آپ بیتی قسط 5

سرسام ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے اس میں انسان کا دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے ایک زندہ لاش بن جاتا ہے انسان اور دوسروں کے رحم وکرم پر ہوجاتا ہے انسان جیسے کوئی پانچ سال سے چھوٹا بچہ ہو سب سے پہلی سٹیج میں انسان روزمرّہ کی چیزیں بھولنا شروع ہوجاتاہے وعدہ کرتا ہے بھول جاتا ہے سبق یاد کرتا ہے بھول جاتا ہے اپنے ساتھیوں یاروں کے نام بھول جاتا ہے رشتے داروں کے نام بھول جاتا ہے رفتہ رفتہ نسیان کا مرض لاحق ہوجاتا ہے نسیان کے بعد مالیا خولیا ہوتا ہے اور اس کے بعد سرسام ہوتا ہے اور سرسام کے بعد کی سٹیچ کو قومہ کہتے
جب چاچا انور آیا تو مجھے کتیجہ { خدیجہ} نے خبردارکردیا اور کہا کہ شہتوت کے درخت کی طرف متوجہ ہو جاو ایسا لگے جیسے ہم شہتوت کھا رہے تھے اور اس نے بھی ٹہنیاں تھام لیں اور چاچے نے ہمیں جھڑکا اور باہر جانے کو کہا لیکن جب چاچے نے میری جانب دیکھا تو اس نے کہا تیری آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہوئی ہوئی ہیں میں کوئی جواب نہیں دے سکا کتیجہ نے چاچے کو جو جواب دیا تھا اس سے چاچا شک میں پڑ گیا کہ یہ دونوں برائی کے ارادے سے یہاں چھپے ہوئے ہیں اس نے کتیجہ سے سوال کیا تو کتیجہ نے کہا چاچا شک نا کر ہم یہاں کھیل رہے ہیں

مجھے چاچے نے وہاں سے بھگا دیا اور میرے جانے کے بعد پتا نہیں کتیجہ نے چاچے سے کیا گفتگو کی تھی مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ اس واقعہ کے بعد کتیجہ کے باپ تایا اسلم اور چاچے انور میں جھگڑا ہوگیا تھا اور یہ جھگڑا کئی سال تک چلا وہ آپس میں بول چال نہیں کرتے تھے لیکن کتیجہ نے میرے اوپر جادو کا سلسلہ جاری رکھا اور مجھے وہ کہتی تھی کہ میں نےیہ جادو تییری امی سے سیکھا ہے میں جو سکول میں ہونہار طالب علم تھا کندھ ذہن ہوتا چلا گیا اس نے ایک گے کے ساتھ مجھے ملایا اور کہا کہ اس کے ساتھ دوستی لگاو اور کہتی تھی کہ اس کے ساتھ بدفعلی کرو میں نے اس کی بات کو نا مانا تو مجھ سے ناراض ہو گئی

یہ انہی دنوں کی بات ہے جب اس نے میرے ساتھ کچھ پیشین گویاں کیں جو پوری ہوئیں اس نے کہا کہ تجھے مسلوں نے محمد بن قاسم بنانا چاہا تھا اور تم دنیا کے سب سے بےوقوف انسان بن گئے ہمارے ہاتھوں مجھے ان دنوں یہ پتا نہیں ہوتا تھا کہ مرزائی کیا ہوتے ہیں اس بات کا تو مجھے بہت دیر بعد پتا چلا کہ مرزائی کیا ہوتے ہیں وہ لوگ مرزائی تھے مگر اپنےآپ کو سنّی کہلاتے تھے ان لوگوں کی سازشوں کی وجہ سے میری زندگی برباد ہوگئی مجھے ہوش ہی نہیں رہتا تھا کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ہے

