پاکستان سوپر پاور بن سکتا ہے

وزیراعظم میں محمد نواز شریف میدان میں موجود ہیں۔انہیں کئی طاقتیں للکار رہی ہیں۔عمران خان، ڈاکٹر علامہ طاہر القادری، شیخ رشید احمد کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مسلم لیگ ق خاموش ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ عفو درگزر کے بعد ق لیگ کے ساتھ ن لیگ میں شمولیت پر بھی مشاورت ہو رہی ہے۔پی پی پی بھی میثاق جمہوریت پر مزید کاربند رہنے کے موڈ میں نہیں۔ محترمہ بینظیر کے جانثار سمجھتے ہیں کہ ان کی قاعد کے معاہدے اور وعدے وفا ہونے چاہئیں۔مگر واقفان حال جانتے ہیں کہ پی پی پی کے اندر زرداری اور بھٹو خاندان میں ایک کشمکش جاری ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کے استعفیٰ کا مطالبہ اسی کا نتیجہ ہے۔ ان کے استعفیٰ پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پلیٹ میں رکھ کر وزارت عظمیٰ عمران خان کے حوالے کر دیں۔ جو ہو سکتا ہے گر کر بلاول بھٹو زرادری کی جھولی میں آ جائے۔لیکن وزیر اعظم نے واضح کر دیا کہ وہ نہ مستعفی ہوں گے اور نہ ہی چھٹی پر جائیں گے۔ ان دو آپشنز کا مطالبہ کرنے والے بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ دونوں انتہائی مشکل ہیں۔

ڈاکٹر طاہر القادری کو اگر عوامی تحریک سے الگ کر دیا جائے تو اس تحریک کا کردار کیسا ہو گا۔ تحریک انصاف سے اگر عمران خان کو الگ کیا جائے تو اس پارٹی کا مستقبل کیا ہو گا۔ اگر مائنس ون فارمولہ بہتر حل ہے تو کیا عمران خان اور طاہر القادری اپنی پارٹیوں کی قیادت سے الگ ہونے کا اعلان کریں گے۔ یہ کافی مشکل ہے۔ ق لیگ مائنس چوہدری برادران، ن لیگ مائنس شریف برادارن، پی پی پی مائنس زرداریز، ایم کیو ایم مائنس الطاف حسین، جے یو آئی مائنس مولانا فضل الرحمان ہو جائے تو پھر زیرو حاصل ہو گا۔ اس لئے اس فارمولے کی بات ناگزیر ہے۔ ان کے قائد ایک ہی ہیں۔ جو بانی بھی ہیں۔ ون مائنس ون صفر ہوتا ہے۔مائنس ون کا زکر ہوتا تو مخدوم جاوید ہاشمی پی اے ٹی کے صدر تھے۔ وہ پارٹی سے الگ ہو گئے۔ کیوں کہ وہ نام نہاد تھے۔ اہمیت چیر مین کی ہے۔ صدر عمرا ن خان کے نامزد تھے۔ ساری پارٹی ان سربراہان کے ایک اشارے پر قائم ہے۔ وہ جسے چاہیں ، ٹکٹ دیں یا نہ دیں، ان کی صوابدید ہے۔ کون سی ایسی پارٹی ہے جس کے اندر جمہوریت ہے۔ جو اپنے تمام فیصلے مشاورت سے کرتی ہے۔عمران خان خود تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی کے اندر الیکشن کا انہیں نقصان ہوا۔ جنون اور جذباتی نعروں سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہ پارٹیا ں ان رہنماؤں کی جاگیریں ہیں۔ ان میں سرمایہ کاری ان کی ہی ہے۔ وہ جسے چاہیں رکھیں اور جسے چاہیں نکال دیں۔ کوئی نوٹس اور اس کے بعد وجہ بتاؤ نوٹس کی ضرورت نہیں۔ یہی طریقہ کار ہے۔ پہلے نوٹس دیا جاتا ہے۔ ملزم کو اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسے مہلت ملتی ہے۔ اس کے جواب پر اعتراض ہوتے ہیں۔ پھر شو کاز نوٹس کی باری آتی ہے۔ اگر جیوری مطمئن نہ ہو تو وہ قانونی کارروائی کا اعلان کرتی ہے۔ جسے عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ یہاں کوئی سربراہ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ پارٹی ان کی جاگیر ہوتی ہے۔بیک جنبش قلم فیصلے ایک آمر ہی کرتا ہے۔ جسے کسی قانون و آئین کا پتہ ہی نہ ہو۔یا وہ اپنے بنائے آئین کو پاؤں تلے روندھنے کاحق رکھتا ہو۔ آپ اگر جاگیردار، زمیندار ہیں تو آپ اپنے گھریلو ملازم رکھنے اور انہیں نکالنے میں آزاد ہیں۔ ہماری پارٹیاں بھی اسی طرز پر چلائی جا رہی ہیں۔ یہ پارٹیاں بھی ان کے سربراہان کی ہیں۔ ان میں کام کرنے والے تمام بشمول نام نہاد صدور بھی ملازم ہیں۔ جن کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ پارٹی سربراہ کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکتا ۔پاکستان ہی نہیں بلکہ ترقی پذیر ممالک کا یہی رواج ہے۔جاوید ہاشمی صاحب کے ساتھ کیا ہوا۔ جیسے نائب قاصد کو نوکری پر رکھا گیا ہو اور اسے آسانی سے نکال دیا گیا ہو۔ یہ ہمارا سسٹم ہے۔ نظام کو بدلنے کے لئے بدقسمتی سے وہ لوگ سامنے آتے ہیں جنھوں نے اپنے ہاتھوں سے نظام کی پیٹھ پر خنجر مارا ہوتا ہے۔ وہ قاتل بھی ہیں اور جج بھی۔ منصفی کیسے ہو گی۔ اس بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ سیاست گری اور اپنی بڑائی کے لئے سیاسی الزامات لگائے جاتے ہیں جن کے سر پاؤں نہیں ہوتا۔ مقصد یہ کہ مخالف کی عزت خاک میں ملا کر اپنی عزت کی داغ بیل ڈالی جائے۔ دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔نظام مملکت چلانے میں شخصی راج یا خاندانی راج نہیں ہونا چاہیئے۔ اگر شریف برادران یا کوئی بھی اپنی حکومت میں اپنے خاندان والوں کو ترجیح دیتا ہے تو بات صاف ہے کہ ایسے لوگوں کی قلت ہے یا قحط ہے جن پر بھروسہ کیا جا سکے۔ جو وقت پر دھوکہ نہ دیں۔ جو اپنی قیادت کا پل پل ساتھ دیں۔ جو ڈیل نہ کریں۔ جو بھگوڑے نہ بنیں۔ جو منافقت سے دور رہیں۔ جو لوٹے نہ بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ بد اعتمادی کی فضا ہے۔ سانپ کا ڈھسا رسی سے بھی ڈرتا ہے۔

