نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی
کامیابی پر پاکستان میں ہمارے مبصرین پاکستان کے لئے خطرے کی گھنٹی قرار دے
رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے پاکستان کے لئے امریکہ کا رویہ دوستانہ
تھا؟ گذشتہ کچھ سالوں سے بالخصوص اور مجموعی طور پر بالعموم امریکہ نے
سوائے اپنے مقصد کے چند سالوں کے جس میں اسے پاکستان کی ضرورت تھی ، ہمارے
لئے مشکلات ہی پیدا کئے رکھی ہیں ۔11 /9 کے بعد اس نے پاکستان کو کون سے
لڈو کھلائے ہیں کہ آج ٹرمپ کی کامیابی پر قوم کو پریشان اور خوفزدہ کیا
جارہا ہے ؟۔ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ چند ماہ قبل اوباما نے کہا تھا کہ
پاکستان میں عشروں تک حالات ٹھیک نہیں ہو ں گے۔یہ الفاظ عالمی تھانیدار کے
تھے نہ کہ کسی مقامی تھانیدار کے ۔گو یا کہ پاکستان کے لئے پالیسی بن چکی ،
اس پر عمل کرنا ہے۔ شاید فرق یہ ہو گا کہ ٹرمپ کھلم کھلا اپنی پالیسی مسلط
کرے گا ،ہیلری آجاتی تو وہ اوباما کی طرح مِٹھی گولی دیتی رہتی۔ ذرا پیچھے
چلے جائیں تو اوباما نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا؟ ۔بش کے بعد کیا مسلمان
سکون سے بیٹھ سکے؟ ۔ بلکہ اوباما نے یہ تاثر زائل کرنے کے لئے کہ اس کا پس
منظر مسلمان کا ہے،اس لئے مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے،مسلمانوں کو
ذیادہ نقصان پہنچایا ۔
دوسری بات یہ کہ مشکلیں، آسانیوں کا راستہ دیتی ہیں ۔ یہ بات طے ہے کہ
کامیابیاں پگڈنڈیوں سے ہو کر آتی ہیں۔ رکاوٹیں انسانوں کو ،قدموں کو نئے
راستے تلاش کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں ۔اگر تجزیوں کو دیکھا جائے تو ٹرمپ
کی کامیابی گذشتہ پالیسیوں پر امریکیوں کا اظہار ِ ناپسندیدگی ہے۔ اور وہ
پہلو ذیادہ داخلی ہے نہ کہ خارجی۔امریکیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ امریکیوں کی
انفرادی اور مجموعی معاشی حالت بہتر بنانے کے لئے اہم کردار اداکرے گا ۔ جس
طرح امریکی عوام نے نیا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے بالکل اسی طرح
پاکستان کو عالمی سطح پر نئے دوست تلاش کرنے چاہیے۔ روس کا جھکاؤ کچھ
پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے بعد تعلقات میں بھی
مضبوطی اور وسعت آئے گی۔چینی سرمایہ کاری سے بین الاقوامی سرمایہ کاری بڑھے
گی ۔خبروں کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے در پردہ ٹرمپ کی کامیابی کی راہ بھی
ہموار کی ہے۔ ممکن ہے یہ خیال ہو کہ غیر سیاسی ٹرمپ سیاست میں بہتر فیصلے
نہ کر پائے اور روس کے توڑنے کا بدلہ ٹرمپ کے ذریعے لیا جا سکے۔سو پاکستان
روس کے ساتھ مل کر اپنی حیثیت منوا سکتا ہے۔
تیسری با ت یہ ہے کہ ایسا تو نہیں ہو گا کہ ٹرمپ نے آتے ہی پاکستان کے بارے
میں کوئی منفی فیصلہ ہی کرنا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے اعلانات کے برعکس اس
نے ابھی تک مجموعی طور پر مثبت رویہ ہی اپنایا ہے ۔ ہمیں نئے حالات میں
اپنی ایک ٹھوس اور مستحکم پالیسی بنا لینی چاہیے تاکہ آنے والے دنوں میں جب
اگر ہمیں ’’ ڈر مور ‘‘ کہا جائے تو تو مور کہنے کی پوزیشن میں ہوں ۔ہم نے
یہ کیوں سوچ لیا ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کو رگڑا لگانا ہے ۔پاکستان اﷲ کے
فضل سے اَب وہ پاکستان نہیں رہا ۔دہشت گردی کے خلاف بھر مہم اور بڑی حد تک
کامیابی نے ہمیں مضبوط کیا ہے ۔حکومت اور اپوزیشن سیاسی استحکام کے راستے
پر آجائیں تو مضبوط تر پاکستان تر نوالہ ثابت نہیں ہو گا۔
چوتھی اور اہم بات یہ ہے کہ میڈیا اور مبصرین خوف نہ پھیلائیں پاکستان ہے
تو سب کچھ ہے ۔جیسے ہی ٹرمپ کی کامیابی کا اعلان ہوا الیکٹرانک میڈیا پر
بیٹھے مبصرین نے خوف کی فضا پیدا کر دی ۔ بزدلوں اور خوفزدہ لوگوں سے کوئی
ہمدردی نہیں رکھتا ۔بہتر ہوتا مبصرین یہ بتاتے کہ اَب پاکستان کو کیا کرنا
چاہئے ؟ ۔ نئے حالات میں نئی سوچ پیدا ہونی چاہئے نہ کہ یہ سوچا جائے ایسا
ہو جاتا تو اچھا تھا ۔ یہ سوچنا ہے کہ اب کیسے اچھا کرنا ہے۔نیا زمانہ ہے ،
نئے صبح و شام کیسے پیدا کرنے ہیں ؟ تجزیوں ، تبصروں میں امریکہ اور ٹرمپ
کو یہ پیغام دیا جائے کہ جیو اور جینے دو ۔
اَمریکہ نے اَب ویسے بھی اکیلے بہت انجوائے کر لیا ہے ۔ چین ابھر کر سامنے
آگیا ہے۔روس خاموشی کے بعد پھر سر اٹھا رہا ہے۔ جس کو امریکہ اَب کچل نہیں
سکتا ۔چین راستے میں ہر آنے والی رکاوٹ دور کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔دنیا
پاکستان کی طرف بھی دیکھ رہی ہے ہمیں کسی بھی طرح خوفزہ نہیں ہونا چاہئے۔
امریکہ سے لڈو پہلے بھی نہیں مل رہے تھے،اب بھی نہیں ملیں گے تو مر نہیں
جائیں گے۔
ٹرمپ کو اپنا امریکہ چلانے دیں ،ہم اپنا پاکستان چلائیں گے۔انشا اﷲ |