ایک دن میں باہر کھیلنے گیا اور دوسرے سارے بچے نارملی طور پر کھیل رہے تھے مگر میری آنکھوں میں جلن ہورہی تھی اور میرا کھیلنے سے اور ہوم ورک کرنے سے دل اچاٹ ہو چکا تھا اور میری کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں ہورہی تھی تو کمہاروں کا لڑکا شمس آیا جو مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے اس نے مجھے کہا کہ ہم مرزائی ہیں تجھے تو سرسام ہوگیا ہے تیری ماں نے تجھ پر جادو کر رکھا ہے تیری ماں ہماری شہزادی ہے لیکن جب تک تجھے اس سازش کی سمجھ آئے گی اس وقت تک بگ لوزر بن چکا ہو گا میں خالی خالی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہ گیا تھا
---------------------------------------------------------

سرسام ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے اس میں انسان کا دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے ایک زندہ لاش بن جاتا ہے انسان اور دوسروں کے رحم وکرم پر ہوجاتا ہے انسان جیسے کوئی پانچ سال سے چھوٹا بچہ ہو سب سے پہلی سٹیج میں انسان روزمرّہ کی چیزیں بھولنا شروع ہوجاتاہے وعدہ کرتا ہے بھول جاتا ہے سبق یاد کرتا ہے بھول جاتا ہے اپنے ساتھیوں یاروں کے نام بھول جاتا ہے رشتے داروں کے نام بھول جاتا ہے رفتہ رفتہ نسیان کا مرض لاحق ہوجاتا ہے نسیان کے بعد مالیا خولیا ہوتا ہے اور اس کے بعد سرسام ہوتا ہے اور سرسام کے بعد کی سٹیچ کو قومہ کہتے ہیں اس طرح سے میری صلاحیتوں کو زنگ لگایا گیا اور میں کند ذہن اور فیلئر بن کر رہ گیا ہوں

دشمن اپنی دانست میں میرا کام تمام کر چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے تجھے ٹشو پیپر بنانا تھا بنا دیا ہے اب کرتے پھرو کرل برل کہ میں صاحب کرامت ہوں میں اللہ کا ولی ہوں میں فلاں ہوں میں ڈھمکان ہوں اور دشمنوں میں سر فہرست میری اپنی والدہ ہے اس بات کا احساس مجھے اسِّی سال بعد اب ہوا ہے وہ مجھے ناک اوٹ پہ ناک آوٹ کرتی رہیں اور میں اس بات کو مان ہی نہیں سکتا تھا کہ ایک ماں اس قدر اپنے بچے کی دشمن ہوسکتی ہے اور اس قدر کمزور بنا سکتی ہے مجھے کیچوا بنادیا گیا ہے اور میں بے خبری میں شکار ہوتا چلا گیا اور حتیٰ کہ میں ایک اپاہج کی طرح ہوگیا تھا میرے گردے درد سے بھر گئے تھے اور کمزوری کی وجہ سے میں چارپائی سے بھی نہیں اٹھ سکتا تھا

میں نے اللہ سے دعا کی اے میرے اللہ تو بہتر سبب لگانے والا ہےتیرےسوا میرا کوئی سہارہ نہیں ہے تو ہر چیز پر قادر ہے یا اللہ میرے معاملات درست کردے یہ اچانک مجھے کیا ہوگیا ہے مجھے جب پاگل خانے میں داخل کرایا گیا تھا اس وقت تو میں اتنا کمزور اور لاغر نہیں تھا اب کیا ہوگیا ہے -

یہ اب سے پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے ابھی نومبر 2016 ہے میری دوسری شادی کو سولہ سترہ سال ہوچکے ہیں اورمیں بات یقین سے تو نہیں کہ سکتا کہ میری شادی نومبر میں ہوئی تھی کیونکہ میری ڈائریاں مجھ سے چھین لی گئی ہیں اور جب امیّ دشمن ہو تو ڈائری کیا مال جان عزّت انسان سنبھلے نہیں سنبھال سکتا امّی نے رفتہ رفتہ دوسرے بہن بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیا تھا اور ابّو تو کمال کے اداکار ثابت ہوئے ہیں ابھی تک انھوں نے مجھے خبر ہی نہیں ہونے دی کہ میں بھی امّی اور دوسرے بہن بھائیوں اور دوسرے دشمنوں کےساتھ ملا ہوا ہوں -

