قدرت کے کاموں میں کسی کا دخل نہیں ہوتا،
قدرتی آفات بھی نہ تو کسی سے پوچھ کر آتی ہیں نہ وہ کسی کے وسائل دیکھتی
ہیں اور نہ ہی وہ نقصان کرتے وقت کسی کا حسب نسب پوچھتی ہیں لیکن اللہ
تعالیٰ نے انسان کو عقل و دانش سے نواز کر اور اسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت
دے کر قدرتی آفات سے بچنے کا طریقہ اور سلیقہ سکھا دیا ہے، اگرچہ کلی طور
پر قدرتی آفات سے بچاﺅ شائد ممکن نہیں لیکن اس کے باوجود انسان اللہ تعالیٰ
کی دی ہوئی عقل و فہم سے قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش
ضرور کر سکتا ہے۔ دنیا میں موجود بہت سے ممالک اور اقوام نے اسی عقل و دانش
کو بروئے کار لاتے ہوئے بہت سی قدرتی آفات کی تکالیف اور مصائب کو کم کرنے
کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ ہمارا ملک پاکستان اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس خطہ
ارض میں عطا کیا ہے جہاں دنیا جہان کی ساری نعمتیں موجود ہیں، چاروں موسموں
سے لیکر سمندر، پہاڑ، میدان، ریگستان سمیت ایسی ایسی نادر و نایاب نعمتیں
ہیں جو دوسری اقوام کے پاس تمام کی تمام یا اس حد تک موجود نہیں ہیں۔ اس کے
باوجود 63 برس میں ہم نے شائد ہی کوئی ایسی شعوری کوشش کی ہو جس سے ہم
قدرتی آفات سے مکمل طور پر نہ سہی جزوی طور پر ہی بچ پائیں اور نقصانات کو
کم سے کم سطح پر رکھ سکیں۔ پوری دنیا میں ناگہانی آفات سے بچاﺅ اور نقصانات
سے بچنے اور مابعد اثرات کو کم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور وہ
اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ زلزلے، سیلاب اور طوفان ہر جگہ پر آتے
ہیں، تمام ملک اور قومیں ان کا مقابلہ بھی کرتی ہیں اور عقل کا استعمال کر
کے منہ زور طوفانوں کے سامنے بند بھی باندھتی ہیں۔
دوسری طرف ہماری حکومتیں ہیں جنہوں نے آج تک کسی زلزلے یا سیلاب کے آنے سے
پہلے تو اس کا کوئی توڑ کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن بعد میں کشکول لے کر
امریکہ، انگلینڈ، اقوام متحدہ سمیت دنیا کے امیر ممالک کے پاس پہنچ جاتی
ہیں کہ ”مائی باپ! چونکہ ہم اللہ وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر آپ کے بے دام بندے
ہیں، آپ کو ہی پوجتے ہیں اسی لئے آپ سے ہی مدد کے خواستگار ہیں چنانچہ آپ
ہی ہمیں کچھ دیجئے تاکہ ہم اپنے مصیبت کے شکار بھائیوں کے نام پر چندے
اکٹھے کر کے اپنے بنک بیلنس میں تھوڑا اور اضافہ کرلیں“ بلکہ ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران دن رات اسی دعا میں مصروف ہوتے ہیں کہ ”یا اللہ!
