انسانیت کے قاتل ، نہتے مظلومین اور نومولود معصومین جو
صحیح طرح سے دنیا میں آنکھ تک نہیں کھولے ان کو موت کے گھاٹ اتار دینے والے
بے درد حکمرانیت کے صدر اپنے اعلی سطحی وفد کے ساتھ 15؍ نومبر کو گنگا جمنی
تہذیب کے علمبردار ملک ہندوستان کے دورہ کرنے والے ہیں ، انسانیت کے درد
وکرب کو سمجھنے والا اور انسانیت کے لیے دھڑکتا دل رکھنے والا ہر انسان اس
خبر کو برداشت نہیں کرسکے گا اس لیے کہ اپنی مصنوعات کے ذریعہ پوری دنیا کو
یرغمال بنانے والے اسرائیل کی بربریت و سفاکیت سے تو پوری دنیا واقف ہے ؛
بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی جانب سے مسلسل معصوم و نہتے فلسطینیوں کو
یرغمال بنانے درندگی اور ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے پر اور مسجد اقصی کے
اطراف واکناف مسلسل در اندازی کرنے پر بارہا تنبیہ کی گئی۔ ایسے ملک کے مردِ
اول کے ساتھ ایک اعلی سطحی وفد کا ہم اپنے ملک میں کیسے استقبال کریں گے۔ہم
تو اپنے ملک میں ان کی مصنوعات کو دیکھنا اور خریدنا گوارا نہیں کرسکتے تو
ان کی اپنے ملک میں آمد کو کیسے گوارا کریں گے ؟ ملک کا ہر غیور سیکولر
باشندہ اس بات کو بالکل بھی برداشت نہیں کرے گا کہ اس وفد کو اپنے ملک میں
دیکھے ۔اخباری اطلاع کے مطابق ’’صدر اسرائیل ریولین 15؍ نومبر کو ایک اعلی
سطحی وفد کے ساتھ ہندوستان کے دورہ پر آرہے ہیں تا کہ ہندوستان اور اسرائیل
سیکوریٹی ، تعلیم ، سائبر ، توانائی ، پانی اور زرعی شعبوں میں باہمی تعاون
کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرسکیں۔‘‘ اگر واقعی وہ انہیں اغراض کو لیکر
اس دھرتی پرقدم رنجاں ہورہے ہیں تو اربابِ اقتدار سے میرا سوال ہے کہ مرکزی
حکومت کی جانب سے ملک کو مزید ترقی کی سمت گامزن کرنے اور مختلف شعبوں سے
متعلقہ کمپنیوں کو مزید فروغ دیتے ہوئے ایک پلیٹ فارم بنام ’’میک ان انڈیا‘‘
کی جو لہر چلائی جارہی ہے اس کا کیا مطلب ہوا ؟ کیا ملک ان کی معاونت کے
بغیر ان شعبوں میں ترقی نہیں کرسکتا ؟ کیا اسرائیل، ہندوستان سے بڑا ملک بن
گیاجو ہمیں اپنا تعاون پیش کرے گا؟ یا پھر اتنا نادار کہ ہمیں اس کی امداد
کی ضرورت پڑے ؟ میک ان انڈیا کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہاں کے بڑے کاروباریوں
اور صنعتی کمپنیوں کو غیر ملکی تاجرین بالخصوص اسرائیل کے حوالہ کرکے ان کی
غلامی کا طوق گلے میں ڈال لیا جائے، آج اسرائیل اپنے پروڈکٹس کو دنیا بھر
کے مختلف ممالک میں ہر ملک کی اسٹار شخصیات کے ذریعہ تشہیر کرکے اسے ملکوں
ملکوں میں فروغ دے رہا ہے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ انہی
کو غلام بنانے اور نہتوں پرظلم و بربریت کے لیے خرچ کرتا آرہا ہے ۔ ان کا
دورہ محض ہندوستان کی معیشت کو تباہ کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔ پہلے
ہی ملک مہنگائی اور معاشی تنگیوں سے دو چار ہے اور جہاں مہنگائی کے لیے ہر
نیا دن اچھا دن بن کر آرہا ہے وہیں ہر دوسرا دن غریبوں کے چین و سکون کو
غارت کر رہا ہے۔ ایسے میں ان سے معاونت لینے کے بعد مہنگائی کے لیے اور بھی
اچھے دن آنے کی امید لگائی جاسکتی ہے۔ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ملک میں
ہی میک ان انڈیا کے پلیٹ فارم سے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کا منصوبہ بنا
کر عام آدمیوں کو فائدہ اور غریبوں کو غربت سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
اسرائیل سے درآمدات و بر آمدات دونوں میں ہمارے گنگاجمنی ملک کے تعلقات ملک
کو بجائے ترقی کے تنزلی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ بہر حال ملک کے تمام سیکولر
باشندوں سے درخواست ہے کہ وہ بیک زبان ہوکر اس کی سخت مذمت کریں اور حکومت
ہند سے اس وفد کے دورہ کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کریں ۔ اس سے ملک کی
جمہوریت ، تہذیب و تمدن اور امن وسا لمیت برقرار رہے گی۔ |