ڈان لیکس ۔جب رات کا آنچل ڈھلکے گا ،،
(Roshan Khattak, Peshawar)
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کہا
کرتے تھے کہ نواز شریف بودے دماغ کے مالک ہیں ،یہ حقیقت ہے یا نہیں ؟اس پر
ہم تبصرہ نہیں کرنا چا ہتے وہ اسلامی جمہو ریہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ،لہذا
ان کا احترام ہم سب پر لا زم ہے ۔البتہ اگر ہم ماضی اور حال کے ان کے دورِ
حکومت کا جا ئزہ لیں تو کچھ حماقتیں ایسی نظر آتی ہیں ’’ جو آبیل مجھے مار
‘‘ کے مصداق ضرور ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت اس وقت شدید دباوء میں ہے
اگر ایک طرف پانامہ لیکس کا دباوء ہے تو دوسرے طرف ڈان لیکس کے معاملہ نے
نواز شریف کے نیند میں خلل ڈال رکھی ہے۔ کرپشن کے الزامات یا سیاسی دباوء
آنی جانی چیز ہے ۔اقتدار کی کھینچا تانی میں ایسا ہو تا رہتا ہے مگر فی
الوقت حکومت صرف سیاسی دباو ء میں ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے دباو میں بھی
ہے اور اسٹیبلیشمنٹ کا دباو یقینا پریشان کن ہوتا ہے کیو نکہ اس کے آگے بند
باندھنا بہت مشکل ہو تا ہے۔وہاں سرنڈر کرنے، معافی تلافی کی درخواست کرنے
اور مطالبہ ماننے کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں ہو تا ۔اس وقت حکومت بیک وقت دو
تین محاذوں پر لڑ رہی ہے ، جس سے نبٹنا نواز شریف کے لئے ممکن نہیں لہذا
مناسب یہی ہو گا کہ ایک محاذ پر سر نیچے کر دیا جائے بلکہ مو نچھیں نیچی کر
لی جائیں اور دوسرے محاذوں پر مو نچھوں کو خوب تاؤ دیا جائے۔ ہمارے چینی
دوستوں کابھی یہ کہنا ہے کہ جب طو فان آئے تو لچکدار ٹہنی کی طرح جھک جاؤ ،طوفان
گزر جائے تو اپنی اصلی جگہ پر واپس آجاؤ۔
وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کی قربانی اگر چہ ایسے ہی ایک حکمتِ عملی نظر
آرہی ہے مگر ایسے قربانیاں تواپنے آقا کے لئے دینی پڑتی ہیں۔ حکمران اپنے
درباریوں،وفاداروں اور تابع فرمان افراد کو اس لئے تو پالتے ہیں کہ بوقت،
ضرورت کام آئیں ۔ سیاستدان اسی لئے اقتدار میں آکر دولت کے انبار لگاتا ہے
کہ آزمائش کے مشکل دور میں اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔بے شمار دولت کا ایک
فائدہ یہ بھی ہو تا ہے کہ بڑے سیاستدان اپنے تابع دار اور فرماں بردار
افراد کو باقا عدہ پے رول پر رکھا ہو تا ہے جنہیں حکمران ماہانہ ادائیگی
کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں اقتدار ملتا ہے تو وہ اپنے پے رول پر رکھے
افراد کو سیاسی منصب عطا کرتے ہیں مگر مشکل وقت آنے پر ان کی قربانی لازم
ہو تی ہے۔ سیاست میں ضرورت کا فلسفہ چلتا ہے اس لئے کہ سیاست کے سینے میں
دل نہیں ہو تا۔
ڈان اخبار میں قومی سلامتی کے خلاف جو خبر شائع ہو ئی ہے ، اس میں کس کس کا
ہاتھ ہے، یہ تو ہم نہیں جانتے مگر اتنا ہم سب یہ ضرور جانتے ہیں کہ وزیر
اعظم ہاؤس کا میڈیا سیل خاصا طاقتور اور ایکٹیو ہے، وزیراعظم کی صاحبزادی
