خونی لکیر…… کون توجہ دے گا؟

کنٹرول لائن کے قرب و جوار میں آباد شہری کس قرب سے گزررہے ہیں، اس کا اندازہ گرم نیوز روم میں بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا۔ برنالہ سے تاؤ بٹ تک پھیلی ہوئی طویل خونی لکیر کے مکینوں کا گزشتہ ۲۵ سالوں سے مسلسل خون رس رہا ہے، کہیں بوند، بوند اور کہیں بے شمار خون ۔ نہ کوئی مداوا ہے اور نہ اعداد وشمار۔ کئی سال پہلے قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ سماہنی (ضلع بھمبر، آزاد کشمیر) میں ریڈ فاونڈیشن سکول پر بھارتی جارحیت سے شہید ہونیو الے طلبہ کے والدین سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہ ہوشربا مناظر آج بھی آنکھوں میں ترو تازہ رہتے ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت ۱۹۹۰ ء سے مسلسل جاری ہے۔ وہ کب، کہاں سے شب خون مارتا ہے، اس کی مرضی ہے۔کتنے لوگ اس جارحیت کا شکار ہو چکے،، کتنی املاک تباہ ہوئیں، لاکھوں انسان کس خوف اور قرب میں مبتلا ہیں۔ اس کا جائزہ لینے کا کسی کے پاس وقت نہیں۔ گزشتہ دو ماہ سے تو برنالہ، سماہنی، نکیال، تتہ پانی، ہجیرہ، اور وادی نیلم کے علاقوں میں کنٹرول لائن سے متصل آبادی مکمل طور پر بھارتی فوج کے رحم و کرم پر ہے۔

خونی لکیر پر بھارتی جارحیت کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ تقسیم برصغیر سے جاری ہے اور کشمیر کی آزادی تک جاری رہے گی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ آزادکشمیر کی حکومت نے کبھی بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس کے لیے جو حفاظتی اقدامات کیے جانے تھے، ان پر نہ کبھی سوچا گیا اور نہ کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ خونی لکیر سے متصل ایک کلومیٹر علاقے پر آباد شہریوں کو متبادل جگہ دے کر ان کی محفوظ آباد کاری کا انتظام کیا جاتا۔ خونی لکیر کے قریب بستیوں کو پختہ سٹرکوں سے ملایا جاتا، ہر گاوں میں فرسٹ ایڈ سینٹرز قائم کیے جاتے اور کمیونٹی کو سول ڈیفنس اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جاتی۔ پندرہ سے بیس منٹ کی مسافت پر ایمبولینس سروس کا انتظام کیا جاتا۔ تب کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکتا تھا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بلکہ ایک فیصد بھی توجہ نہیں دی گئی اور حکومت آزادکشمیر آج بھی اس بارے میں کوئی بھی حکمت عملی نہیں رکھتی۔ جس کا واضع مطلب یہی ہے کہ ان لاکھوں شہریوں کی زندگی بھارتی فوج کے رحم و کرم کے سپرد کر دی گئی ہے۔

نوئے کی دہائی میں مجھے اس ایشو پر صدر ریاست سردار سکندر حیات سے ملنے کا موقع ملا۔ میں نے خونی لکیر سے متصل علاقوں میں ایمبولینس سروس شروع کرنے کی تجویز دی تو ان کا کہنا تھا کہ فنڈز کی کمی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ قصر صدارت اور وزیراعظم سیکرٹریٹ سے ایک، ایک مرسیڈیز گاڑی فروخت کرکے ایمبولینس گاڑیاں خریدی جاسکتی ہیں، تب وہ میری بات سن کر مسکرا دئیے تھے۔ آج بھی معاملہ یہی ہے، ہنگامی طور پر ہر انتخابی حلقے کے ترقیاتی بجٹ سے ایک ایمبولینس خریداری کے لیے وقف کیے جائیں تو تیس ایمبولنیس گاڑیاں فوری طور پر خریدی جاسکتی ہیں۔دوسرا اہم مسئلہ سڑکوں کی تعمیر کا ہے۔ کنٹرول لائن سے ملحقہ آبادی کو جب تک پختہ سٹرک سے نہیں ملایا جاتا تب تک وہاں ایمبولینس سروس اور طبی عملے اور رضاکاروں کی رسائی ممکن نہیں ہوگی۔ حالیہ حادثات میں جتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں، اگر انہیں بروقت طبی امداد فراہم کی جاتی تو ان کی جانیں بچ سکتیں تھیں۔ حکومتی عد م توجہی کی بناء پر جو لوگ زندگی کی بازیاں ہا ر رہے ہیں، ان کا خون ان حکمرانوں کی گردنوں پر ہے جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر قومی وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اس میں 1948 سے اب تک اقتدار میں رہنے والے تمام سیاستدان شامل ہیں۔ یہ قومی مجرم ہیں اور انسانیت کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں۔