آج سے پانچ چھ سال پہلے میں لاہور سے مینٹل ہسپتال سے فارغ ہوکرآیا تھا مجھے ہسپتال میں داخل اس وجہ سے کرایا گیا تھا کہ میں نے اپنے بچوں سے ملنے کی ضد کی تھی ان دنوں میری سابقہ بیوی میرے چار بچوں کی ماں ڈسکہ میں ایک مدرسے میں پڑھاتی تھی اور دو بڑے بچے اپنے ماموں کے پاس حفظ قرآن کر رہے تھے اور چھوٹے دو بچے اپنی ماں کے پاس مدرسے میں رہتے تھے اور وہ سکول میں پڑھتے تھے میں شام کو مدرسے میں آیا تھا اور میں نے کہا میں مدرسے میں ہی سونا چاہتا ہوں اپنے بچوں کے پاس تو میری سابقہ بیوی نے کہا کہ میں اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کیوں کہ مدرسے والوں نے منع کیا ہوا ہے تو پہلے کیا تھا جب میں یہاں سویا کرتا تھا اورکئی بار میں یہاں سو چکا ہوں اور تجھے علیحدہ کمرہ بھی ملا ہواہے میں نے سے سمجھانا چاہا وہ پہلے کی بات تھی اب مدرسےوالوں نے منع کیا ہوا ہےآپ نے بچوں سے ملنا تھا مل لیا ہے اب جائیں اور اپنا کام کریں اس نے کہا

میں اس سے ناراض ہوکر چلاآیا اور کسی نا کسی طرح رات گزاری اور گھر چلا گیااور میرے چھوٹے بھائیوں نے مجھے میری سابقہ بیوی کے کہنے پر لاہور مینٹل ہسپتال میں داخل کرا دیا -

پہلے وہ مجھے لاہور چوبرجی جماعت الدعوہ کے مرکزی دفترمیں لے کر گئے وہاں شعبہ ڈاکٹرز ضلع لاہور کے مسئول صاحب نے کہا کہ کیا مسئلہ ہے اس بھائی کا تو میں پرانا واقف ہوں ڈاکٹر صاحب نے کہا
ہم شہید کے بھائی ہیں یہ ہمارے بڑے بھائی ہیں ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں رہا اس لیے آپ براہ مہربانی ان کو مینٹل ہسپتال میں داخل کرا دیں طارق بولا-

مجھے تو معاملہ اور ہی لگتا ہے مجھے تو لگتا ہے کہ اسے کھانے میں نشیلی اشیاء دی جاتی ہیں آپ لوگ کیوں اس بے چارے کے ساتھ ظلم کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے بغور میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا
نہیں ڈاکٹرصاحب ایسی کوئی بات نہیں ہےہم بھلا ایسا کیوں کریں گے یہ تو ہمارے بھائی جان ہیں ہم تو ان کا بڑا خیال رکھتے ہیں دراصل یہ خود اپنے آپ کو بڑا نقصان پہنچاتے ہیں یہ خود کشی کی بات بھی کرتے ہیں دوسرے بہن بھائی کہتے ہیں کہ ہم پاگل ہوجائیں گے طارق نے کہا -

یہ تو اتنی بڑی بات نہیں ہے بیمار یہ ہیں کہ سارے بہن بھائی ہی بیمار ہیں بھائی طارق یہ کوئی اتنی پختہ دلیل نہیں ہے آپ انہیں گھر لے جائیں اور ان کی خدمت کریں اور ان پر ظلم کرنا چھوڑ دیں ان کو سلو پوائزن اور سلومیجک سے پریشان نہ کریں اور کیا کیا دیتے ہیں آپ لوگ اس بے چارے کو ڈاکٹر صاحب نے طارق اور عبدالعزیزکو سرزنش کی -

