اقبالؒ کا پیغام

یومِ اقبالؒ آیا اور گزر گیا۔ حکومتوں نے گزشتہ برس کی طرح 9نومبر کی چھٹی کو متنازع بنائے رکھا۔ ’’چھٹی ہوگی، نہیں ہوگی، ہے ، نہیں ہے‘‘ کا مسئلہ حل نہ ہوا، یوں بہت سے تعلیمی ادارے بند رہے اور بہت سے کھلے۔ برسہا برس سے ہونے والی چھٹی حکومت نے کیوں ختم کی ؟ یہ راز فاش نہیں ہوسکا۔ حکومت نے چھٹی ختم کرنی ہی ہے تو اس کا پہلے سے واضح اعلان کیا جائے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے کھلے رہیں، بچوں اور طلبہ وطالبات کو علامہ اقبالؒ کے بارے میں آگاہی دی جائے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادارے کھلے تو کچھ بند رہے، جو کھلے اُن میں بھی حاضری کم رہی ۔ صورتِ حال اور حاضری کو یقینی بنایا جائے، تمام بچوں کو ان کی عمر کے مطابق علامہ اقبال کی شخصیت ، کلام اور خدمات کے بارے میں آگاہ کیا جائے، معاملہ اس تفصیل اور ترتیب سے سمجھایا جائے کہ ہر بچہ اقبالؒ سے شناسا ہو جائے۔ بچوں پر کیا موقوف اپنے ہاں تو اساتذہ اقبال فہمی سے ناآشنا ہیں۔ مشکل ترین شاعر ہونے کے باوجود انہوں نے بچوں کے لئے نہایت عام فہم نظمیں بھی لکھی ہیں۔ صبح اسمبلی میں پڑھی جانے والی ’’دعا‘‘ ، جو کہ سکولوں میں ایک لازمی جزو کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، اقبال کی لکھی ہوئی ہے، مگر اس سادہ اور آسان دعا کی بھی اساتذہ اپنے بچوں کے سامنے تشریح نہیں کرتے، بچے طوطے کی طرح رٹی رٹائی دعا تو پڑھ دیتے ہیں، مگر انہوں نے کبھی خیال نہیں کیا، کہ ان کی کون کونسی تمنائیں دعابن کر اُن کے لبوں پر آتی ہیں، اور انہی تمناؤں کی روشنی میں ایک طالب علم کو دوسروں کے لئے کیسا نمونہ ہونا چاہیے۔

یومِ اقبالؒ پر تقریبات میں کمی بھی واقع ہو چکی ہے، اقبال فہمی بھی کم ہو رہی ہے، اقبالؒ کے پیغام سے عدم دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے، اس سب کچھ کے باوجود چند تقریبات دیکھنے میں آتی ہیں، جن سے اقبالؒ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، یا ان کا پیغام دوسروں تک پہنچنے کا موقع ملتا ہے، یا ان کے کلام میں دلچسپی لینے کی ترغیب ملتی ہے۔ ایسی ہی ایک تقریب گزشتہ روز اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے گھوٹوی ہال میں منعقد ہوئی۔ مہمان مقرر پروفیسر خواجہ محمد زکریا تھے، جو لاہور سے خاص طور پر اس تقریب کے لئے تشریف لائے تھے۔ سامعین میں اساتذہ، دانشور ، شہری اور طلبہ و طالبات شامل تھے۔ خواجہ صاحب نے نہایت سلیقے اور ترتیب سے علامہ اقبالؒ کی نثر اور شاعری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ مقصدی شاعری میں عموماً مقصد زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے، شاعری دب جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شاعری میں مقصد لانے والے شاعر زیادہ کامیاب نہیں ہوئے، مگر علامہ اقبالؒ کو یہ کمال حاصل ہے، کہ ان کی شاعری بھی اپنے کمال پر ہے اور مقصد حاصل کرنے میں بھی کوئی کمی نہیں رہی۔ اقبالؒ کے کلام میں سب سے زیادہ توجہ مسلمانوں کی حالت پر دی گئی ہے، ان کی خواہش تھی کہ ملتِ اسلامیہ متحد ہو کر اپنے مسائل خود حل کرے۔ وہ اپنی بہتری کے لئے اقوامِ مغرب کی طرف نہ دیکھے۔ ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں کی انفرادی تربیت پر بھی مرکوز ہے۔ ’’مردِ مومن‘‘ بھی علامہ اقبالؒ کا مطلوب ہے، وہ اجتماعی تربیت کے نتیجے میں تیار شدہ افراد کو مرد مومن قرار دیتے ہیں، جو اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی پیروی بھی کرے، اور زمانے کی رفتار کے ساتھ بھی چلے۔

علامہ اقبالؒ کی خودی کو خواجہ زکریا نے شخصیت سے تعبیر کیا، مگر شخصیت ظاہری نہیں کہ جس میں سوٹ بوٹ اور بہت اچھی شکل و صورت دکھائی دیتی ہے، بلکہ شخصیت وہ جو انسان کے اندر کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے۔ ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی صلاحیت ہوتی ہے، اگر وہ اسی پر سخت محنت کرے،( اسی محنت و مجاہدہ کو اقبالؒ عشق کا نام دیتے ہیں)تو انسان ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکتا ہے۔ اسی ضمن میں اقبالؒ نے مسلمانوں کے بارے میں یہی تجزیہ کیا کہ وہ ہر بات کو مقدر پر چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ محنت نہیں کرتے، آگے بڑھنے کی جستجو نہیں کرتے، نئی سے نئی تحقیق کا نہیں سوچتے۔ اقبالؒ کا کلام مسلمانوں کے لئے مشعلِ راہ ہے، مگر بدقسمتی سے نہ اقبالؒ کے کلام کو اس کی روح کے مطابق پڑھا اور سمجھا نہیں جاتا۔ اگر سرکاری سطح پر نصاب سے ایک قدم آگے بڑھ کر اقبالؒ کو سمجھا اور سمجھایا جائے اور ان کے کلام کو واقعی شمع کی صورت قرار دیا جائے تو اقبالؒ کا مطلوب انقلاب عملی شکل میں برپا ہو سکتا ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473311 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.