صدر ٹرمپ اور عالم اسلام کا مستقبل
(Hafiz Abdul Ghani Muhammadi, )
امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈو نلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کی
امیدوار ہیلری کلنٹن کو واضح شکست دے کر صدارتی انتخابات اپنے نام کرلیے
ہیں ۔ الیکشن سے قبل عالمی میڈیا اور پھر اس کی پیروی میں ملکی میڈیاقبل از
وقت ہی ٹرمپ کو بری طرح شکست دیے بیٹھے تھے اور اس کو ایسے امیدوار کے طور
پر سامنے لارہے تھے جس میں حکومت چلانے کی بالکل اہلیت نہیں ہے ، اور اگر
یہ کامیاب ہوجاتاہے تونہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا نا قابل حل بحران کا
شکار ہوجائے گی ۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے یہ تمام تجزیے اور تبصرے دم توڑ چکے
ہیں ،نتائج کے بعد بھی کچھ لوگ خاصی تشویش میں مبتلاہیں بلکہ امریکہ میں تو
بہت سے لوگ ان کے خلاف احتجاج کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن امید ہے کہ
ٹرمپ اس صورتحال پر اپنے سابقہ تجربات کی بناء پر قابوپالیں گے ۔ اب یہ
سوال مسلسل گردش کررہا ہے کہ ٹرمپ کے جیتنے کی کیا وجوہات ہیں ؟ اس ضمن میں
متعدد وجوہات ذکر کی جارہی ہیں ۔ ٹرمپ کے جیتنے کی بڑی وجہ سفید فام
امریکیوں کا ٹرمپ کی حمایت میں جمع ہوجانا تھا ۔امریکہ میں سفید فام اور
سیاہ فام لوگوں کے درمیان ماضی میں جس قدر عصبیت رہی ہے، اور سیاہ فام
امریکیوں سے جو بہیمانہ سلوک کیاجاتارہاہے وہ تو شاید ہمیشہ امریکہ کے چہرے
پر بدنما داغ بن کر رہے گا لیکن ابھی بھی اس عصبیت کے نشانا ت اور آثار
موجودہیں ۔ اوباما جو کہ امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام صدر تھا اس کے دور
حکومت میں سفید فام امریکیوں نے خود کو نظر انداز اور اپنے حقوق کو پامال
ہوتا محسوس کیا ۔ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کواوبامہ کی کا روئیوں کے خلاف
ایک تحریک قرار دیتے ہوئے سفید فام لوگوں کی ہمدردیاں اپنے نام کرلیں ۔ اس
کے علاوہ امریکہ کی قدامت پسند آبادی کی بڑی اکثریت تو ریپلکن میں شامل تھی
ہی ٹرمپ نے جدت پسند طبقے کوبھی اپنی مستقبل کی پالیسیوں سے خاصہ متاثرکیا
۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکہ کی تیسری قوت کی نظر میں امریکہ کی گرتی
معیشت کو سنبھالا دینے اور امریکہ کو معاشی وعسکری بحرانوں سے نکالنے کے
لیے ٹرمپ جیسے آدمی کی ضرورت ہے جس نے کاروباری اور معاشی دنیا میں خاصہ
نام کمایاہو ۔ امریکہ بلاشبہ اس وقت بھی دنیا کی سپر پاوراور سب سے بڑی
معیشت ہے لیکن امریکہ کی خارجہ پالیسی نے امریکہ کی معیشت کو خاصہ
متاثرکیاہے ۔ دوسرے ملکوں میں مداخلت در مداخلت سے جہاں امریکہ کا خاصہ
سرمایہ خرچ ہوتاہے وہاں امریکہ نے کچھ دوستوں اور مہربانوں کے ساتھ بہت سے
دشمن بھی پال لیے ہیں ۔مزید برآں امریکہ کو اس وقت معاشی و عسکری لحاظ سے
ایک مضبوب بلاک کا سامناہے ۔اور امریکہ بھی سمجھتاہے کہ یہ بلاک امریکہ کو
کسی بھی دم متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتاہے ۔اس لیے اگر اب بھی امریکی
معیشت کو سنبھا لا نہ دیا گیا تو امریکہ کے لیے اپنی عظمت رفتہ کو بحال
رکھنا مشکل ہوگا۔الیکشن سے قبل ہی ٹرمپ اس عزم کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ
امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو ایک مرتبہ پھر بحال کریں گے اوراس کی معاشی
ترقی کی جانب بھرپور توجہ دیں گے ۔اس ضمن میں ٹرمپ نے ایک بیان میں یہ بھی
کہا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے حکام کو پابند کریں گے کہ وہ کسی لابی کا حصہ نہ
بنیں بلکہ اسی رقم کو جس سے امریکہ لابنگ کرتاہے امریکی سماجی ڈھانچہ بہتر
بنانے کے لیے استعمال کیاجائے ، ایک بیان میں وہ یہ بات بھی کہ چکے ہیں کہ
اب امریکہ کسی ملک میں ڈرون حملہ نہیں کرے گا ۔
