آخر یہ سیاسی ٹوپی ڈرامے کب تک چلیں گے !

پاکستان کی سیاست میں ٹوپی ڈرامے ہونا کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستانی قوم برسوں سے اپنے سیاسی لیڈروں کے نت نئے سیاسی بیانات ،موقف اورگرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے سیاسی ٹوپی ڈرامے دیکھتی چلی آرہی ہے لیکن گزشتہ چند ما ہ کے اندر ان سیاسی ڈراموں میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے وہ اس قدر حیرت انگیز اور عجیب وغریب ہے کہ لوگوں کو اپنی دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں پر بھی یقین باقی نہیں رہاکہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انہیں جو دکھایا اور سنایا جارہا ہے وہ کس حد تک صحیح یا غلط ہے کہ پاکستانی معاشرے میں سچ اور جھوٹ کا پرچار اس شدت سے کیا جانے لگا ہے کہ ایک عام آدمی کے لیے یہ کام نہایت مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس سیاست دان کی بات کو سچ سمجھے اور کس سیاستدان کی بات کو غلط ؟ پاکستان کی سادہ لوح عوام جوایک طویل عرصے سے مختلف سیاسی جماعتوں کی سیاسی قلابازیوں اورنت نئے ٹوپی ڈراموں کوجھیلتی آرہی تھی اس کے لیئے گزشتہ 8 ماہ کے دوران ملکی اور خاص طور پر کراچی کی سیاست میں انتہائی چونکا دینے والی حیرت انگیز سیاسی تبدیلیوں نے جو غیر یقینی کی فضا پیدا کردی ہے اس کے بعد ایسا لگتا ہے کہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں لوگوں کے لیئے کسی بھی شخصیت یا پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا ۔

ایک سیاست وہ تھی جو بانی ء پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے برسوں پہلے مسلمانوں کے لیئے ایک آزاد مسلمان ریاست حاصل کرنے کے لیئے دینی اور قومی جذبے سے سرشار ہوکر کی تھی جس کے نتیجے میں اﷲ تعالی نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ آزاد ملک’’ پاکستان‘‘ کی صورت میں عطا فرمایا جس میں آج ہم اور آپ پوری مذہبی اور معاشرتی آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں اور ایک سیاست وہ ہے جو آج کل کے کچھ نام نہاد سیاست دان کررہے ہیں جسے اگر ہم مفاد پرستی اور منافقت کا شرمناک مظاہرہ قرار دیں تو بے جا نہ ہوگا ۔

شرم ، حیا ء اور غیرت بھی کوئی چیز ہوتی ہے جو آج کل کے اکثر سیاستدانوں میں ناپید نظر آتی ہے جبکہ بعض سیاستدانوں کی نظروں میں ذاتی مفاد ،سرکاری عہدے اور مراعات کی اہمیت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ انہیں اخلاقی اور معاشرتی روایات کا بھی پاس نہیں رہا اور نہ ہی یہ لوگ اپنے ضمیر کی آواز کو سننے کی زحمت گوارا کرتے ہیں ،شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کی آخری کتاب قران مجید میں کہا گیا ہے کہ:’’ یہ وہ لوگ ہیں( بداعمالیوں کی وجہ سے) گمراہی جن کا مقدر بن گئی ہے، یہ اندھے نہیں ہیں لیکن ان کو دکھائی نہیں دیتا ،یہ بہرے نہیں ہیں لیکن ان کو سنائی نہیں دیتا ‘‘۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے مفاد پرست لوگوں کو سچ اور حق پر مبنی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سچائی کے راستے پر چلنے میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں ان کو یہ عیش و عشرت کے دلدادہ لوگ بھلا کیسے برداشت کرسکتے ہیں ۔

سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ اگر کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر یا ورکر کو اپنی سیاسی پارٹی کے بانی اور قائد سے کسی معاملے میں اختلاف ہے یا اس پارٹی کا بانی وقائداگر ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عوام ،حکومت اور قانون کی نظر میں ملزم یا مجرم ٹہرایا جاتا ہے تو ایسے بانی و قائدسے جان چھڑانے کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ پارٹی قائد سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے بعد یا تو عامر لیاقت کی طرح سیاست کو خیرباد کہہ دیا جائے یا پھر مصطفی کمال کی طرح اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کرکے عوام کی عدالت سے رجوع کیا جائے اور تیسرا راستہ یہ بھی ہے کہ ایک پارٹی کو چھوڑ کر جانے والا لیڈر یا ورکر کسی دوسری سیاسی پارٹی کو جوائن کرلے جیسا کہ شاہ محمود قریشی نے پیپلز پارٹی سے علیحدگی اخیتار کرنے کے بعد عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی،لیکن الطاف حسین کی قائم کردہ لسانی جماعت ایم کیوایم کے پاکستان میں موجوداکثر رہنماجو گزشتہ 35 سالوں سے ایم کیو ایم کے بانی وقائد الطاف حسین کے مہاجر ازم کے فلسفے کے تحت عوام سے ووٹ لے کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں اور کراچی و حیدرآباد کی شہری انتظامیہ میں وزارتوں اور اعلیٰ انتظامی اور حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر اقتدار اور اس سے منسلک ان گنت مراعات کے مزے لوٹتے رہے انہوں نے اپنی پارٹی کے بانی و قائد پر برا وقت آتے ہی طوطا چشمی کی بد ترین مثال قائم کرتے ہوئے سیاست میں رائج مروجہ تمام سیاسی اور اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر جس بے شرمی کے ساتھ پہلے اپنی پارٹی کے بانی وقائد سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور اس کے بعد مفاد پرستی اور ابن الوقتی کی شرمناک مثال بن کر جس طرح اپنی جانیں ،سرکاری عہدے اور مراعات بچانے کے لیئے اپنے پارٹی کے بانی وقائد الطاف حسین کو ان ہی کی بنائی ہوئی پارٹی سے باہر نکالا اور پھر جس ڈھٹائی کے ساتھ سندھ اسمبلی میں اپنی ہی پارٹی کے بانی وقائد الطاف حسین کو پاکستان کا غدار قرار دیتے ہوئے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے اسے دیگر پارٹیوں کی حمایت کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کروایا وہ شاید دنیا میں سیاسی ابن الوقتی اور طوطا چشمی کی پہلی اور آخری مثال ہوکہ سیاست کرنے کے بھی کچھ آداب اور روایات ہوتی ہیں جن کا احترام کرکے سیاستدان عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں لیکن افسوس ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود رہنماؤں نے ایم کیو ایم کے نام میں پاکستان کے لفظ کا اضافہ کرکے فاروق ستار کی سربراہی میں جس طرح الطاف حسین اور ان کے ساتھ لندن میں موجود ایم کیوایم کے دیگر رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے اپنی پارٹی سے فارغ کرکے اپنی جانیں ،سرکاری عہدے ،مراعات کو بچانے کے لیئے الطاف حسین کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے اس سے ایم کیوایم کی مقبولیت کا گراف بلند ہونے کی بجائے پستیوں کی نچلی سطح پرآگیا ہے جس کا احساس ایم کیو ایم(پاکستان ) کی کراچی میں موجودقیادت اور ان کا ساتھ دینے والوں کو ابھی نہیں بلکہ 2018 کے عام انتخابات کے نتائج دیکھ کر ہوگا۔

