افواہیں

افواہیں تو افواہیں ہیں، سچ بھی ہو سکتی ہیں، جھوٹ بھی لیکن شایدہر افواہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے یا مخصوص لوگوں کے مفادات۔افواہ ان کے مفادات کے حصول میں بہت کارگر ہوتی ہے۔ آج کل پورا ملک افواہوں کی زَد میں ہے۔ زیادہ تر افواہیں سیاسی ہیں، مگر دوسرے حلقوں کی افواہیں بھی کچھ کم نہیں۔ سیاست چونکہ اب تعلیمی اداروں میں بھی پوری طرح تسلط جما چکی ہے اسلئے افواہیں وہاں بھی عام ہیں۔آجکل تعلیمی دنیا میں ایک افواہ بہت عام ہے کہ ایک بہت بڑی پبلک یونیورسٹی میں جرنلزم کے شعبے کے ہیڈ کی اسامی خالی ہے اور اس پر پنجاب کے شہنشاہ کے حکم سے ایک معروف اخبار کے کالم نویس کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ وہ جرنلسٹ اور تجزیہ نگار باقاعدہ جرنلزم میں ڈگری ہولڈر نہیں، مگر ان کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کالم کی ابتدا شریف برادران کے شریف اور مبارک نام سے کرتے ہیں اور کالم میں اپنے ایک قریبی عزیز اور معروف سیاستدان کی تمام تر خامیوں کو بدرجہ اتم بیاں کرتے اور موقع ملے تو تھوڑی بہت دشنام طرازی سے بھی کالم میں رنگ بھرتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک آدھ پروگرام میں بھی وہ اپنی انہی صفات کی بدولت خوب رنگ جماتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں ایک ممتاز صحافی کے طور پر دورے کے درمیان انہیں کسی یونیورسٹی نے جرنلزم کی خصوصی اعزازی ڈگری دی تھی۔ یہ اعزازی ڈگری ان کے لئے کھل جا سم سم کا کام کرتی نظر آتی ہے۔ اسی ڈگری کی بنیاداور حکومت کے حق اور اپنے قریبی عزیز سیاستدان کے خلاف ان کے جارحانہ روّیے کے صِلے میں اُن کو یونیورسٹی میں پروفیسر اور ہیڈ آف جرنلزم ڈیپارٹمنٹ لگایا جا رہا ہے۔

ایک وائس چانسلر سے بات ہو رہی تھی، فرمانے لگے مجھے موجودہ حکومت کے اکابرین اگر مجھے یہ کام کہتے تو شاید میں انکار کر دیتا۔ میں نے کہا بھائی شاید کہہ کر کچھ رعایت لینے کی کوشش کر رہے ہو، جو انکار کر سکتا ہے موجودہ دور میں وہ وائس چانسلر نہیں ہو سکتا۔ موجودہ اکابرین حکومت زرداری صاحب سے چار ہاتھ آگے ہیں۔ جب زرداری صاحب پولیٹیکل سائنس کی ڈگری رکھنے والے ایک شخص کو اپنے زور قلم سے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا چیئرمین لگا سکتے ہیں کہ سائنس تو ہے، چاہے پولیٹیکل ہے۔ توموجودہ اکابرین جن میں زور بھی زیادہ ہے اور جو قلم کا استعمال بھی زیادہ کرتے ہیں۔ ہمارے اس میزبان دوست، سینئر کالم نگار اور انتہائی سینئر تجزیہ نگار کو کہ جو حُب علی ہو یا بُغض معاویہ دونوں صورتوں میں اپنی شاندار قوت گفتار اور تحریرِ بے مہار سے مخالفوں کے چھکے چھڑا سکتا ہے، کوجرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا پروفیسر اور چیئرمین کیونکہ نہیں لگا سکتے۔ ان کے شاہی استحقاق کو کوئی دوسرا چیلنج نہیں کر سکتا۔