عوام جہالت کی وجہ سے اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں، جو سیاسی کارکن کچھ جانتے ہیں وہ کرپٹ سیاسی کلچر کے باعث عوامی بہبود کے بارے میں سوچ وچار کے بجائے کمیشن خوری، فائل مافیا اور سیکم مافیا کے چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر آباد شہری بھی انہی کرپٹ لوگوں کا انتخاب کرتے چلے آرہے ہیں، جو گزشتہ نصف صدی سے اس قوم کو جہالت، بے بسی اور بے چارگی سے دوچار کیے ہوئے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم بظاہر کرپشن فری اقدامات کرنے کی کوشش کررہے ہیں، پتہ نہیں کتنے دنوں کے مہمان ہیں کیونکہ اس زمانے میں کرپشن فری کلچر کا چلن نہیں رہا۔ لیکن ان کی توجہ ان سسکتی جانوں تک کیسے مبذول ہوگی۔ یہ تو بھلا ہو عبد الرشید ترابی اور سردار عتیق خان کا کہ انہوں نے کنٹرول لائن کا دورہ کرکے وزیراعظم کو بھی مجبور کردیا کہ وہ ہیلی کاپٹر لے کر چند منٹوں کے لیے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ کرلیں۔

فوری طور پر جن اقدامات کی ضرورت ہے ان میں خونی لکیر سے متصل بستیوں میں کمیونٹی کی شمولیت سے ’’فوری طبی امداد مراکز‘‘ کا قیام اور سوفیصد شہریوں کو سول ڈیفنس اور فوری طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کی تربیت اور فرسٹ ایڈ کٹ کی فراہمی ہے۔ یہ مراکز نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کی عمارتوں کے علاوہ مقامی آبادی کے کسی گھر میں بھی قائم کیے جاسکتے ہیں، جو رضا کارانہ طور پر عوام دینے کو تیار ہوں گے۔ اسی طرح غیر سرکاری تنظیموں کے اشتراک سے دو سے تین ماہ کے اندر تمام آبادیوں میں سول ڈیفنس اور فوری طبی امداد کے کورسز کروائے جاسکتے ہیں تاکہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرکے انسانوں کی جانیں بچائی جاسکیں۔ میری اطلاعات کے مطابق الخدمت فاونڈیشن
نے حکومت کو اس کی پیشکش کر رکھی ہے کہ اگر حکومت فرسٹ ایڈ کٹ کی فراہمی اور متعلقہ محکموں کے تعاون کو یقینی بنائے تو الخدمت فاونڈیشن مقامی آبادیوں میں فرسٹ ایڈ سینٹر قائم کرنے اور شہریوں کو فوری طبی امداد کی تربیت دینے کا کام سرانجام دے سکتی ہے۔

سابقہ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت پر ماتم خوانی کے بجائے انسانی جانوں کو بچانے کے لیے پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور بتدریج اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بدقسمتی سے حکومت کے پاس تجاویز مرتب کرنے کے لیے پٹواریوں کے علاوہ کوئی متبادل انتظام بھی نہیں۔ سرکاری ملازمین رشوت اور مفت خوری کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ خونی لکیر پر آباد شہریوں کے تحفظ کے لیے غیر سرکاری تنظیموں اور اعلیٰ مہارت رکھنے والے مشاورتی اداروں کے اشتراک سے ہنگامی بنیادوں پر لائحہ عمل مرتب کرے ، بصورت دیگر بھارتی فوج آئے روز ان کی جانوں سے کھیلتی رہے گی اور بے گناہ شہری بھارتی فوجیوں کی نشانہ بازی کا ذریعہ بنتے رہیں گے۔
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105310 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More