس لیے کہ وہاں ادارے آزاد ہیں۔مگر بدقسمتی کے ساتھ پاکستان میں جمہوری نظام کے باوجود بادشاہت ہے جس کی وجہ سے ماسوائے فوج کے کوئی بھی ادارہ آزاد نہیں ہے۔اب آتے ہیں پانامہ لیکس پر ۔۔! میرا نہیں خیال کہ عدالت کے پاس اتنی وسائل ہونگے کہ وہ کسی بھی ادارے نیب یا کسی دیگر ادارے کو اپنے تابع کر سکیں ۔ عدالت کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی بیرونی ملک کے ادارے یا ایڈمنسٹریٹر پر اپنا حکم مسلط کر سکے ۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ محدود وسائل رکھتے ہوئے پانامہ لیکس پر شفافیت سے فیصلہ دے سکے ۔ بظاہر تو تمام پارٹیوں کا عدلیہ پر بھروسہ ہے مگر عدلیہ کے وسائل دیکھتے ہوئے مجھے نہیں لگتا کہ عدالت پانامہ لیکس کیس پر کوئی خاص فیصلہ کر پائے ۔

میرے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ عدالت پانامہ لیکس کیس میں آزاد کمیشن کے قیائم کی منظوری دے ، ایسا کمیشن جس پر تمام فریقین کی رضا شامل ہو ، کمیشن آزاد اور با اختیار ہو جس میں آئی ایس آئی ، آئی بی، ایم آئی ،ججز اور فوج کے سینئر شامل ہوں، کمیشن کے پاس یہ بھی اختیار ہو کہ وہ کسی بھی ادارے کو پاکستان یا بیرونی ملک سے اپنے تابع لا سکے ۔ کمیشن کے پاس تمام تر اختیارات ہونگے تو پھر ہی کوئی مثبت فیصلہ آ سکتا ہے ۔اگر عدالتوں میں اسی نظام اور محدود وسائل پر ہی فیصلہ سامنے آیا تو کرپشن کا خاتمہ دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے ۔عدالتوں کو چاہیے کہ پانامہ لیکس ،سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد جیسے کیسز پر شفافیت کو عمل میں لاہیں تاکہ ملک پاکستان میں بہتری اور حقیقی جمہوریت کا قیام ہو۔ اختتام سے قبل جسٹس صاحبان کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی طاقتور کو اس کے جرم کی سزا نہیں دی جاتی تو پھر وہ سزا پورے معاشرے میں تقسیم ہو جاتی ہے ۔الو نے سچ کہا ہے کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے۔
 

M A Doshi
About the Author: M A Doshi Read More Articles by M A Doshi: 20 Articles with 17545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.