آپ کی نوکری خطرے میں پڑسکتی ہے جناب "طارق نے میری طرف دیکھ کر بات روک دی اورڈاکٹر صاحب کو تنہائی میں بات کرنے کا اشارہ کیااور وہ دونوں کمرے سے باہر چلے گئے جاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے چہرے سے ناگواری کے آثار نمایاں تھے
کئی گھنٹوں کے بعد دوبارہ ڈاکٹرصاحب نے مجھے بلایا اور چند سوالات کیے
آپ خود بتائیں کیا مسئلہ ہے ہم اس کا حل نکالیں گے اپنے دل کی بات بتائیں اگر مردانہ کمزوری ہے تو اس کا علاج کرائیں گے یا آپ کی بیوی آپ کو پسند نہیں ہے

جی ہاں میں جنسی جسمانی ذہنی روحانی طور پر بیمار ہوں اور بہت شدید بیمار ہوں میں نے غمزدہ ہو کر کہا
روحانی طور پر بیمار ہیں کیا مطلب " ڈاکٹر"
مجھ پر جادو کیا گیا ہے میعادی جادو " میں "
:وہ کیا ہوتا ہے میعادی جادو پیارے بھائی آپ موحد ہیں آپ کو جادو وادو پر یقین نہیں کرنا چاہیے آپ اذکار کریں قرآن پاک کی تلاوت کیا کریں آپ تو مجاہد آدمی ہیں ان چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے آپ کے سامنے "ڈاکٹر"
میں سب گھر والوں کو تبلیغ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کے اعمال قبول نہیں فرماتا مجھ پر نا ظلم کیا کرو کہیں تم پر اللہ کا عذاب ہی نازل نا ہوجائے"میں"
:کیا ظلم کیا جاتا ہے آپ پر کون کون ظلم کرتا ہے آپ پراپنا کام کریں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالیں سب ٹھیک ہو جائے گا تبلیغ کو ابھی رہنے دیں جب مکمل صحت یاب ہوجائیں گے تو پھر دیکھا جائے گا آپ فکر نا کریں "ڈاکٹر"

میرا چھوٹا بھائی عتیق میری بیوی سے ملنے جاتا ہے میری مرضی کے خلاف اور یہ بات مجھے ہر گز گوارہ نہیں ہے ابوّ سے میں نے کئی بار کہا ہے کہ عتیق کو میری بیوی کے پاس خرچہ دینےکیوں بھیجتے ہیں ناجائز تعلقات ہیں ان کے اور سارے گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ تم خواہ مخواہ شک کرتے ہو-

میں ان سے کہتا ہوں کہ امی نے مجھے چھت پر بھیج کر دروازہ بند کر دیا تھا اور میری بیوی کئی مہینے بعد گھر آئی تھی اور انھوں نے رنگ رلیاں منائی تھیں میں نےاس کو عتیق کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا تھا اور میں نے چھت سے باہر کی طرف اتر کر کھڑکی کے رستے دیکھا تھا اور میں نے باہر والا دروازہ کھٹکھٹایا تھا جب میں اندر آیا کوئی کاروائی کرنی چاہی تو جادوکے زور پرامی نے اور ابو نے مل کر پھر مجھے چھت پر بھیج دیا اورمیں پھر اسی کیفیت میں چلا گیا جیسے سرسام ہو جاتا ہے مجھے ایسا لگا جیسے مجھے کسی جن نے پکڑ لیا ہومیں خوف زدہ سا ہوگیا تھا اور بستر پر لیٹ کرچھت کو خالی خالی نظروں سے گھورتا رہا اور نا جانے کب نیند آگئی تو کیا میں بے غیرت بن کراس ظلم کو برداشت کروں لہذا جب میں ان سے جھگڑتا ہوں کہ کیوں اتنا ظلم کرتے ہیں آپ لوگ آگے سے مجھے دھمکیاں دینا شروع ہوجاتے ہیں تمھیں پاگل خانے داخل کرادیں گے ہم تیری ٹانگیں توڑ دیں گے زہر کھلادیں گے وغیرہ وغیرہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کے لہجے میں جواب دیا
------------------------------------- جاری ہے
محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 40 Articles with 54837 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.