قسم لے لیجئے آپ کے "آئیڈیاز "سے ہمیں کوئی بغص نہیں لیکن صاحب
ذرا اور" آئیڈیے "لگایئے کہ آخر دو کروڑ آبادی والے اس شہر میں جہاں ہر سال چاپانی
اور چینی گاڑیاں بناء کسی حساب کتاب کے درآمد ہوتیں ہیں،جہاں آسان اقساط پر بنکوں
سے گاڑی نکلوانا آسان سے آسان تر ہوتا جارہا ہے،ایک ایسا شہر جہاں ٹریفک حادثات کی
شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ،وہاں آپ کے" آئیڈیے" کی وجہ سے جو سڑکیں جام کی گئی
ہیں اُس کے لیے کیا کیا جائے!
ہاں 2018 میں گرین بس کا لولی پوپ تو کراچی کے عوام کو دے دیاگیا ہے لیکن یہ لولی
پوپ بھی لیاری ایکسپریس وے کی طرح ہی کئی سالوں سے بس آنکھوں میں بسنے والا خواب بن
کر ہی نا رہ جائے۔نواز شریف حکومت نے 2018 کی بھی خوب کہی ۔اب یہ حکومت اس سال تک
قائم رکھنے کا خواب ہے یا گرین بس کا یہ تو خدا ہی جانتاہے ابھی تو سرکار دلی بہت
دور ہے۔۔۔
امید سے زیادہ اب لب پہ دُعا ہی ہے کہ یا اﷲ !بال والے ہوں حکومت میں یا بال بغیر
کے بس کراچی میں اب تو گرین بس کا منصوبہ کامیاب ہو ہی جائے ۔
ہاں تو ہم بات کر رہے تھے "آئیڈیا "والے بھائی سے تو "آئیڈیے "والے بھائی اپنے بوٹ
چمکانے والوں سے ہی کچھ" آئیڈیا "مانگ لوکہ اگر اگلی دفعہ پھر یہ" آئیڈیے "والی
نمائش لگانی پڑی تو کراچی کے وہ عوام جو یہاں کہ پکے پکے بلکہ پکے پکائے شہرہی ہیں
ان کی آمد و رفت کا کیا ہووے گا۔ہم مانتے ہیں کہ بوٹ چمکانے والوں نے سات ستارے
والے اور پانچ ستارے والے ہوٹلوں میں دنیا بھر سے آنے والے معزز مہمانوں کو بہت
سکون سے رکھنے کا صحیح صحیح عمدہ عمدہ زبردست زبرست بہترین بہترین انتظام کیا ہوا
ہے ۔لیکن کراچی کے عوام نا سات ستارے کو جانتے ہیں نا پانچ ستاروں کو یہ تو فقط سبز
ستارہ ہی کو جاتنے ہیں سو تھوڑااور سبز ستارہ کی آگاہی ہی دے تو انہیں نا آبادی
ہوگئی نا مسائل کی کمی کا رونا۔
کوئی صبح سویرے اپنی نوکری پر نکلا ہے تو کوئی اپنے کاروبار کی روزی کو حلال کرنے ،کوئی
اپنی دوکان کی طرف لپکا ہے تو کوئی ڈاکٹر مریضوں کی فکر میں ہسپتالوں کی طرف دوڑا
ہے، کسی نے آج اپنے خون کی صفائی کی لیے ہسپتال سے وقت لیا ہوا ہے تو کوئی مریض
دنیا سے بے خبر ایمولنس میں زندگی اور موت کے درمیاں جھول رہا ہے۔کوئی پڑھنے کے لیے
یونیورسٹی بھاگا،تو کوئی اسکول کی گاڑی بچوں کو اسکول پہچانے کے لیے ہارن پر ہارن
دے رہی ہے ہا ں اور لوگ بھی نظر آرہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جوموٹر بائیک پر اپنے بچوں
کو اسکول چھوڑنے جارہے ہیں۔لیکن سب کے سب قطار در قطار کھڑے ہیں ۔کوئی بھی تو اپنی
منزل کی طرف نہیں جا پا رہا۔سب کے اندر غصہ بھرا ہوا سب کو جلدی ہے سب ایک دوسرے سے
آگے نکلنا چاہتے ہیں۔سو انجانے میں یہ غصہ اپنے ہی کسی بھائی پر نکلتا ہے اور سڑکوں
پر توُ توُ مَیں مَیں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔
"آئیڈیے "والے بھائی ان ہتھیاروں میں کراچی کے عوام کو تو ظاہر ہے دلچسپی نہیں
ہوگی۔آپ کی توپیں اور آپ کی بندوقیں یہ پیارے پیارے راکٹ اسلحے کے تاجر ہی خریدیں
گے۔سو اتنے گنجان شہر میں اتنے قیمتی ہتھیاروں کی نمائش کا کیا فائدہ !بلاوجہ آپ کے
معزز مہمانوں کو ٹو ٹا پھوٹا کراچی نظر آجائے گااور یہاں کی پول کھل جائے گی پھر
سیکورٹی کے مسائل الگ بہتر ہے کہ یہ بندوقیں شہر اقتدار میں ہی رکھ
دیں۔سچی آپ کو اپنی اتنی توانائی ضائیع نہیں کرنی پڑے گی۔جتنی ابھی کرنی پڑ رہی
ہے۔چلیں یہ تو ایک احمقانہ مشورہ ٹھہر ا حقیقت تو یہ کہ ہم آپ کے تہہ ِدل سے شکر
گزار ہیں آپ نے کراچی کو تجاری سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔چھوٹی سی گزارش ہے
اگر تجارتی منافع کا دس فیصد بھی اس اماں باوا کے سائے سے محروم شہر !ہمار ا مطلب
ہے لاوارث شہر کو مل جاتا تو یہاں کی بھی کچھ قسمت بدل جاتی۔
آپ کے "آئیڈیے "سر آنکھوں پر لیکن آپ کے "آئیڈیے "سے کراچی کے شہر ی جس شدید ذہنی
کوفت کا شکار ہو کر نفسیاتی مریض بنتے جارہے اس کا "آئیڈیا "شاید آپ کو نہیں۔۔۔۔۔
کراچی کو اختیار دیجئے۔
کراچی کو تسلیم کیجئے۔
کراچی کے مسائل کو حل کیجئے۔
اس تجاری حب کا منافع اس شہر پر لگایئے۔
آپ کے شاندارآئیدیے کو سلام کرنے میں بھلا ہمیں کیا قباحت ہو سکتی ہے۔ |