انکاؤنٹراب ایک سیاست بن چکی ہے ۔انکاؤنٹر
سے پہلے مسلم دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کیا جاتا ہے۔ پھر ان دہشت گردوں کو بی
جے پی حکومت مار کرہندوؤں کی انگ رکھشک کے طور پر خود کو پیش کرتی ہے۔
بھوپال انکاؤنٹر معاملے میں دیکھا جائے تو یہ وہی حکمت عملی ہے جو عشرت
جہاں اور کوثر بی کی آڑ میں گجرات میں استعمال کی جاچکیہے۔ اور اسی حکمت
عملی کے تحت گجرات بی جے پی گودھرا المیہ کے وقت سے حال تک ہندو انگ رکھشک
کے روپ میں گجرات میں حکومت کرتی چلی آرہی ہے۔ بھوپال میں یہ کھیل کم از کم
ابھی کچھ کھلتا نظر آرہا ہے اس لئے اب یا تو یہ سازش ناکام ہوسکتی ہے یا
پھر حکومت اس ہندو ووٹ بینک سیاست کو اور مستحکم کرنے کیلئے اور نت نئے
کارنامے بپا کرسکتی ہے۔ با لکل اسی طرح مدھیہ پردیش کھنڈوا جیل میں جیل
بریک کا ایک اور واقعہ 2013 میں ہوا تھا ۔ اس وقت بھی یہی کہا گیا تھا کہ
جو لوگ کھنڈوا جیل توڑ کر بھاگے تھے ان کے خلاف کیس کمزور تھا لیکن جیل توڑ
نے کی وجہ سے انکے خلاف پولس کا کیس مضبوط ہوگیا۔تو کیا یہ جیل بریک اپنے
کیس مضبوط کر نے کا بہانہ تو نہیں ہیں؟ اس کی مکمل جانچ ہونی چاہئے۔ مذکورہ
کیس میں بھوپال جیل بریک کی تحقیقات این آئی اے کے سپرد کی گئی ہے ۔لیکن
کیا این آئی اے قابل بھروسہ رہ گئی ہے؟ مودی سرکار آنے کے بعد سے اس نے
مالیگاؤں کے2006 اور 2008 بلاسٹ کیس میں جس طرح متضاد بیانی کی اور یو ٹرن
لیا تھا اس نے اس کی غیر جانبداری کو مشکوک کردیا ہے ایسے میں جیل بریک میں
وہ حقائق کو پوری ذمہ داری ،دیانتداری اور غیر جانبداری سے منظر عام پر
لائے گی اس کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح انکاؤنٹر کی جانچ کے لئے
عدالتی انکوائری کا اعلان کیا گیا ہے۔ان دونوں معاملات کی جانچ سپریم کورٹ
کے ذریعہ کی جانی چاہئے۔ اس سے پہلے تلنگانہ میں بھی اسی طرح کا انکاؤنٹر
ہوا تھا جس میں پولس نے پانچ ملزمین کو ہلاک کردیا تھا جنہیں خود پولس اپنی
ہی وین میں عدالت لے جارہی تھی اس وقت بھی یہ بات میڈیا میں آئی تھی کہ ان
کے خلاف کیس کمزور تھا اور عین ممکن تھا کہ وہ عدالت سے بری ہوجاتے اور اسی
کیس میں ملزم بنائے گئے ان کے دیگر تین ساتھی واقع بری ہوئے بھی جنہیں
حیدرآباد کی ایک عدالت نے باعزت بری کردیا۔ یعنی اگران کا انکاؤنٹر نہیں
ہوتا تو وہ بھی بری کردئے جاتے۔ ویسے بھی ملک میں اب تک دہشت گردی کے نام
مسلمانوں کے خلاف جتنی بھی گرما گرم اور سنسنی خیز کارروائیاں ہوئیں وہ
زیادہ تر جعلی ثابت ہوئیں چاہے وہ گرفتاریاں ہوں یا انکاؤنٹر ۔جتنے بھی
مسلمان عام و خاص اور’ خطرناک دہشت گرد‘ کہہ کر گرفتار کئے گئے ان میں سے
زیادہ تر عدلیہ کے ذریعہ بری ہو گئے۔ہو سکتا ہے اُن قیدیوں کا مقدمہ بھی
کمزور ہو اور پولس سمجھ گئی ہو کہ یہ بھی عدلیہ کے ذریعہ بری کر دئے جائیں
گے ہو سکتا ہے پولس نے اس معاملہ میں بھی اپنی غیر پیشہ وارانہ من مانی کار
کردگی اور تعصب کی پول کھلنے کی شر مندگی سے بچنے کے لئے ان لوگوں کو قتل
کردیا ہو۔ جو کچھ بھی ہو سپریم کورٹ کی نگرانی میں کسی خصوصی ٹیم کے ذریعہ
اس معاملہ کی غیر جانبدارانہ اور ذمہ دارانہ جانچ کروائی جانی چاہئے تاکہ
دودھ کا دودھ پانی کا پانی کیا جا سکے۔ |