سپریم کورٹ کے سابق جج ‘مسٹرجسٹس مارکنڈے کاٹجوکے
اظہار خیال کے بعد بھوپال جیل سے ’فرارہوکرقتل کئے جانے والے ‘آٹھ مسلم
نوجوانوں کے تعلق سے اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔انہوں
نے اتنی وضاحت کے ساتھ اس انکاؤنٹرکو فرضی قرار دیاہے کہ اب اس انتہائی
تکلیف دہ‘خوفناک اور تشویشناک رجحان پرکسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔لیکن
حالات جس تیزی کے ساتھ خرابی کی طرف جارہے ہیں اس کا جائزہ لینا بہت ضروری
ہوگیا ہے۔
مدھیہ پردیش حکومت اور اس کے اعلی پولس افسران کے بیانات میں اتنا تضاد ہے
کہ اس کی روشنی میں کوئی بھی ذی عقل انسان اس انکاؤنٹر کو فرضی اور کھلا
قتل ہی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔جیل کے اس منحنی سیکیورٹی گارڈکے قتل پر
جذباتی سیاست کرکے بی جے پی اور مدھیہ پردیش حکومت ان آٹھ مسلم نوجوانوں کے
قتل کو چھپانا چاہتی ہے جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ پولس کو ان کے خلاف
شافی ثبوت نہیں مل سکے تھے اور یہ کہ ان کے عدالت کے ذریعہ باعزت بری ہونے
کے واضح امکانات تھے۔یہ کوئی انہونی نہ ہوتی اگر وہ واقعی باعزت بری
ہوجاتے۔اس لئے کہ ان سے پہلے ایسے درجنوں نوجوان بری ہوچکے ہیں۔اس میں کوئی
شبہ نہیں کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعدانصاف کے راستے مسلسل
تنگ ہوتے جارہے ہیں ۔لیکن کوشش وہی ہے کہ کوچہ قاتل کے سوا سارے راستے بند
کردئے جائیں۔اس کو یوں سمجھنا زیادہ آسان ہوگا کہ مرکزی حکومت نے نیشنل
جوڈیشیل اپوائنٹمنٹ کمیشن(این جے اے سی) کی شکل میں سپریم کورٹ اور ہائی
کورٹوں کے ججوں کی تقرری میں سیاسی دخل اندازی کا جو حربہ اختیار کیا
تھااسے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے انتہائی مکروہ اور ناقابل عمل
قرار دے کر کالعدم کر دیا تھا۔اس کے بعد سے مودی حکومت اس سلسلہ میں زخمی
اور زہریلے سانپ کی طرح لوٹتی پھر رہی ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس
ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ ججوں کی اسامیاں پرنہ کرنے کے سلسلہ میں حکومت
کو ایک سے زائد مرتبہ لعن طعن کرچکی ہے۔لیکن حکومت اس مسئلہ پر بے شرمی کے
ساتھ عدالت کا مقابلہ کر رہی ہے۔عدالت کا سخت رویہ دیکھ کر اب کچھ نقل
وحرکت دکھائی گئی ہے اور کچھ نئے ججوں کی تقرری کا راستہ صاف ہوا ہے لیکن
ابھی وہ پھانس نہیں نکلی ہے جو ججوں پر کنٹرول نہ ہوپانے کے سبب چبھی ہوئی
ہے۔اس لئے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری انصاف گاہیں کہاں تک اور کب تک
مقابلہ کر پائیں گی ۔یہ وقت مسلم جماعتوں اور تنظیموں کے سونے کا نہیں
جاگتے رہنے کا ہے۔
ایک بات فہم سے بالا تر ہے کہ مدھیہ پردیش کی جیلوں میں بندمسلم نوجوانوں
کے تعلق سے مسلم جماعتوں کا رویہ سرد کیوں ہے۔ملک کو نقصان پہنچانے والی
جماعتوں اور دہشت گردانہ منصوبے رکھنے والے افراد کی حمایت کسی بھی صورت
میں نہیں کی جاسکتی لیکن جن معاملات میں عدالتیں نوجوانوں کو بری کرتی
جارہی ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر تومسلم جماعتیں کوئی موقف اختیار کرسکتی
ہیں؟ جسٹس کاٹجوکھل کر ٹی وی پر کہہ رہے ہیں کہ ایک مسلم نوجوان 23سال جیل
