پناما پیپرز اسکینڈل میں وزیر اعظم کی
فیملی کے نام آنے کے بعد سے شروع ہونے والی بحث ممکنہ حتمی انجام کی جانب
بڑھ رہی ہے کسی کو ہو یا نہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اسکا بھی کچھ نتیجہ
نہیں نکلے گا ۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے پناما پیپرز کی اسکروٹنی کی ذمہ داری
اٹھانے کی تعریف کی گئی ہے ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ بحران کو ٹالنے میں حصہ
بٹانے کی تعریف ہے یا قانوناً پہل کاری کی تعریف ہے ۔نامور قانون دانوں کی
جانب سے عدالت عظمیٰ کی پہل کاری اور آنے والے ریمارکس،ہر سماعت پر نئی
صورت حال کے تناظر میں عدلیہ کے قانونی کردار سے بڑھا ہوا کردار قرار دیا
جارہا ہے۔ عمران خان نے جشن تشکر منا کر عدالت پر پورے یقین کا اظہار کیا
تو پیپلز پارٹی کے قانون دان عدالت کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر رہے ہیں یہ
ممکن ہے کہ زبانی سے آگے بڑھ کر بھی آئندہ دنوں میں عدالت کے دائرہ سماعت
خاص طور پر تحقیقاتی ادارہ بننے کے عمل کو قانونی بنیادوں پرچیلنج کردیں ۔
پہلے دنوں کی نسبت عدالت کو بھی یہ احساس ہے کہ وہ جلد بازی میں قانون سے
ماورا قدم اٹھا کر کچھ غلط نہ کر جائے اس لیے وہ محتاط ہوگئی ہے۔اسکے
باوجود ایک دم پیچھے ہٹنا اس کیلئے بھی اب ممکن نہیں اس لیے کوئی درمیان کا
راستہ اختیار کرنے کے امکانات ہیں۔ ویسے یہ ایک خاص کیس ہے عوام سے اسکا
تعلق صرف اتنا ہی ہے کہ یہ میڈیا کشش کیس ہے جس میں کئی بڑوں کو زیر بحث
لایا جاتا رہا ہے اور ابھی مزید کئی دن لایا جاسکے گا۔ اگر انصاف کیلئے
عدالتی ذمہ داریوں اور اسکی ادائیگی کا جائزہ لیں تو سوائے مایوسی کے کچھ
برآمد نہیں ہورہا۔پناما کیس سے ایک بار پھر عدالت کروڑوں عوام کی نظروں میں
ہے ۔کیس کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن یہ سوال بغیر کسی توجیح کے عوام کے
سامنے رہے گا کہ خاص نوعیت کے مقدمات کے فیصلے تو جلد ہوجاتے ہیں لیکن غریب
صرف عدالتوں کے چکر ہی کاٹتا رہ جاتا ہے۔گذشتہ دنوں میں پھانسی کی سزا کے
بعد برعیت کا فیصلہ یا برسوں جیل میں گذارنے کے بعد باعزت بے قصور قرار
دینے والے فیصلے کسی طرح بھی عدالت کی نیک نامی کا باعث نہیں ہیں۔سابق چیف
جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے بعد سے ججز کے ریمارکس اخبارات و
الیکٹرونکس میدیا کی سرخیوں میں تو جگہ پاتے ہیں لیکن ریمارکس کی مناسبت سے
فیصلے نظر نہیں آتے ۔ وکلا کی اخلاقیات کا معیار بھی وہ نہیں جس کی تعریف
یا جسے قابل تقلید قرار دیا جائے ۔
پاکستان میں نظام انصاف پر کئی سوال موجود ہیں۔2007 میں شروع ہونے والی
وکلاء تحریک سابق چیف جسٹس کی اس ’’نا‘‘ سے شروع ہوئی تھی جو انہوں نے جنرل
پرویز مشرف کے سامنے کہا تھا ۔انکی اس ’’نا‘‘ نے ایک نئی تاریخ رقم کی ۔اسکے
بعد درست طور پر عدلیہ کو اسٹبلشمنٹ کے مقابلے پر اپنی طاقت کا احساس ہوا
لیکن اسکے جو فوائد عوام تک پہنچنا چاہیے تھے وہ اس سے آج بھی محروم
ہیں۔ہاں یہ ضرور ہوا کہ وکلاء کو ایک طاقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا اب
انکا کوئی احتجاج ایسا نہیں جو نظر انداز کیا جائے۔ہماری معاشرت میں طاقت
کی جتنی خرابیاں موجود ہیں انکا اظہار وکلاء نے بھی خوب کیا۔ سائل،پولیس،سے
لیکر ججز تک سب اس طاقت کا شکار ہوئے۔ وکلاء کو اپنے ضابطہ اخلاق کو بہتر
