مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل میں پیش رفت کے لئے !

مقبوضہ کشمیر میں تین سینئر حریت رہنماؤں سید علی شاہ گیلانی،میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے ایک ملاقات میں گزشتہ چار ماہ سے جاری جدوجہد آزادی کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے تحریک آزادی کے تمام ذمہ دارون/فریقین ،تاجروں،ٹرانسپوٹرز ،سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ مشاورتی اجلاس کا فیصلہ کیا۔اگلے روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں،سول سوسائٹی ،سیاسی رہنماؤں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں شرکاء نے ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے حریت رہنماؤں کو اختیار دیا اور یقین دلایا کہ قیادت اس ضمن میں جو بھی پروگرام دے گی اور جو لائحہ عمل مرتب و متعین کرے گی سبھی لوگ اس پر عمل پیرا ہوں گے تاکہ تحریک آزادی کے سلسلے کو حصول منزل مقصود تک جاری رکھا جاسکے۔ اجلاس میں مقررین اور نمائندگان کا اس بات پر اتفاق تھا کہ آزادی کی تحریک کو شدو مد کے ساتھ جاری رکھنا سبھی کشمیریوں کا فریضہ ہے اور اس ضمن میں اقتصادی، تعلیمی،سماجی اور دوسرے میدانوں میں پیش آمدہ تکالیف اور کمزوریوں کا آنا اور ان پر صبر و استقامت اور حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کی جستجو جاری رکھنا لازمی امر ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں شدید اور مسلسل عوامی جدوجہد ور قربانیوں سے بھارت پر کشمیر کے حوالے سے دباؤ بڑہتا جا رہا تھا کہ اسی دوران اوڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملے اور19بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے واقعہ سے بھارت کی اس کوشش میں پیش رفت ہوئی کہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں عوام کے مطالبہ آزادی اور بھارتی مظالم سے ہٹا کر پاکستان بھارت کشیدگی کی طرف مبذول کرائی جائے۔ا س کے لئے بھارتی فوج نے ورکنگ باؤنڈری اور کشمیر کو جبری طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین( لائین آف کنڑول) سے آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھیؤ شروع کر رکھا ہے اور پہلی مرتبہ بھارتی گولہ باری آزاد کشمیر کے کئی کلومیٹر اندر تک کے علاقے میں ہو رہی ہے۔پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سفارتی سرگرمیاں تیز کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اہم ممالک میں خصوصی وفود بھی بھیجے گئے۔تاہم مسئلہ کشمیر پر واضح اور مستقل پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کشمیر کاز سے متعلق پاکستان کی کوششیں موثر ثابت نہیں ہو رہیں۔سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کے اس بیان سے بھی پاکستان کی کشمیر پالیسی کے ناقص اور درست سمت میں نہ ہونے کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’ بھارت کشمیر میں ظلم اور بربریت کر رہا ہے،عالمی برادری نوٹس نہیں لے رہی،حکومت پاکستان کی کشمیر سمیت کوئی خارجہ پالیسی درست سمت میں نہیں جا رہی‘‘۔پاکستان میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق نمائشی تقریبات ، کھوکھلے بیانات تو سامنے آتے رہتے ہیں لیکن غیر سنجیدگی کا یہ انداز کشمیریوں کے ساتھ اخلاص کے اظہار سے بھی قاصر ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی میڈیا کی ’’ کشمیر گریز پالیسی‘‘ بھی نمایاں طور پر دیکھی جا رہی ہے۔نجی ٹی وی چینلز پر کشمیر سے متعلق بے فائدہ اور بے مقصد گفتگو سے شاید پاکستان کے مختلف طبقات کی رائے تو سامنے آئی ہو لیکن پاکستانی میڈیا کشمیریوں کی رائے،امنگوں اور پاکستان کے کردار کے امور کو شاید جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