بھیج کوئی زلزلہ یا سیلاب بلکہ اگر مناسب ہو تو کوئی قطرینہ (کترینہ کیف
بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں) ہی بھیج دے آخر ہم نے بھی تو یہیں سے کھانا ہے“۔2005ء
کے زلزلے سے ہماری قوم آج تک سنبھل نہیں پائی، وہ عوام جو اس سے متاثر ہوئے
تھے آج تک بے یار و مددگار ہیں، وہ جنت نظیر وادیاں جو اس زلزلہ میں تباہ
ہوئیں آج تک برباد ہیں، اس وقت بھی کروڑوں ڈالر کے امدادی فنڈز اکٹھے ہوئے
تھے لیکن ہم عوام بھی اتنے بھلکڑ اور معصوم ہیں کہ نہ تو ہم نے کسی سے حساب
پوچھا اور نہ ہی کسی نے حساب رکھا کہ کہاں سے کتنی رقوم موصول ہوئیں، کس کس
کی جیب میں گئیں اور کس کس نے بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ
لگاتار اشنان کیا۔ وہ حکومتی اعلیٰ عہدیدار جو آجکل مساجد اور مدارس کے
چندوں کے خلاف ہیں، جو مسجد بنانے کو بھی شدت پسندی شمار کرتے ہیں، جنہوں
نے اس اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں شعائر اسلام کی توہین کا وطیرہ
اپنا رکھا ہے، جو ایک مولوی کو تو ہلکے پھلکے چندے کھانے پر طعن و تشنیع کا
نشانہ بنا لیتے ہیں لیکن وہی ارباب اختیار ملک و قوم کے نام پر، زلزلوں اور
سیلاب کے نام پر دنیا بھر سے چندے لیتے ہیں اور مال حرام کی طرح ڈکار جاتے
ہیں، انہیں نہ کوئی پوچھنے والا ہے نہ روکنے والا اور نہ ٹوکنے والا کیونکہ
حمام میں سبھی ننگے ہیں....!
حالیہ سیلاب میں جہاں ایک طرف آدھے سے زیادہ پاکستان پانی کی بے رحم موجوں
میں ڈبکیاں کھا رہا ہے، کروڑ پتی لوگ چند لمحوں میں بھیک منگے بنا دئے گئے
ہیں تو دوسری طرف حکمران ابھی تک مزید بھیک کے چکروں میں ہیں، اگر گنتی کے
چند خاندان جنہوں نے اربوں کھربوں اس ملک کے عوام کے لوٹے اور کھسوٹے ہوئے
ہیں، واپس لے آئیں تو یقیناً کسی غیر ملک سے امداد کی بھیک نہ مانگنی پڑے۔
اگر آئندہ سے اس ملک اور قوم کے مفاد میں سب کچھ سوچا جائے اور سب کچھ کیا
جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہی مصیبت اس ملک کے لئے رحمت نہ بن جائے۔ ڈیم نہ
بنانے کی وجہ سے وہی پانی جو ہماری اولین ضرورت ہے، جس کے لئے صوبے آپس میں
برسر پیکار ہوتے ہیں، اسی پانی میں ڈوبتے جارہے ہیں حالانکہ ڈیم نہ بنانے
کی وجہ سے ہمارے ابتک کے سارے حکمرانوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے
تھا لیکن اب اسی پانی کی وجہ سے ان کی چاندی بلکہ سونا ہورہا ہے۔ ضیاءالحق
اور پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹروں کہ جن کے سامنے کسی کو بولنے کی ہمت نہ ہوا
کرتی تھی انہوں نے بھی پانی جیسے مسائل سے جس طرح مجرمانہ چشم پوشی کی،
ہندوستان کی آبی جارحیت کا نہ صرف کوئی نوٹس نہ لیا (جس میں پاکستان کے حصہ
میں آنے والے دریاﺅں پر اس لئے ڈیم بنائے جارہے ہیں تاکہ پاکستان کو نہ صرف
بنجر کیا جاسکے بلکہ برسات کے دنوں میں ان ڈیموں سے پانی چھوڑ کر پاکستان
میں سیلاب کی کیفیت پیدا کر کے فصلوں کو تباہ اور انسانی جانوں کا ضیاع کیا
جاسکے) یہاں تک کہ پاکستان میں اس کے ایجنٹوں اور لے پالکوں کو بھی پانی کے
معاملہ پر سیاست چمکانے اور ایک صوبائی ایشو کے طور پر اچھالنے کی کھلی
اجازت دئے رکھی اور دیدہ و دانستہ ڈیموں کے معاملات کو سیاسی بنایا، زندگی
کی طرح قیمتی پانی کے معاملہ پر ایسے کردار اور عمل پر یہ قوم انہیں کبھی
معاف نہیں کرے گی، آنے والی نسلیں بھی ان پر دن رات لعنتیں بھیجنا اپنا
اولین فریضہ سمجھیں گی نیز اگر موجودہ سیاسی حکومت اور قیادت نے بھی اپنا
کردار ایسا ہی رکھا، امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہندوستان کے سامنے بھیگی
بلی بنے رہے اور پانی کے مسئلہ پر معاہدات کی خلاف ورزی اور پاکستان کے حق
والے دریاﺅں پر بے شمار ڈیم بنانے پر بھارت کی کوئی باز پرس نہ کی گئی تو
پاکستان کا بچہ بچہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے تباہی و بربادی کے علاوہ اور
کچھ طلب نہ کرے گا اور ان کو جان لینا چاہئے کہ جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو
وہ بڑی شدید ہوتی ہے!