جس پودے کو آپ نے پالا پوسا ۔اب وہ پھل دینے والا ہے۔ کیا آپ جمہوریت کے نام پر اس پودے کو تباہ کرنے کے لئے ایسے نظام یا اشخاص کے حوالے کریں گے جو اس کو جڑسے کاٹنے کا ارادہ رکھیں۔ ہر گز نہیں۔ نعم البدل لوگ ہی اس قابل ہیں کہ نظام کو بہتر کرنے کا ٹاسک انہیں دیا جائے۔ جو پھلتے پھولتے پودے کے تحفظ کے لئے کام کرنا چاہتا ہو۔ جنھیں یہ احساس ہو کہ یہ چمن مالی نے کتنی محنت سے آباد کیا ہے۔ اسے یوں برباد کرنے کی وہ کیسے اجازت دے گا۔چوہدری نثار صاحب پر انگلیاں اٹھیں کہ وہ نواز شریف سے قیادت چھین لینا چاہتے ہیں۔ یا مائنس ون فارمولے کے تحت ملک کے وزیر اعظم بننے کی آرزو رکھتے ہیں۔عمران خان صاحب بھی اس طرح کا تاثر دیتے رہتے ہیں۔ چوہدر ی صاحب کبھی وزیر اعظم سے ناراض تھے۔ اس لئے یہ چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ ان کے بارے میں وضاحت سامنے نہیں آئی۔مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے درمیان کیا مخاصمت تھی، سب کو معلوم ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی حلقہ سے ہے۔ ایک کا ماضی پی پی پی اور دوسرے کا ن لیگ سے عبارت رہا ۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ شریف برادران کو برے دنوں میں چھوڑ کر پرویز مشرف کی جھولی میں جا کر بیٹھنے اور اقتدار سے لطف اندوز ہونے والوں نے اہم کردار ادا کیا ۔ جو اب بھی سر گرم ہیں۔ ان کے باس پرویز مشرف رہے ہیں۔ لیکن ان پر بھی اعتماد نہ ہو سکا تھا۔ اس لئے پرویز مشرف ق لیگ یا شیخ رشید کی پارٹی میں شامل نہ ہوئے اور اپنی پارٹی کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مسلم لیگ ن میں ایسے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔بعض مخلص بھی ہیں۔یہ سب ایک ہی ڈرامہ کے کردار کیوں بنے ہیں۔ ان میں کیا خصوصیات مشترک ہیں۔ قارئین کو اس کا اندازہ ہو گا۔ ان میں ایم کیو ایم کو بھی شامل کر لیں تو سلسلہ بنتا ہے۔ یہاں ان کے مفادات اور دوست و دشمن بھی سانجھے نظر آتے ہیں۔ اس لئے یہ سب ایک صفحہ پر نظر آ رہے ہیں۔ عوام کو کیا ملتا ہے۔ خسارہ اور نقصان۔یا کوئی فائدہ۔ معیشت کی ابتری۔ سرمایہ کاری کا فرار۔ سفارتکاری کا منفی تاثر۔ روپے کی قدر میں کمی۔ مہنگائی اور قرضوں میں اضافہ۔ قرضہ لے کر فارن کرنسی ذخائر میں اضافہ کس کام کا ۔ مائنس ون فارمولے کی گونج اپنی جگہ،شریف برادارن پانامہ لیکس کے موجودہ بحران سے بچ کر نکل رہے ہیں۔پاک چین اقتصادی راہدری منصوبہ، ترقیاتی پروجیکٹس، بجلی کی پیداوار،موٹر ویز، زرعی پیداوار میں اضافہ، قومی پیداوار بڑھانے سے پاکستان ترقی کرے گا۔ دھرنوں، ہڑتالوں ، تصادم آرائی ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان نے قائم رہنا ہے۔ ترقی کرنی ہے۔ روشن ہونا ہے۔ معاشی سپر پاور بننا ہے۔ کوئی ایک پارٹی اکیلے ایسا نہیں کر سکتی۔ن، ق، ض ،ش، م لیگیں ، پی ٹی آئی، پیٹ، پی پی پی ، جماعت اسلامی ، جے یو آئی، ایک کیو ایم قومی فارمولے پر ا تفاق کر لیں تو پاکستان کو اس خطے کا سپر پاور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555235 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More