کرنے کی ضرورت ہے ۔حالیہ ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس نے تو بڑی ایمانداری
سے کچھ چیزوں کو قبول کیا اور وکلاء کی خامیوں کے ساتھ ججز میں کمزوریوں کی
بھی نشاندہی کی۔لیکن ا صل معاملہ حکومت اور عدلیہ کی جانب سے تاخیر کے
خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں عدم توجہ کا ہے ۔عدلیہ میں خاص طور پر
اعلیٰ عدلیہ میں کئی ایسے اقدامات کیے گئے ہیں جن سے نظام انصاف میں بہتری
آئی ہے اور آئندہ مذید بہتری کے امکانات ہیں مثلاً کیس دائر کرتے وقت نادرا
کی تصدیق جس سے جعلی کیس دائر کرنے کا راستہ بند ہوگیا،ارجنٹ ہیئرنگ کی
درخواست پر نادرا کی تصدیق جس کی وجہ سے سائل کی درخواست کیلئے رضامندی
لازمی ہوگئی،انٹرنیٹ پر Cause List کا اجراء،Cause List کا کمپیوٹرائزڈ کیا
جانا، مدعی اور ذمہ دار کو ایس۔ایم۔ایس پر تاریخ کی اطلاع ،سینارٹی وائز
کیسز کی نمبرنگ وغیرہ۔ لیکن بڑھتی آبادی اور عدالتی نظام پر عوام کے بڑھتے
اعتماد کی وجہ سے دائر کردہ کیسوں کی تعداد میں ہونے والے اضافے کے باوجود
عدالتوں کی مجموعی تعداد میں نا تو اضافہ کیا جاسکا اور نہ ہی اعلیٰ
عدالتوں میں ججز کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ سیاسی پارٹیوں نے الیکشن اصلاحات
پر جتنا زور دیا اگر اس سے آدھا بھی عدالتی سسٹم کی بہتری اور آبادی اور
کیسوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے انکی تعداد بڑھانے پر زور دیتیں تو
انصاف کی فراہمی کے انتہائی بنیادی ایجنڈے پر عمل کیا جاسکتا تھا ۔ آئینی
درخواستوں کی سالوں تاخیر کسی طرح بھی مناسب نہیں لیکن کیسوں کی بڑھتی
تعداد میں تمام تر کوشش کے باوجود یہ ممکن نہیں کہ جلد فیصلے کیے جاسکیں۔
لیکن جب سروس کے معاملات ہوں تو تاخیر ملازمین پر بڑی بھاری پڑتی ہے۔پھر یہ
بحث تو اب کافی عرصہ سے جاری ہے کہ ججز کی تعیناتی میں میرٹ متاثر ہورہی ہے
جسکا نتیجہ کیے جانے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔پچھلے چند سالوں میں
قانون کی تعلیم کو بہتر کرنے کی سنجیدہ کاوشیں کی گئی ہیں اسکے باوجود اب
بھی بہت سا کام باقی ہے ڈاکٹرز،انجینئرز اور دیگر پروفیشنلز کی طرح قانون
کی تعلیم بھی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔اس وقت وکلاء کی کثیر
تعداد اس دورانیہ میں ڈگری یافتہ ہے جب پارٹ ٹائم میں بھی لاء کی ڈگری حاصل
کرلی جاتی تھی ۔بار کی ممبر شپ بھی بار میں اپنے اپنے گروپس کو مضبوط کرنے
کیلئے دے دی جاتی تھی ۔ لیکن اب بہتری کی جانب سفر جاری ہے ۔خاص طور پر
بطور پرفیشن وکالت اختیار کرنے کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور کافی
تعداد میں باہر سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان جن میں خواتین کی
بھی کثیر تعداد شامل ہے اس پروفیشن میں شامل ہورہے ہیں
ہم سمجھتے ہیں کہ نچلی سطح کی عدالتوں میں بھی تیزی کے ساتھ اور دور رس
تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے اور اسکے لیے اعلیٰ
عدلیہ پر زیادہ ذمہ داری ہے سیاسی پارٹیوں اور حکومت کو انصاف کو سستا اور
سہل کے ساتھ فوری بنانے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ آج کے انصاف کی طرح یہ
جامد ہی رہے گا اور عوام داد رسی سے محروم ہی رہیں گے۔عدالت عوام کا وہ
اعتماد حاصل نہیں کر پائے گی جسکا تقاضہ وہ حکمرانوں سے کرتی نظر آتی ہے۔ |