مودی کی جنونیت اور امریکی بے رخی کا جواب

مودی کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کا تسلسل ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ ہر نیا دن ایک نئی مہم جوئی سے شروع ہوتا ہے۔ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج بارود کی مسلسل بارش کررہی ہے۔ گزشتہ روز بھمبر سیکٹر میں پاک فوج کے سات جوان شہید ہوگئے۔ پاک فوج بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے رہی ہے۔سرحدوں پر کشیدگی کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی محاذ بھی گرم ہے۔ بھارت نے یہاں بھی پہل کرتے ہوئے پاکستان کے ایک سفارت کار پر جاسوسی کاالزام لگا کر اسے پاکستان واپس جانے کو کہا تھا۔ پاکستان نے بھی بھارتی سفارتکاروں کے خلاف جاسوسی اور منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بناء پر انہیں دیس نکالا دے دیا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیاء میں مودی کی جنونی سوچ کی بناء پر جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں ۔

مودی کے اس جارحانہ رویے کی تان کہاں ٹوٹے گی،خود بھارتی خواص و عام بھی اس سے ناواقف ہیں۔ بھارتی تجزیہ نگار گو کہ اپنی سرکارکی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں، مگر اب وہ بھی مودی کی شدت پسندی پر نقطہ چینی کرنے لگے ہیں۔ بھارتی فوجی قیادت بھی تذبذب اور دباؤ کا شکار ہے۔ مودی کی گیڈر بھبکیوں کو پاکستان تو خاطر میں نہ لایا تاہم بھارتی فوج کی ٹانگیں ضرور کانپنا شروع ہوگئیں۔ وہ پہلے ہی افواج پاکستان کے مقابلے میں استعداد ، صلاحیت اور تیاری کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں۔ مودی کی جانب سے جنگ کے آپشن پر جب اس کی کمزوریاں اور نااہلیاں ابھر کر سامنے آئیں تو خود بھارتی عوام اور میڈیا اس سفید ہاتھی پر انگلیاں اٹھانے لگے۔ بھارتی فوج لمبے عرصے سے مظلوم کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے ظلم وستم کا ہر حربہ استعمال کررہی ہے تاہم اس دفعہ تونہتے کشمیریوں نے بھی ان کے ظلم و جبر کوقبول کرنے سے انکار کرکے تحریک آزادی کو نئے جوش و ولولہ عطا کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی اسی صورتحال نے مودی سرکارکو پاکستان پر حملے کی دھمکیوں، کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزیوں، سفارتی آداب کے منافی حرکتوں پر مجبور کیا ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس معاملے سے ہٹ جائے۔

حیرانی کی بات یہ کہ دنیا دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی پر تشویش کا اظہار تو کرتی ہے تاہم اس کی بنیادی وجہ یعنی مسئلہ کشمیر کو مسلسل نظر انداز کرتی چلی آرہی ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ٹھیکیدار اس حوالے سے اپنا منہ کھولنے سے گریزاں ہیں۔ وہ اُڑی حملے کی مذمت تو ضرور کرتے ہیں تاہم پاکستان میں ہونے والی بھارتی دہشت گردی پرچپ سادھے ہوئے ہیں۔بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ خضدار میں شاہ نورانی دربار پر ہونے والا خود کش حملہ’’ اجیت دوول پالیسی‘‘ کا شاخسانہ ہے۔مگر دنیانے ایسے گھناؤنے واقعات کا کوئی خاطر خواہ نوٹس لیا ہے نہ بھارت پر کسی قسم کا دباؤ ڈالا ہے۔عجب اتفاق ہے کہ اس حملے کے دوران ہی اسرائیلی صدر یووین ریولین نئی دہلی وارد ہوئے ۔ مودی اور اسرائیلی صدر نے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے پاکستان پر دہشت گردی پھیلانے کا الزام تھوپ دیا۔

دنیا میں دہشت گردی کا موجب بننے والی دونوں ریاستوں کا یہ مضحکہ خیزالزام ایک طرف ان کی ڈھٹائی کو ظاہر کررہا ہے تو دوسری طرف اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کی بے حسی اور بے رخی کی عکاسی کررہا ہے۔دونوں ممالک نے عرصہ دراز سے کشمیر اور فلسطین پر خونیں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ دونوں کا دہشت گردی کے محرکات پر رونا، مگر مچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کشمیری اور فلسطین مسئلہ حل ہو جائے تو دنیا میں بڑی حد تک امن قائم ہو جائے۔ مگرافسوس تمام حقائق کے باوجود دنیا دورخی کا شکار ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں کسی سے کوئی بھی توقع رکھنا بیکار ہے۔ امریکہ سمیت بہت سے طاقتور ممالک دہشت گردی کی آڑ میں مسلمان ممالک کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل اسی آڑ میں ایک طرف کشمیر اور فلسطین پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں تو دوسری طرف پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو دہشت گردی کے چکر میں الجھا کر کمزور کررہے ہیں۔عالمی طاقتوں اور اداروں کی اس خودغرضی اور بے حسی کے پیش نظر پاکستان کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں تمام مفروضوں، خوش فہمیوں سے نکل کر اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ بھارت کے علاوہ بھی بہت سی قوتیں ہماری سالمیت کے درپے ہیں۔ہمیں اپنے حلیفوں پر بھی ایک حد تک اعتماد رکھنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بنیادیں ایک دوسرے کے تعاون پر مبنی ہیں۔ کوئی ملک بلاوجہ کسی کی حمایت اور تعاون نہیں کرتا۔ اپنے اپنے مفادات ہی تعلقات کی بنیاد ہوتے ہیں۔ دوستی، تعاون اشتراک کا فروغ انتہائی ناگزیر ہے تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کے پیش نظر یہ ممالک آپ سے تعاون کا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔A bird in the hand is worth two in the bush کے مصداق ہمارے اپنے وسائل اور صلاحیتیں ہی قابل بھروسہ ہیں۔ اس لیے اپنی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانا ہے تو ہمیں اپنے حلیفوں پر بھی ایک حد تک ہی اعتماد کرنا چاہئے۔ کوئی آپ کے دفاع کی گارنٹی بن سکتا ہے نہ سلامتی کا ضامن ہوسکتا ہے۔ امریکہ پاکستان تعلقات اس حوالے سے بڑی مثال ہیں۔ ہم نے امریکی مفادات کے لیے بہت کچھ کیا لیکن جب ہمیں حقیقی معنوں میں اس کی ضرورت پڑی تو وہ ہمارے مسائل سے لاتعلق ہوگیا۔

اس طرح مودی کی جنونیت، امریکہ کی بے رخی نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ خود انحصاری ہی ہمارے دفاع کی ضمانت ہے۔ ہم نے فوجی لحاظ سے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔ اس سے ہمیں اعتماد حاصل ہوا ہے۔ آج اگرہم بھارت کی گیڈر بھبکیوں کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں تو وہ ہماری اسی صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ ہماری ایٹمی قوت ، اسلحہ سازی اورتیاری نے نہ صرف بیرونی جارحیت کو روک رکھا ہے بلکہ ہمیں وقار اور اعتماد بخشا ہے۔ہوسکتا ہے کہ کل مودی پھر پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بات کرے، امریکہ پھر سے ہمیں ’’ناگزیر‘‘ اتحادی کا لقب دے ڈالے۔ مگر ہم نے جو تازہ سبق سیکھے ہیں انہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں نہ صرف دفاعی لحاظ سے بلکہ تجارتی، سیاسی اور سفارتی محاذوں پر فتح حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہی مودی کی جنونیت اور امریکی بے رخی کا جواب ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 62856 views Columnist/Journalist.. View More