مریم نواز اس کی سر براہ ہیں اور یہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اپنا کا
فی اثر بھی رکھتا ہے۔ہمیں یہ بھی علم نہیں کہ اندر اندر کیا کھچڑی پکی اور
یہ کہ وزیرِ داخلہ چو دھری نثار مزید کیا کیا تاویلیں، وضاحتیں اور
انکشافات کریں گے ،وزراء کی اپنی مجبو ریاں ، حدود اور مصلحتیں ہو تی ہیں ،
یہ بیچارے خواہش کے با وجود سچ نہیں بول سکتے کیونکہ وزارت اور مصلحت کا
چولی دامن کا ساتھ ہو تا ہے ۔ ماضی کی مانند ان کی کو شش یہی ہو گی کہ ڈان
لیکس کے معاملہ کو لٹکایا جائے یوں جلتی پر پانی ڈال کر بجھا دیا جائے مگر
عین ممکن ہے کہ عسکری رپورٹ اس معاملہ کو دبنے نہ دے اور ہو نا بھی ایسا ہی
چا ہئیے تاکہ آئیندہ کو ئی ایسی حرکت نہ کرے۔شنید ہے کہ جب دو وزراء اور
ایک وزیر اعلیٰ پر مشتمل جو ٹیم آرمی چیف سے ملنے گئی تھی اس ملاقات میں
انہوں نے انکوائری کے حوالے سے چند حضرات پر غفلت کا الزام لگا کر ’’ معافی
تلافی ‘‘ کی بہت کو شش کی مگر آرمی چیف نے کور کمانڈرز کے مو قف کو دہرایا
اور نرمی دکھانے سے صاف انکار کر دیا ۔چنانچہ فو ری طور پر پرویز رشید کو
سبکدوش کر دیا گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خبریں وزارتِ اطلاعات اور میڈیا سیل کے ذریعے فیڈ
ہو تی رہتی ہیں یہ سیاسی کھیل کا ایک حصہ ہے مگر اس مرتبہ ، وائے نادانی کہ
ایک ایسے خبر کو فیڈ کیا گیا جو نہ صرف یہ کہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے
مترادف ہے بلکہ قومی سلامتی کے خلاف ہے جو ایک سنگین جرم بھی ہے ۔اس لئے یہ
ایک سنجیدہ اور خطرناک معاملہ ہے۔حکومت لاکھ بائیں شائیں کرے مگر ہر کو ئی
جانتا ہے کہ ڈان لیکس جیسے اعلیٰ سطح کی فیڈ ملک کے اعلیٰ ترین حکمران کی
مرضی کے بغیر کبھی فیڈ نہیں ہو سکتی۔ممکن ہے کہ یہ تجویز کہیں اور سے آئی
ہو مگر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کہ ایسی اہم لیک وزیر اطلاعات اعلیٰ ترین
حکمران کی مرضی کے بغیر فیڈ کر دیں کیونکہ یہ خبر سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے
اور کارندوں کا اپنا کو ئی ایجنڈا نہیں ہو تا۔ان کا کام صرف اطاعت اور فر
مانبرداری ہو تا ہے۔کاش میاں نواز شریف کی ٹیم میں کو ئی صاحب صاحبِ بصیرت
اور صاحبِ جرات بھی ہو تا اور وہ حکمرانون کو اس خبر کے مضمرات سمجھا کر اس
کے نہ چھاپنے کا مشورہ دیتا لیکن افسوس کہ میاں صاحب کے دربار میں صرف
خوشامدی ہی پائے جاتے ہیں ۔اب ان کو کون سمجھائے کہ عسکری اعلیٰ عہدے دار
نہایت با خبر اور منظم ہو تے ہیں ،ان کے پاس بالکل درست انفارمیشن مو جود
ہو تی ہے جس پر کور کمانڈرز کانفرنس میں بحث کی جاتی ہے۔اس لئے میرا خیال
ہے کہ جب اگلی کور کمانڈرز کانفرنس ہو گی تو پھر مزید قربانیوں کی ضرورت
پڑے گی کیونکہ بقولِ ساحر لد ھیانوی ، جب رات کا آنچل ڈھلکے گا، جب دکھ کے
بادل پگھلیں گے ، وہ صبح کبھی تو آئے گی۔ |
|