جو لوگ ایم کیو ایم کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایم کیو ایم کی ساری سیاست چند ماہ پہلے تک جیئے الطاف ،جیئے مہاجر اور جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے جیسے نعروں کے گرد گھوم رہی تھی اور ان کا سیاسی ریکارڈ بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے الطاف حسین سے غداری کرنے والے کسی بھی فرد کو کبھی معاف نہیں کیا اور جس کسی نے الطاف حسین یا ایم کیو ایم سے اختلاف کرتے ہوئے پارٹی سے علیحدگی اختیارکرنے کی کوشش کی اسے غدار قرار دے کر جلد یا بدیر موت کا پروانہ تھما دیا گیا جبکہ ایم کیو ایم کے موقع کے لحاظ سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے طرز سیاست کا بھی سب کو علم ہے کہ لسانی بنیادوں پر بنائی جانے والی ا س پارٹی نے ضرورت پڑنے پر اپنی پارٹی کا نام ایم کیو ایم سے بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھا اور اب ایک بارپھر بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر انہوں نے ایم کیو ایم کو ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے تقسیم کردیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس تقسیم کو بھی یہ دونوں گروپ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ،دونوں گروپ خود کو بااختیار ثابت کرنے کے لیئے ایک دوسرے کو ایم کیو ایم سے نکال کر ایک عجیب طرح کی سیاسی کنفیوژن پیدا کررہے ہیں جس سے ان کا ووٹر بھی تقسیم ہوگیا ہے ،کہا جاتاہے کہ ایم کیوایم پاکستان جس کی قیادت فاروق ستار کررہے ہیں انہیں ایم کیو ایم کے سیاسی اور حکومتی سیٹ اپ پر کنٹرول حاصل ہوگیا ہے جبکہ ایم کیو ایم لندن جس کی قیادت الطاف حسین اور ان کے قریبی ساتھی ندیم نصرت ،واسع جلیل ،مصطفی عزیزآباد ی اور چند دیگر رہنما کررہے ہیں انہیں ایم کیو ایم کے تنظیمی سیٹ اپ پر کنٹرول حاصل ہے یہی وجہ ہے ایم کیو ایم لندن کی جانب سے ایم کیو ایم کے تنظیمی سیٹ اپ کے ذمہ داروں کو فاروق ستار گروپ سے دور رہنے اور ان کے احکامات پر عمل نہ کرنے کے بیانات دیئے جارہے ہیں۔

کسی پارٹی کے بانی وقائد کو اس کی بنائی ہوئی پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرنا کچھ ایسا ہی ہے جیسے کوئی بیٹا اپنے باپ سے ناراض ہوکر یا شدیداختلافات کی وجہ سے یہ اعلان کردے کہ آج سے میرا باپ، میرا باپ نہیں ہے اور دوسری جانب سے باپ بیٹے سے ناراض ہوکر یہ اعلان کردے کہ آج سے میرا بیٹا ،میرا بیٹا نہیں ہے ،معاشرتی ،اخلاقی ،شرعی اور قانونی لحاظ سے کوئی بیٹا اپنے باپ کے بارے میں یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ میرا باپ نہیں ہے اور نہ ہی کسی باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے بارے میں یہ کہے کہ وہ میرا بیٹا نہیں ہے یہ وہ رشتہ ہے جو ایک بار قائم ہوجائے تو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا ،اختلاف کی صورت میں ولدیت نہیں بدلی جاتی بلکہ باپ کا گھر چھوڑ دیا جاتا ہے لہذا مروجہ سیاسی اور اخلاقی رویات کے مطابق ایم کیو ایم کو اپنی پارٹی کے بانی و قائد کوپارٹی سے نکالنے کا حق ہی نہیں ہے لہذا وہ جو کچھ آج کل کہہ رہی ہے یا عملی طور پر کررہی ہے اس کی کیا اخلاقی ،شرعی اور قانونی اہمیت ہوسکتی ہے اس کااندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔اگر کسی سیاسی پارٹی کا بانی وقائد ملک دشمنی میں ملوث ہونے کی وجہ سے غدار ٹہرایا جائے تب بھی اسے اس کی ہی بنائی ہوئی پارٹی سے نکالے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا ،اگرپارٹی کا بانی وقائد غدار وطن ہے تو اسے قانون کے مطابق سزا ضرور ملنی چاہیئے لیکن اس کی پارٹی کے کسی بھی رہنما کو یہ حق نہیں کہ وہ اسے پارٹی سے نکال باہر کرے جیساکہ فاروق ستار نے الطاف حسین کو پارٹی سے نکال کر کیا ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے اس نئے ٹوپی ڈرامے نے ایم کیو ایم کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے جس کا خمیازہ ایم کیو ایم کو آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں بھگتنا پڑے گا کہ اب کراچی کے اردو بولنے والوں کو مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کی صورت میں ایم کیوایم کا ایک بہترین متبادل مل گیا ہے جس کی سیاست کا محور ومرکز پاکستان اور پاکستانیت ہے لہذا لسانی سیاست کے تباہ کن اثرات سے تنگ آئے ہوئے کراچی کے باشندوں نے اگر اگلے الیکشن میں لسانی تعصب سے باہر آتے ہوئے آنکھیں کھول کر ووٹ دینے کا فیصلہ کرلیا توپاک سرزمین پارٹی کی کامیابی کی صورت میں ایم کیو ایم کو بہت بڑی سیاسی ناکامی سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔

22 ،اگست کو الطاف حسین نے کراچی میں کی جانے والی اپنی تقریر میں پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر ایم کیو ایم پر جو خود کش حملہ کیا تھا اس سے اپنی جان بچانے کے لیئے فاروق ستار نے جو راستہ اختیار کیا اسے وقتی ضرورت کے تحت عارضی طور پر تو قبول کیئے جانے کی شاید گنجائش نکل آئے کہ اس کے علاوہ فاروق ستار کے پاس صرف ایک ہی آپشن باقی تھا کہ وہ ایم کیو ایم چھوڑ کر اور حکومتی عہدوں اور مراعات کو لات مار کر باہر آتے اور کسی نئے نام سے اپنی الگ سیاسی جماعت بنا کر عوام کی عدالت میں خود کو پیش کرتے لیکن چونکہ یہ راستہ ان لوگوں کے تمام عیش وآرام اور سہولتوں کا خاتمہ کردیتا اس لیئے فاروق ستار اینڈ کمپنی نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیئے اپنی پارٹی کے بانی وقائد اورلندن میں موجود اپنے دیگر ساتھیوں کو ہی پارٹی سے نکال باہر کیا جو کہ ایم کیو ایم کی اس پالیسی کا واضح ثبوت ہے کہ ’’ جو پکڑا جائے وہ ایم کیو ایم کا رہنما اور کارکن نہیں ہے’’۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم نے اپنی پارٹی کے سینکڑوں ورکروں اور کئی وفادارلیڈرز کے پکڑے جانے پربھی یہ اعلان کیا کہ مذکورہ پکڑے گئے افراد کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کی سب سے بڑی مثال ایم کیو ایم کا ایک بڑا اور وفادار ورکر صولت مرزا تھا جس کے پکڑے جانے پر ایم کیوایم کی لیڈرشپ نے اس طرح آنکھیں پھیریں کہ خود صولت مرزا کو اپنی پارٹی کے قائد کے خلاف ویڈیو پیغام دینا پڑا جس میں اس نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں بہت سے پوشیدہ حقائق کو پہلی بار عوام کے سامنے پیش کیا۔

صولت مرز ا کا ویڈیو بیان ایم کیو ایم کی کشتی میں سوراخ کرنے والا پہلا پتھر تھا جس کے کچھ عرصہ بعد 3 مارچ 2016 کومصطفی کمال نے کراچی واپس آکر جس طرح سے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ملک دشمنی اور پاکستان مخالف ملک بھارت سے دہشت گردی تربیت حاصل کرنے اور پارٹی کو چلانے کے لیے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے فنڈ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے علیحدگی کا اعلان کیا اورپھر اپنی ایک نئی ملک گیر سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی قائم کرکے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی اندورنی باتوں کو میڈیا کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچانا شروع کیا اس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی کشتی میں اس بری طرح سے سوراخ ہوگئے کہ وہ ایک سوراخ بند کرنے کی کوشش کرتے تو چار سوراخ اور ہوجاتے تھے اور بالآخرایم کیو ایم کی بھنور میں پھنسی ہوئی کشتی کا بیڑہ غرق کرنے کاسہرا ایم کیو ایم کے بانی وقائد الطاف حسین نے 22 ،اگست کو پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگا کر اپنے سر باندھ لیا لیکن کراچی میں موجود الطاف حسین کے کئی پرانے ساتھی جو الطاف حسین کے ہر جرم میں شریک رہے اور الطاف حسین کے نام پر لیئے گئے عوامی مینڈیٹ کی وجہ سے بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے وہ بھی ایم کیو ایم کے بانی کے اپنی ہی پارٹی پر خود کش حملے کے اثرات سے خود کو نہیں بچاسکے اور اس سے پہلے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ایم کیو ایم کے کراچی میں موجود رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالتے اور ایم کیو ایم پر پابندی لگا دی جاتی ،ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فاروق ستار نے مختلف سیاسی چالیں چل کر ایم کیو ایم کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کے لیئے سیاسی ٹوپی ڈراموں کی ایسی حیرت انگیز ڈرامہ سیریل پیش کی کہ دیکھنے اور سننے والے ہکا بکا رہ گئے۔

ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم نے کراچی میں سیاسی غیر یقینی کی ایک ایسی فضا ء تیار کردی ہے کہ کراچی کی اردو بولنے والی کمیونٹی کے لیئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے کہ وہ اردوبولنے والوں کی نمائندگی کرنے والی کس جماعت کا ساتھ دیں اور کس کا ساتھ نہ دیں۔فاروق ستار نے کراچی میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت کو برقرار رکھنے اور ایم کیو ایم پر متوقع پابندی لگائے جانے کے امکان کی وجہ سے ایک کامیاب سیاسی چال چلی لیکن ساتھ ہی انہو ں نے اپنے ہی دیے ہوئے گزشتہ تمام بیانات کی نفی بھی کردی کہ چند ہفتے قبل تک وہ اور ان کے سیاسی ساتھی مائنس الطاف فارمولے کو قبول نہ کرنے اور الطاف حسین کونہ صرف اپنامتفقہ قائد مانتے ہوئے اسے پیر کا درجہ دے رہے تھے لیکن جوں ہی الطاف حسین رنگے ہاتھوں پکڑا گیا انہوں نے اپنی سابقہ سیاسی روایات کے عین مطابق اپنی پارٹی کے بانی و قائد الطاف حسین نے اظہار لاتعلقی اور علیحدگی کا اعلان کرڈالا اور الطاف حسین کے نام پر لیئے گئے عوامی مینڈیٹ کو اپنا مینڈیٹ قراردیتے ہوئے بلدیاتی، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستوں سے مستعفی ہونے سے بھی انکار کردیا ۔

جبکہ ایم کیو ایم لندن کے رہنماؤں خاص طور پر ندیم نصرت کا کہنا ہے کہ:’’ کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم کو ووٹ دے کر جو مینڈیٹ دیا تھا وہ الطاف حسین کے نام پر دیا گیا تھا کہ الطاف حسین نے ہی مہاجروں کی شناخت دی تھی لہذا ایم کیو ایم کراچی کے تمام رہنماؤں کو اپنے پارٹی اور حکوتی عہدوں اور وزارتوں سے استعفٰی دے کر عوا م کی عدالت سے رجوع کرنا چاہیئے ‘‘۔

ایم کیو ایم لندن کی جانب سے جاری کردہ بیانات سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی لندن میں موجود سینئر قیادت کو ایم کیو ایم کے بانی اور قائد الطاف حسین کو ایم کیو ایم( پاکستان) فاروق ستار گروپ کی جانب سے پارٹی سے نکالا جاناکسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگاہے کہ کل تک خود ایم کیو ایم ،مصطفی کمال پر یہ کہ کر تنقید کرتی رہی ہے کہ جس کا باپ ایک اس کا قائد ایک ۔اب اگر سیاسی ضرورتوں کی وجہ سے ایم کیو ایم کے کراچی میں موجود رہنماؤں کو اپنے بانی اور قائد کی ضرورت باقی نہیں رہی تو وہ مصطفی کمال کی طرح ایم کیو ایم کو چھوڑ کر اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنا کر انتخابی سیاست میں حصہ لیں پھر خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کراچی کے لوگ کس پارٹی کو اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب کرکے اسمبلیو ں میں بھیجتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے پاس موجودہ مینڈیٹ یقینا الطاف حسین کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لہذا فاروق ستار اینڈ کمپنی کو مینڈیٹ مینڈیٹ کا شور مچا کر سرکاری عہدوں سے چمٹے رہنے کی بجائے وزارتوں اور اسمبلیوں کی رکنیت سے استعفے دے کر مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیئے دوبارہ کراچی کے عوام سے رجوع کرنا چاہیئے کہ سیاست میں ان ہی سیاستدانوں کا نام عزت سے لیا جاتا ہے جو اصولوں کی سیاست کرتے ہیں مفاد پرست سیاستدانوں کی سیاسی عمر بہت کم ہوتی ہے اور و ہ اپنی ابن الوقتی اورہٹ دھرمی کی سیاست کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کی نظروں سے گر کر دلوں سے اتر جاتے ہیں۔اور بقول شاعر۔ جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتحہ زمانہ ۔ !

ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لند ن کی جانب سے شروع کیے جانے والے ٹوپی ڈراموں کی سیریز کی تازہ ترین قسط بھی گزشتہ روز جاری کردی گئی جس کے مطابق ایم کیو ایم کے بانی و قائد الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے سینئر رہنما ندیم نصرت کو پارٹی کی کمانڈ سونپ دی ہے جبکہ ساتھ ہی الطاف حسین نے ندیم نصرت کو ایک نئی ایم کیو ایم بنانے کا ٹاسک بھی دے دیا ہے۔یعنی ایم کیو ایم کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا ،کوئی وہاں گرا ۔۔۔ اب کوئی بتائے کہ ہم بتلائیں کیا ! پتہ نہیں ایم کیو ایم کیا نیا سیاسی گیم کھیل رہی ہے کہ اس کے رنگ بلدتے ہوئے سیاسی ٹوپی ڈرامے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ سیاستدان پاکستانی عوام کو اتنا بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں اور یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ہمارے عوام اپنے سیاستدانوں کی حرکتوں اور کرتوتوں سے واقف ہونے کے بعد بھی ہر بار آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو ہی ووٹ دے کر دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع کیوں دیتے ہیں۔

اپنی جانیں اور پارٹی بچانے کے لیئے نت نئے سیاسی ٹوپی ڈرامے کرنا،اپنی ہی پارٹی کے بانی وقائد کو پارٹی سے نکالنا ،جھنڈے سے جیئے الطاف اور جیئے مہاجر کے نعرے مٹا کر پتنگ کوپارٹی جھنڈے کا حصہ بنادینا ،پارٹی کے آئین میں تبدیلی کرکے الطاف حسین اور ندیم نصرت کا نام پارٹی رہنماؤں کی فہرست سے نکالنا ،الطاف حسین کے ساتھ 35 سال تک سیاست کرکے اقتدار کے مزے لوٹنا ،الطاف حسین کی وجہ سے ملنے والے مینڈیٹ سے چمٹے رہنا تاکہ اقتدار برقرار رہے جیسے اقدامات نے ایم کیو ایم اور خاص طور پر فاروق ستار کی سیاسی ساکھ او ر قد کاٹھ کا جو بیڑہ غرق کیا ہے ا س کے نتائج کچھ عرصہ میں سامنے آنا شروع ہوجائیں گے کہ کم سے کم ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے ،پاک فوج اور پاک رینجرز کے افسران اور جوان ان سیاسی ٹوپی ڈراموں کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں اور بہت زیادہ دیر تک سیاسی مصلحت پسندی ان مقتدر حلقوں سے برداشت نہیں ہوگی اور آخر کار قانون ایک بار پھر حرکت میں آکر اچھے اور برے لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے مطابق ان کے اصلی ٹھکانوں تک دم پہنچا کر دم لے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایم کیو ایم فاروق ستار گروپ سیاسی اور اخلاقی روایات کا پاس کرتے ہوئے الطاف حسین کی قائم کردہ ایم کیو ایم کو چھوڑ کرعوام کی عدالت میں جاکر نیک نامی کمانے کا فیصلہ کرتا ہے یا پھر وقتی فائدوں کے حصول کے لیئے مفاد پرستی پر مبنی ابن الوقتی کی سیاست کرکے اپنی کمیونٹی کی نظروں سے گرنے کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی دیوارکے ملبے کے نیچے دب کر مرنا پسند کرتا ہے کہ مصطفی کمال تو گزشتہ 6 ماہ سے یہی بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ فاروق بھائی اپنے لوگوں سے سچ بولو ،ٹوپی ڈرامے بند کرو،سیاسی تماشے وقتی طور پر آپ کی قیادت اور پارٹی کو بچا سکتے ہیں لیکن جلد یا بدیر رسوائی اور تباہی ایسے لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی سچ نہیں بولتے اور اپنی جھوٹی باتوں کو سچ ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔

ان سارے سیاسی تماشوں سے تنگ آئے ہوئے پاکستان کے عوام اپنے ملک کے مقتدر حلقوں سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر یہ سیاسی ٹوپی ڈرامے کب تک چلیں گے اور وہ وقت کب آئے گا جب انہیں بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح جیسا سچا پاکستانی لیڈر نصیب ہوگا جو ذاتی مفاد او سیاسی مصلحتوں پر ملکی مفاد کو ترجیح دے کر اس ملک کے غریب عوام کی تقدیر بدلے گا ؟۔
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 142443 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More