جہاں تک ڈگری کا تعلق ہے تو وہ ہمارے اس دوست کے پاس ہے اور سیاست دان تو کھلم کھلا اقرار کرتے ہیں کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی۔ میرے کرم فرما کالمسٹ اور تجزیہ نگار کے پاس تو اصلی ڈگری ہے، چاہے اعزازی سہی۔ملک کا تعلیمی نظام جس تیزی سے انحطاط کی طرف گامزن ہے اس کی وجہ بھی Ph.D کی ڈگریاں ہیں جو یا تو جعلی ہوتی ہیں یا جعلسازی سے حاصل کی ہوتی ہیں۔ تو ایک اصلی اور اعزازی ڈگری والا جو پوری طرح صاحب علم بھی ہے یقینا ان سے بدرجہا بہتر ہے۔

ایک سیاسی افواہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے رہنماؤں جناب نعیم الحق اور جناب حق نواز گنڈا پور کو ایک دوسرے سے خیر سگالی کے جذبے کے تحت ان کے عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انگریز لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ کا چہرہ مسکراتا ہوا نہیں ہے تو کوئی ایسا کام نہ کریں جس میں آپ کو عام لوگوں سے واسطہ پڑتا ہو۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو پہلے ہی نعیمالحق کے بارے گِلہ تھا کہ وہ جب بھی ملتے ہیں لگتا ہے گھر میں صورت حال خراب ہے اور آپ بہت کچھ برداشت کر کے باہر نکلے ہیں۔ان کے چہرے کی کرختگی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ہنسے اک مدت گزر چکی۔ ہماری ان سے درخواست ہے کہ تھوڑی سی ہنسی خیرات سمجھ کر ہی کسی دن چہرے پر لا کر اپنے سیاسی ورکرز کی نظر کر دیں کیونکہ سیاست اس طرح کے روکھے پھیکے چہروں کی متحمل نہیں ہوتی۔ افواہ ہے کہ کارکنوں کو خوش کرنے کے لئے کسی مسکراتے چہرے کو عمران کا ترجمان مقرر کیا جا رہا ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے رہنما حق نواز گنڈا پور طاہر القادری صاحب کی غیر موجودگی میں عوامی تحریک کا سب کچھ ہوتے ہیں۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود بہرحال وہ فوجی ہیں اور فوج اور سول کا فرق رکھنا ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ کارکنوں کو گِلہ تھا کہ وہ عام طور پر کارکنوں کو جن کا تعلق سِول سے ہوتا ہے اہمیت نہیں دیتے اور موڈ میں ہوں تو بات کرتے ہیں وگرنہ نہیں کرتے۔ افواہ ہے کہ طاہر القادری اب سنجیدگی سے ان کا کوئی متبادل ڈھونڈ رہے ہیں ایسا متبادل کارکن کو سول اور فوج کی تفریق کے بغیر صرف کارکن سمجھے۔

فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی وزیر بھی بہت خوب ہیں، روز مزے دار بیان دیتے ہیں۔ ایسا بیان جس کا تعلق دل سے ہوتا ہے، دماغ سے قطعاً نہیں، ویسے بھی وہ پارٹی معاملات میں دماغ کا استعمال جائز نہیں مانتے جوان کے نواز شریف کے ایک سچا جانثار ہونے کی نشانی ہے۔ ان کا بیان تھا کہ ایک سیاسی جماعت ان کی پگڑیاں اُچھال رہی ہے۔ اس بات میں پوری طرح رنگ بھرنے کے لئے افواہ ہے کہ انہوں نے وزارت کے جوشیلے امیدواروں کو جو بیان بازی میں اُن کے ہم عصر ہیں مشورہ دیا کہ بہتر ہے ہم سب پگڑی باندھ لیں تا کہ عملی طور پر پگڑی اُچھال کر لوگوں کو حقیقت سے آشنا کیا جائے۔ افواہ ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے چند گھنٹے پہلے کسی نے اُن پر یہ راز آشکار کر دیا کہ بھائی آپ اپنے بیان سے ہی مغربی پنجاب کے باشندے کیا کم لگتے ہو، پگڑیاں باندھ لیں تو یہ چیز مستند ہو جائے گی۔ افواہ ہے کہ فیصلہ فوری طور پر بدل دیا گیا۔ اب دیکھیں وہ کیا نیا گُل کھلاتے ہیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500171 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More