میں رہنے کے بعد سپریم کورٹ سے باعزت بری ہوا ہے ‘آخراس کے قیمتی 23سال کی
تلافی کیسے ہوگی اور یہ کہ اس کی زندگی بربادکرنے والے پولس افسروں کے خلاف
کارروائی کی جانی چاہئے۔لیکن حیرت ہے کہ مسلم جماعتیں اس سلسلہ میں نہ صرف
یہ کہ خاموش ہیں بلکہ اس کے امکانات بھی نہیں ہیں کہ وہ کوئی لائحہ عمل
تیار کررہی ہیں۔وہ ایسے کسی بھی مسئلہ پر افکارکے اختلاف کے باوجودایک پلیٹ
فارم پر آجاتی ہیں جس سے انہیں نام ونمود ملتی ہویا کسی اور طرح کا فائدہ
ہونے کے امکانات ہوں۔ خواہ وہ مسئلہ ملکی ہویا بین الاقوامی ہو۔لیکن اس طرح
کے تشویشناک مسائل پر وہ نہ صرف یہ کہ ایک پلیٹ فارم پر نہیں آتیں بلکہ
کوئی ایک سطری بیان بھی جاری نہیں کرتیں۔اس سے شرپسند عناصر اور حکومت کے
حوصلے بلندہوتے ہیں اور انہیں یہ پیغام پہنچ جاتا ہے کہ اگر آئندہ اس سے
بھی بڑا کوئی واقعہ ہوتا ہے تومسلمانوں کی ان جماعتوں سے کوئی نکل کرنہیں
آئے گا ۔طلاق ثلاثہ یا موہوم سے کامن سول کوڈ پر تو تمام مسالک کی جماعتیں
ایک پلیٹ فارم پر آگئیں اور اس کے لئے بڑے پیمانے پر دستخطی مہم بھی جاری
ہے لیکن مسلم نوجوانوں پر دہشت گردی کے نام پر آنے والی اس افتاداور پولس
کے ہاتھوں ان کے کھلے قتل کے خلاف ان میں سے کوئی لب کشائی کو بھی تیار
نہیں ہے۔
دوسری طرف حال یہ ہے کہ اس انکاؤنٹر کے خلاف واضح موقف اختیار کیا تو ہندو
لیڈروں نے۔جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے تو اس انکاؤنٹر میں ملوث پولس افسروں کو
پھانسی کی سزا دینے تک کا مطالبہ کرڈالا۔آرجے ڈی کے لالو پرساد یادو‘جے ڈی
یو کے شرد یادو‘عام آدمی پارٹی کے اروند کجریوال ‘کانگریس پارٹی کے دگوجے
سنگھ‘ترنمول کانگریس پارٹی کی ممتا بنرجی‘بائیں بازو کے سیتا رام یچوری اور
پرکاش کرات‘یہ سب کون ہیں؟یہ سب ہندو ہی تو ہیں!لیکن ان سب نے بیک آواز اس
انکاؤنٹر کو کھلا قتل قرار دیا۔مسلمانوں میں صرف مجلس اتحادالمسلمین کے صدر
اسدالدین اویسی نے آواز اٹھائی۔مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ یہ وقت چنندہ
مسائل پر ہی نہیں بلکہ ہر مسئلہ پر ایک واضح موقف اختیار کرنے کا ہے۔اس وقت
حکومت نے اپنا پورا رنگ دکھادیا ہے۔ابھی اس انکاؤنٹر کی تفتیش بھی شروع
نہیں ہوئی ہے اور مدھیہ پردیش حکومت نے ان تمام پولس والوں کو کھلے عام
اعزاز سے بھی نواز دیاہے جو اس انکاؤنٹر میں ملوث تھے۔جیل کی حفاظت پر
ماموران افسروں کو سزا دینے کی بجائے جن کی غفلت کے سبب ایک معمولی
سیکیورٹی گارڈ مارا گیا‘حکومت علی الاعلان ان پولس والوں کو انعامات دینے
کا اعلان کر رہی ہے جنہوں نے زیر سماعت آٹھ غیر مسلح قیدیوں کوزندہ گرفتار
نہیں کیااور انہیں گولیاں چلاکر بھون ڈالا۔میری دانست میں آج تک ایسا کوئی
واقعہ ہندوستان میں رونما نہیں ہوا جب اتنی سرعت کے ساتھ انکاؤنٹر کرنے
والی ٹیم کو استقبالیہ دیا گیاہو۔کم سے کم جیل کے اس سیکیورٹی گارڈ کی چتا
کی راکھ ہی ٹھنڈی ہونے دیتے جس کی جوان بیٹی بس بیاہنے ہی والی تھی۔لیکن
انہیں مسلمانو ں کے زخموں پر تیزاب چھڑکنا تھا اس لئے 24گھنٹے کے اندر
اندرقانون کا خون کرنے والوں کو نوازاگیا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو اس بے