سید علی شاہ گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق اور محمدیاسین ملک کی طرف سے بلائے گئے اس مشاورتی اجلاس کا انعقاد کشمیری عوام کے ہر شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کو شامل کرنے کے حوالے سے اچھا قدم ہے۔ آزادی پسند رہنماؤں کی طرف سے کشمیر کاز کے حوالے سے مختلف شعبوں کے نمائندگان سے مسلسل رابطہ رکھنا درست لیکن اس عمل میں حریت رہنماؤں کو ان کشمیری شخصیات کو نظر انداز نہیں کر چاہئے جو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں پیش رفت کو یقینی بنانے کے حوالے سے موثر رہنمائی کر سکتے ہیں۔اس اجلاس میں حکمت عملی اختیار کرنے کے حوالے سے حریت رہنماؤں کو اختیار تو دے دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی درپیش ہے کہ تحریک آّزادی کو موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند رہنماؤں کا کردار پاکستان اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں کی حکمت عملی اور ان کے کردار سے منسلک ہے اور نتیجہ خیز بنانے کے حوالے سے ان کا اہم کردار ہے۔مقبوضہ کشمیر،پاکستان اور بیرون دنیا کے ممالک میں مقیم کشمیری تحریک آزادی کشمیر کے تین اہم جز ہیں اور تحریک آزادی کشمیر میں پیش رفت کے لئے کشمیریوں کے ان تینوں اجزاء کے درمیان موثر رابطہ اور اشتراک عمل ناگزیر ہے۔یہ کردار بھی مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما ہی ادا کر سکتے ہیں کہ وہ کشمیر کاز کے لئے پاکستان اور یورپ،امریکہ میں مقیم کشمیریوں کو مشترکہ حکمت عملی اور کوششوں میں مربوط کر نے کی ذمہ داری بھی ادا کریں۔کشمیر کاز کے تینوں بنیادی اجزاء کو ایک سلسلے میں منسلک کرتے ہوئے پاکستان کی طر ف سے کشمیریوں کو ’’ آن بورڈ‘‘ کرنے کی ضرورت بھی اشد طور پر درپیش ہے۔

یہ تلخ حقیقت بھی درپیش ہے کہ ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی مستقل اور واضح نہ ہونے کی وجہ سے کشمیریوں کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہد کے باوجود ، فیصلہ کن اور موثر ترین طریقہ کار اختیار نہیں کر پاتی۔پاکستان کے ساتھ کشمیریوں کے گہرے تعلق میں قائد اعظم محمد علی جناح کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔جب انڈین کانگریس نے شیخ عبداﷲ کو زیر دام لاتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو مطالبہ پاکستان کے خلاف اپنا ایک گڑھ بنانے کی کوشش کی تو قائد اعظم قیام پاکستان کی جدوجہد کے کٹھن ترین دور میں بھی کشمیر کے اکثریتی مسلمانوں،کشمیری عوام کو اپنی رہنمائی فراہم کرتے گئے اور کشمیریوں کے اہم امور و مسائل پر برٹش حکومت سے بھی مطالبات کرتے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کی پر اعتماد اور پرفخر قیادت نے کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنایا۔جنگ کشمیر کے خاتمے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات پاکستان کی طرح کشمیریوں کے لئے بھی ایک المیہ ثابت ہوئی۔جنگ کشمیر کے خاتمے اور قائد اعظم کی رحلت کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھارت سے جنگ نہ کرنے کی بات کرنے کے باجود کشمیر کاز سے متعلق ایسے شاندار عزم و ارادے کااظہار کیا کہ جس کے پاداش میں عالمی طاقت نے ہماری طاقت کو استعمال کرتے ہوئے لیاقت علی خان کو قتل کرا دیا۔اس کے بعد پاکستا ن کے ساتھ کشمیر کے تمام امور فوج کی نگرانی میں آگئے اور مارشل لاء کی طویل حکومتوں نے اس طریقہ کار کو قطعی حیثیت دے دی۔ یہی طریقہ کار اب بھی جاری ہے۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں قربانیوں کے مطابق پیش رفت نہ ہونے میں سیاسی کردار کی کمزوری کی نمایاں وجہ سے اب اس بات کی ضرورت اشد طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر سے متعلق سیاسی امور پر پاکستان کی طرف سے سیاسی ذرائع سے تعلقات رکھے جائیں۔کشمیر کی جدوجہدآزادی میں مصروف سیاسی اورکو پاکستان کی طرف سے غیر سیاسی ذرائع سے ’’ڈیل‘‘ کرنے کے طریقہ کار نے کشمیر کاز،مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل میں پیش رفت کو دشوار تر بنا رکھا ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609613 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More