اب بھی وقت ہے، رمضان کا بابرکت مہینہ بھی ہے کہ اس میں گڑگڑا کے، رو رو کے
اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے، استغفار کی جائے اور مستقبل کو سنوارنے
کی کوشش کی جائے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم صدق دل سے کوشش کریں اور اللہ
تعالیٰ مصائب کی جگہ ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے نہ کھول دے، بس نیک نیتی
اور خلوص کی ضرورت ہے، قوم کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ حکمران بھی ہم میں
سے ہیں اگر سیلاب زدگان پر دن اور رات بھاری ہیں تو ہمارے حکمران بھی چین
کی نیند نہیں سو رہے، وہ بھی اسی تگ و دو میں ہیں کہ سیلاب کے متاثرین مزید
مصائب و آلام سے بچ جائیں۔ ان کے سروں کی چھت انہیں لوٹا دی جائے ان کے
سائبان انہیں واپس مل جائیں۔ جیسا کہ میڈیا رپورٹس اور خبروں سے واضح ہے کہ
صرف پنجاب میں 80 ارب کا نقصان ہوا ہے اور باقی صوبے بھی کم و بیش اسی
تناسب سے نقصان کا شکار ہوئے ہیں تو یہ کوئی ایسی بڑی رقوم نہیں ہیں کہ جن
کے لئے ہمیں غیروں کے در پر اپنے سر جھکانے پڑیں اور مارا مارا پھرنا پڑے،
کشکول کو توڑنے کی ضرورت ہے، ایک اللہ کے سامنے سرنگوں ہونے کی ضرورت ہے۔
میاں نواز شریف کے بقول وفاق اور صوبے 350 ارب اکٹھے کرسکتے ہیں، اگر ایسا
ہوجائے تو متاثرین کے لئے کئی نئے شہر بسائے جا سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا
فائدہ یہ ہوگا کہ ملکی صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا، مزدوروں کو روزگار ملے
گا اور ہم اپنی مدد آپ کے تحت، بغیر کسی امداد کے اس مشکل گھڑی سے نکل
پائیں گے ورنہ پھر وہی کھیل کھیلا جائے گا کہ سیلاب زدگان کے لئے ملنے والی
امداد چند لوگوں کے پیٹ میں پہنچ جائے گی اور بیچارے سیلاب سے متاثرہ لوگ
سالہا سال تک حکمرانوں کو کوستے رہیں گے اور گالیاں دیتے رہیں گے۔ خدارا اب
بھی ہوش کے ناخن لے لیں، ورنہ (خدانخواستہ) کوئی ہمارا نام لیوا بھی نہیں
بچے گا کہ جب قوموں کے ضمیر سوجائیں، حلال و حرام کی تمیز نہ رہے، حق دار
کو اس کا حق نہ ملے، عدل نہ ہو تو اللہ اپنے فیصلے ایسے ہی نافذ کرتا ہے
.... کبھی زلزلوں کی صورت، کبھی سیلابوں کی صورت اور کبھی سرخ آندھیوں کی
صورت.... استغفر اللہ.... یا اللہ ہمیں معاف فرما دے.... آمین۔ |