چارے مقتول سیکیورٹی گارڈ کی موت پر بھی کوئی دکھ نہیں ہے۔کیا عجب کہ اس کا
قتل بھی ان کی اسکیم کے مطابق ہوا ہو۔اب ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے ذریعہ
تفتیش کااعلان ہوا ہے اور فی الحال نقد انعام کا فیصلہ موخر کردیا
گیاہے۔لیکن بی جے پی نے اپنا اصل چہرہ تو سامنے رکھ ہی دیا ہے۔
اس وقت پورے ملک کی پولس کارویہ بدلا ہوا ہے۔جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے
طالب علم محمد نجیب کی پر اسرارگم شدگی کو تین ہفتوں سے زیادہ کا وقت ہوگیا
ہے لیکن ابھی تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔پولس اور یونیورسٹی انتظامیہ
نے اس سلسلہ میں جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اس
کی ماں روتی بلکتی پھر رہی ہے۔اس کی بہن اپنے بھائی کی تلاش میں سرگرداں ہے
لیکن تحریک چلانے والے طلبہ سے اپیل کر رہی ہے کہ کوئی ایسا قدم مت اٹھانا
جس سے خود تمہارا کیریر خراب ہوجائے۔مگر پولس اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اب
بھی شرم نہیں آئی۔اس سلسلہ میں بھی ہندو لیڈر ہی آگے آرہے ہیں اور قابل ذکر
مسلم جماعتیں اور ان کے قائدین غائب ہیں۔مدھیہ پردیش کے انکاؤنٹر کے خلاف
جن قائدین نے آواز اٹھائی وہی محمد نجیب کو تلاش کرنے والی تحریک کو بھی
تعاون دے رہے ہیں۔دہلی میں دو نجیبوں کا یہ فرق بھی عجیب ہے کہ مسلمانوں کے
ایک گم شدہ نجیب کے لئے اروند کجریوال دہلی کا وزیر اعلی ہوتے ہوئے انڈیا
گیٹ پر دھرنے پر بیٹھنے کو تیار ہیں اور دوسری طرف’ ان ‘کا نجیب اروند
کجریوال کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کے جتن کر رہا ہے۔میں نے یہ
پہلی بار دیکھا ہے کہ جب خود کشی کرنے والے کسی ہندوستانی شہری کے اہل خانہ
سے اظہار یکجہتی کرنے والے منتخب وزیر اعلی کو دس گھنٹوں تک پولس نے مجرموں
کی طرح تھانے میں بٹھائے رکھا۔یہاں تک کہ ہسپتال کے باہر کئی گھنٹوں تک
اروندکجریوال کو ان کی گاڑی سے ہی اترنے نہیں دیا گیا۔اسی طرح کانگریس کے
نائب صدرراہل گاندھی کو بھی ایک تھانے سے دوسرے تھانے اور پھر تیسرے تھانے
لے جایا گیا۔راہل گاندھی‘دہلی کے نائب وزیر اعلی منیش سسودیا اور وزیر اعلی
اروندکجریوال کو ہسپتال کے احاطہ میں دیکھ کرپولس کا ایک افسرغنڈوں کی طرح
کہتا ہے کہ’نکالو ان سب کو باہر‘۔ ایسا اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب وزیر اعلی
سے بڑے آدمی نے اس پولس والے کو اشارہ کردیا ہو۔اور وزیر اعلی سے بڑا اس
وقت پورے ملک میں کون ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت حالات ایمر
جنسی سے بھی زیادہ خراب ہیں۔وزیر اعظم باربار یہ کہتے ہیں کہ اندراگاندھی
کے ذریعہ لگائی گئی ایمر جنسی کا ذکر کیا جانا چاہئے تاکہ کوئی اب یہ ہمت
نہ کرسکے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اندرا گاندھی نے تو اعلان کرکے ایمر جنسی
عاید کی تھی مودی حکومت نے تو اعلان کے بغیر ہی ایمر جنسی نافذ کردی
ہے۔مشہور چینل این ڈی ٹی وی کو ایک دن کے لئے بند کرنے کی سزا سنادی گئی
ہے۔ابھی بہت کچھ بند کیا جائے گا۔لیکن کیا مسلمان اور ان کے قائدین اب بھی
آنکھیں کھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں؟ |