امجد صابری کے نئے قاتل گرفتار؟

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے پیر کو غیر روایتی انداز اور غیر متوقع طور پر کراچی میں واقع سینٹرل پولیس آفس میں آئی جی سندھ پولیس سمیت دیگر پولیس افسران کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امجد صابری کے نئے قاتلوں کی گرفتاری کا اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ لیاقت آباد سے گرفتار ہونے والے اسحاق عرف بوبی اور آصف عرف کیپری کو بھاری اسلحہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔ وزیراعلی نے دعوی کیاکہ ملزمان امجد صابری کے قتل میں ملوث ہیں جبکہ صدر پارکنگ پلازہ کے قریب ہونے والے فوجی افسران و جوانوں پر حملے میں بھی یہی قاتل ملوث ہیں۔ وزیراعلی نے بتایا کہ 30اکتوبر کو ناظم آباد کے علاقے میں خواتین کی مجلس عزا پر حملے میں بھی یہی گروپ ملوث پایا گیا ہے ۔ مراد علی شاہ کی طرف سے کی گئی اس پریس کانفرنس میں ملزمان کے اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وارداتوں میں ہونے کا انکشاف کیا گیا۔ وزیر اعلی نے بتایا کہ ملزمان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں بلکہ ملزمان لشکر جھنگوی نعیم بخاری گروپ کے لئے کام کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ امجد صابری کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں ایم کیو ایم کے مبینہ کارکنان کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جن کے بارے میں پولیس متضاد دعوے کرتی رہی ہے جبکہ رینجرز کی طرف سے بھی اس حوالے سے مختلف دعوے سامنے آتے رہے ہیں تاہم پیر کو ہونے والی پریس کانفرنس میں وزیراعلی سندھ نے امجد صابری کے نئے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے پولیس اور رینجرز کی طرف سے کئے گئے مختلف دعوؤں کو غیر اعلانیہ طور پر یکسر مسترد کر دیا ہے۔ایسی صورت حال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ماضی میں امجد صابری کے قتل کے الزام میں گرفتار کئے گئے ملزمان کو نئے ملزمان کی گرفتاری کے بعد چھوڑ دیا جائے گا؟ کیا ملزمان پر جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں سول اور ملٹری آرم فورسز کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی؟ اور اگر ایسانہیں کیا جائے گا تو پھر عوام کس کی بات کو زیادہ معتبر سمجھیں۔ کسے صحیح تسلیم کیا جائے ؟ کیا وزیراعلی سندھ کا دعوی سچا ہے یا پھر ماضی میں پولیس اور رینجرز کی طرف سے کئے گئے دعوے سچے تھے۔اس حوالے سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لئے صوبے یا ملک کی کون سی عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے؟ یہاں ایک اور بہت اہم سوال ہے کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے جن دو قاتلوں کی گرفتاری کا پولیس ہیڈ آفس میں بیٹھ کر اور خم ٹھوک کر اعلان کیا ہے ان میں سے ایک کو یعنی آصف کیپری کو 2013میں بھی گرفتار کیا جا چکا ہے تاہم عدم ثبوت کی بنا پر اسے عدالت سے رہائی مل گئی تھی۔ لیکن پیر کو جس طمطراق اور سینہ تان کے وزیراعلی مراد علی شاہ نے اسحاق اور آصف کی گرفتاری کا اعلان کیا اور عمر خطاب کی پولیس پارٹی کو انعام و اکرام سے نوازنے کی بات کی اسے دیکھ کر یہ تاثر ابھر تا ہے کہ یا تو یہی امجد صابری اور فوجی افسران سمیت درجنوں افراد کے قاتل ہیں یا ایک مرتبہ پھر پولیس اسٹبلشمنٹ نے جمہوری حکومت کے وزیراعلی کے سر پر ایسا تاج رکھ دیا ہے کہ جسے اب وہ چاہنے کے باوجود نہیں اتار سکتے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈیڑھ برس کی مختصر مدت میں صوبے سے آٹھ نو سال کے گند اور تباہیوں کا ملبہ اٹھانے کا شوق اور ولولہ رکھنے والے وزیراعلی کے ساتھ سنگین مذاق ہو گیا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ پولیس نے اپنی نا کامیوں کو چھپانے کے لئے کسی کوبھی پکڑ کر بلی کا بکرا بنانے کی کوشش کی ہو۔ یہ ملک بھی کی پولیس کی مسلسل تاریخ ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس مرتبہ پولیس نے بجائے خود سامنے آنے کے صوبے کے نوجوان وزیراعلی کے کاندھوں پر رکھ کر فائر کیا ہے۔ کیا یہ وزیراعلی کا منصب ہے کہ وہ پولیس ہیڈ آفس میں جا کر پریس کانفرنس کریں اور وہ بھی اس معاملے پر کہ جس کی انھیں پوری طرح معلومات بھی نہیں ۔ پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے ہر سوال پر انھوں نے اپنے برابر میں براجمان آئی سندھ سے مشورہ کر کر کے جوابات دئیے۔ فورتھ شیڈول میں شامل افراد کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا کمال معصومیت سے انھوں نے جواب دیا ’’مجھے نہیں معلوم کہ کون فورتھ شیڈول میں شامل ہے ، اگر کوئی ملتا ہے تو اس سے بالکل ہاتھ نہیں کھینچا جا سکتا لیکن آئندہ میں اس بات کا خیال رکھوں کہ اس قسم کے کسی شخص سے ملاقات نہ کروں‘‘ اس جواب کو سن کر وزیراعلی سندھ اور ان کے مشیروں کی بے خبری کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے بہت سے سوالات کے غیر معمولی سادگی سے جوابات دئیے۔ یوں لگتا ہے کہ وزیراعلی سندھ تیز دوڑنے کے شوق میں اس بار منہ کے بل زمین پر گرے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ دوبارہ اٹھ کر کب دوڑتے ہیں؟ تاہم اسی حوالے سے دوسرا امکان بھی موجود ہے کہ شاید اس بار انھوں نے پولیس ہیڈ آفس میں پریس کانفرنس میں تاریخ رقم کر دی ہے ۔ اس کافیصلہ آنے والا وقت کرے گامگر وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو سرپٹ گھوڑے کی رفتار سے دوڑنے کی اپنی روش بدلنی ہی پڑے گی ورنہ ان کے سیاسی مستقبل کو نا قابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.