وفاقی حکومت نے بالآخر سندھ کی گورنر
شپ کے منصب پر تقریباً 14برس سے فائز ڈاکٹر عشرت العباد کو ان کے عہدے سے
ہٹانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ڈاکٹر عشرت
العباد کی جگہ جسٹس (ر) سعید زماں صدیقی کو سندھ کا نیا گورنر بنانے کی
فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور
چیف جسٹس سپریم کورٹ بھی رہ چکے ہیں انہوں نے پرویز مشرف کے پی سی او کے
تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔سعید الزماں صدیقی آصف علی زرداری کے
مقابلے میں ن لیگ کے صدارتی امیدوار تھے۔تقریباً تین ہفتہ قبل پاک سرزمین
پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے خلاف
ایک مہم شروع کی تھی جس میں انھوں نے گورنر سندھ پر دہشتگردوں کو سپورٹ
کرنے اور کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے تھے۔ جواب میں ڈاکٹر عشرت
العباد اپنے منصب اور مزاج سے متصادم انداز اپناتے ہوئے اسی زبان میں مصطفی
کمال سے مخاطب ہوئے تھے۔ اس وقت ان کے لب لہجہ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو
رہا تھا کہ جیسے وہ کسی کی فرمائش پر اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کر رہے
ہیں۔ بعد میں انھوں نے ایک نجی ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے بات چیت کرتے ہوئے اس
بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ جس انداز میں انھوں نے مصطفی کمال کو جواب
دیا وہ ان کے منصب اور مزاج کے متقاضی نہیں۔ میں نے اس وقت بھی اپنے کالم
میں لکھا تھا کہ اب شاید ڈاکٹر عشرت العباد کے جانے کا وقت آ گیا ہے ۔ اس
کالم میں میں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ مصطفی کمال کی طر ف سے ڈاکٹر عشرت
العباد کے خلاف اتنی شدت کی اچانک مہم چلانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصطفی
کمال کو ڈاکٹر عشرت العباد کو گندہ کرنے اور انھیں سندھ کے گورنر ہاؤس سے
باہر نکالنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بالکل ویسا ہی ہوا کیونکہ اب ڈاکٹر عشرت
العباد آبرو مندانہ طریقے سے گورنر ہاؤس سے باہر نہیں آ رہے بلکہ ان کی
پوزیشن بہت زیادہ خراب ہو چکی ہے۔ ان پر کرپشن ، اقرباء پروری اور
دہشتگردوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے الزمات ہیں۔ کیاگورنر ہاؤس سے
باہر آنے کے بعد انھیں اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنا پڑے گا اور مقدمات کا
سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ بات بھی میں نے اپنے اسی کالم میں بہت واضح انداز سے
لکھی تھی کہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی کل تک جن مقتدر اداروں کو
ضرورت تھی وہ ضرورت اب ختم ہو چکی ہے اور اب کسی بھی وقت ان کو فارغ کرنے
کے احکامات جاری کر کئے جا سکتے ہیں۔ اب وہی سب کچھ تو ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر
عشرت العباد تقریباً چودہ برس گورنر ہاؤس میں رہے ۔ ان کو یہ پوزیشن ایم
کیو ایم کی وجہ سے ملی تھی لیکن انھوں نے اس پورے عرصے کے دوران سندھ کے
شہری علاقوں یا سندھ کے عوام کے لئے کوئی ایسا قابل ذکر کام نہیں کیا کہ جس
پر انھیں ہمیشہ یا رکھا جائے ۔ ہاں انھوں نے ہمیشہ ایم کیو ایم اور
اسٹبلمیشٹ و حکومت کے درمیان ایک پل کا کردار ضرور ادا کیا ۔ جب بھی ایم
کیو ایم اور اسٹبلشمنٹ یا حکومت کے درمیان تلخیاں پیدا ہوئیں ان تلخیوں کو
کم سے کم کروانے یا ختم کروانے میں ڈاکٹر عشرت العباد کا ایک اہم کردار ہا۔
مگر جب ڈاکٹر عشرت العباد مکمل طور پر اسٹبلشمنٹ کی زبان بولنے لگے تو ایم
کیو ایم نے بھی ان سے لاتعلقی کا مطالبہ کر دیا۔ پھر وقت ایسا بھی آیا کہ
ایم کیو ایم ہی کی طرف سے ڈاکٹر عشرت العباد کو بر طرف کر نے کا مطالبہ کیا
گیا ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت ہمارے ملک کی اسٹبلشمنٹ یہ مطالبہ کیسے تسلیم کر
سکتی تھی۔ سچائی تو یہی تھی کہ جس دن ایم کیو ایم نے گورنر سندھ کی برطرفی
کا مطالبہ کیا اسی دن ڈاکٹر عشرت العباد کا کام ختم ہو چکا تھا ۔ اس کے بعد
ڈاکٹر عشرت العباد نے متعدد بار گورنر شپ چھوڑ کر دبئی جانے کی کوشش کی مگر
انھیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔اس وقت مقتدر اداروں کی نظر میں ڈاکٹر عشرت
العباد کو ہٹانے کا مطلب یہ لیا جاتا کہ مقتدر ادارے ایم کیو ایم کے دباؤ
میں آ گئے لہذا سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ کی طر ف سے گورنر سندھ کو ’’ مدت
ملازمت‘‘ میں غیر ضروری توسیع دی گئی۔ اب مقتدر اداروں کے مطابق حالات
معمول پر آئے لہذا چند ہفتہ قبل اچانک سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کو ڈاکٹر
عشرت العباد کو گندہ کر کے گورنر ہاؤس سے باہر نکالنے کا ٹاسک دیا
گیا۔ڈاکٹر عشرت العباد کو جب یہ لگا کہ ان کی گورنر ہاؤس سے نکالنے کی
تیاری ہو گئی ہے تو انھوں نے ایک میڈیا ٹاک میں مقتدر اداروں کو رام کرنے
کے لئے یہ تک کہہ دیا کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے آدمی ہیں تاکہ وہ فی الحال اپنی
گورنری کو بچا لیں اور مصطفی کمال کے مطالبے اور ارادوں کو خاک میں ملا دیں
لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ فیصلہ تو کہیں ہو چکا تھا لہذا ان کی ایک نہ
سنی گئی۔ اب امکان یہی ہے کہ آئندہ چند روز میں سندھ کے نئے گورنر جسٹس (ر)
سعید الزماں صدیقی اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیں گے اور ڈاکٹر عشرت العباد کو
اپنے پرانے گھر میں شفٹ ہونا پڑے گا۔ مگر اب سوال یہ ہے کہ گورنر شپ کے
خاتمے کے بعد کیا ڈاکٹر عشرت العباد کو مقتدر اداروں کی طرف سے پاکستان سے
باہر جا کر اپنی بقیہ زندگی گزارنے کی اجازت ملے گی یا پھر انھیں یہیں رہ
کر اپنے اوپر عائد تمام الزامات اور مقدمات کا سامنا کر نا پڑے گا۔ |