ٹرمپ کے جیتنے کے اسباب جو بھی ہوں ہمیں اب ان کی بجائے مستقبل کی طرف
دیکھناہوگا کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ کے خارجی تعلقات پاکستان ، مسلم
امہ اور دیگر دنیا کے ساتھ کس طرح کے ہوں گے ۔ ویسے تو صدر بننے کے فوراً
بعد ٹرمپ نے یہ بیان دیاہے کہ ہم سب ملکوں سے شراکت کریں گے اور سب سے اچھے
اور خوشگوار تعلقات رکھیں گے ۔ لیکن ٹرمپ کے میلانات کیسے ہیں اور ان کے
نتائج کیاہوں گے ؟ وہ ان کی کچھ سابقہ تقریروں سے محسوس کیا جاسکتاہے ۔امریکہ
اس سے قبل جہاں اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں کے باوجود اس کی غیر مشروط
پشت پناہی کرتا آیاہے ٹرمپ کے صد ر بننے کے بعد اس میں مزید تیزی کے
امکانات بہت روشن ہیں ، کیونکہ ٹرمپ اور اسرائیلی صدر نیتن یاہو کے مابین
بڑے گہرے مراسم ہیں ۔ 2013کے اسرائیلی انتخابات میں ٹرمپ نے نیتن یاہو کی
بھرپور حمایت کی تھی ۔ اسی طرح چھے سال قبل ان کو اسرائیل امریکا تعلقات کے
فروغ میں نمایاں خدمات پر لبرٹی ایوارڈ بھی دیاگیا تھا۔ ٹرمپ اپنے ایک بیان
میں بھی یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ صدر بننے کے بعد یروشلم کو اسرائیل کا
غیرمنقسم دار الحکومت تسلیم کریں گے ۔ اسی طرح عراق ، شام اور مشرق وسطیٰ
کے دیگر علاقوں کے بارے ان کی پالیسی ان کے کچھ بیانات سے محسوس کی جاسکتی
ہے ۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ وہ دولت اسلامیہ کو ختم کرنے کے لیے
ہر طرح کی کوشش کریں گے ۔ دولت اسلامیہ کے علاوہ ایرا ن اور سعودیہ کی
موجودہ کشاکش میں ٹرمپ کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ ان کے بیانات سے اندازہ
ہوتاہے کہ وہ دونوں قوتوں کے حق میں ہیں اور نہ دونوں کو امریکہ کا دوست
سمجھتے ہیں ۔ تاہم اتنی بات ہے کہ وہ سعودی عرب کے کچھ وجوہات کی بناء پر
خلاف ہیں ۔ ایک تو یہ کہ سعودیہ کو 9/11 میں ملوث سمجھتے ہیں اور ان کے ذہن
میں مجموعی طور پر تمام مسلمانوں کے حق میں جو سختی پائی جاتی ہے اس کی ایک
وجہ ان کے بیان کے مطابق یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے نائن الیون کے موقع پر
خوشیاں منائی تھیں ۔ دوسرا ان کو سعودیہ سے تیل کی پیداوار کے حوالے سے بھی
تحفظات ہیں ، انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ سعودیہ ہمارادوست نہیں ہو
سکتاہے کیونکہ سعودیہ نے ان کے تیل میں کمی کی ہے ۔
ٹرمپ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں ۔ انہوں نے ایک بیان میں یہ
بات کہی کہ میں صدر بننے کے بعد مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف توجہ دوں گا
اور پاک بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات کے حق میں ہوں ۔ تاہم پاکستان سے
ان کو کچھ تحفظات اسامہ بن لادن کے حوالے سے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ
پاکستان نے 6 سال تک اسامہ بن لادن کو پناہ دیے رکھی ۔ اور انہوں نے ایک
بیان میں پاکستان سے معافی کا مطالبہ بھی کیا ہے ۔ بھارت کے ساتھ ٹرمپ کے
کچھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں اس لیے یہ چیز بھی ان کو بھارت کے قریب
کرسکتی ہے ۔
اس تما م صورتحال کو بھانپتے ہوئے پاکستان اور امت مسلمہ کو کوئی بھی قدم
اٹھانا چاہیے ، ٹرمپ اب امریکہ کے صدر ہیں اور جمہوریت کے ذریعے منتخب ہو
کر آئے ہیں اس لیے ان کے جانے کے امکانات کوئی نہیں ہیں ۔ٹرمپ کے منتخب
ہونے کے بعد ہمیں اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ ٹرمپ کے خیالات امریکی
اکثریت کے خیالات کے ترجمان ہیں جنہوں نے ان کو منتخب کیا ہے ۔ اب یہ ہماری
ذمہ دار ی ہے کہ سفارتی کوششوں کے ذریعے نہ صرف ٹرمپ بلکہ تمام امریکیوں کو
قریب کریں اور عالم اسلام و مسلمانوں کے خلاف ان کے ذہنوں میں جو شبہا ت
ہیں ان کو دلیل و مکالمے کے ساتھ دور کریں ۔ |
|