آج کل ملک میں تین طلاق پر بحثیں چھڑی
ہوئی ہیں۔ اور اس میں مختلف قسم کے لوگ شریک ہورہے ہیں، ان میں زیادہ
ترتعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے ، جنہیں اس مسئلے کی الف ب تک کا پتہ نہیں
ہوتا ، مگر وہ اس مسئلے پر بے تکان بولتے ہیں ۔ایسا لگتا ہےجیسے انہیں
قرآن وحدیث، تفسیراصول تفسیر ،حدیث اصول حدیث اور فقہ اصول فقہ جیسے ان
اسلامی علوم و قوانین اور ان کے اصول و مبادیات پر پورا عبور حاصل ہو ۔یہ
خالص اسلامی اور فقہی مسئلہ ہے جسے علماء پر چھوڑدینا چاہئے یا کم از کم وہ
افراد اس بحث میں شریک ہوں جو اسلامی علوم خاص طور پر فقہی مسائل سےمنسلک
ان عائلی قوانین و معاملات پر اچھی گرفت رکھتے ہوں ۔ہم یہ بات پورے وثوق سے
کہہ سکتے ہیں کہ تمام مسالک کا مآخذقرآن و احادیث رسولؐ ہی ہے لیکن کچھ
مسائل ایسے بھی ہیں جن میں مختلف مسالک کے مابین شدیدیا خفیف اختلافات
موجود ہیں اور ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ تمام مسالک کے ائمہ کرام اپنی
اجتہادی کوششوں میں مخلص بھی ہیں ان میں سے کسی کا منشاء ہرگز یہ نہیں ہے
کہ وہ قرآن اور احادیث رسولؐ سے انحراف کی جرأت کرسکے ۔
یہ خالص اسلامی اور اس کےپیروکاران کا اندرونی مسئلہ ہے جس پر ۱۴سو سال سے
بلا کسی نزاع کے اپنے اپنے مسلک کے اعتبار سے عمل ہورہا ہے۔اسی طرح سے ملک
کے دیگر مذاہب میںبھی اپنے اپنے ذاتی اختلافات ہیں اور یہ سبھی مذاہب برسہا
برس سے اپنے اپنے پرسنل لا کے دائرے میں رہ کر مسائل کا نمٹارہ کرتے ہیں
اور ہندوستانی آئین کی رو سے سبھی مذاہب کو یہ حقوق بھی دیئے گئے ہیں کہ
وہ سارے مذہبی معاملات اپنے اپنے پرسنل لا کے دائرہ کار میں رہ کر کریں۔
اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم پرسنل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں
مختلف مسالک کے علماءو ذمہ داران کو نمائندگی دی گئی ہے ،عجیب بات ہے کہ سب
کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا مگر سنگھ پریوار کو یہ اتحاد و یکجہتی پسند نہیں
آئی اس نے یکساں سول کوڈ اور تین طلاق کا مسئلہ اٹھاکر اس اتحاد کو پارہ
پارہ کرنے کی ٹھان لی ہے ۔لیکن مسلمان مکمل طور پر مسلم پرسنل لا بورڈکے
ساتھ ہیں اور اس ضمن میں بورڈ کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں
میں اجلاس کئے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رہے
اور دوسروں کو اسلام اور شریعت محمدیہ میں بے جا مداخلت کا موقع نہ مل سکے
۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں بابری مسجد کے انہدام کی صورت میں
جمہوریت کا دن دہاڑے گلا گھونٹ دیا جاتا ہو اور مسلمانوں کی جانب سے احتجاج
کی صورت میں انصاف کی فراہمی کے عوض ہولناک فسادبرپا کرکے ان پر مظالم کے
دروازے کھول دیئے جائیں۔آج بھی نہ صرف یہ کہ وہ قضیہ باقی ہے بلکہ فسادات
کی نذر ہونے والوں کو بھی انصاف سے محرو م رکھا گیا ہے ۔جس ملک میں دادری
کے ایک گھر میں گھس کر محض گائے کے گوشت کے شبے میںاخلاق کو مار مار کر
ہلاک کردیا جاتا ہو اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ بھی مظالم ڈھائے جاتے ہوں
۔جس ملک میں سنگھ پریوار کے افراد کو اس بات کی کھلی چھوٹ ہو کہ وہ
مسلمانوں کے سارے معاملات میں مداخلت کریںاور ان پر طرح طرح کے غیر آئینی
الزامات عائد کرکے حیران کریں اور پولس ان کی شہ پر غنڈہ گردی کرتی پھرے
۔جس ملک میں محسن انسانیت پیغمبر اسلام ؐپر بیہودہ اور اخلاق سوز الزامات
لگاکر آئے دن مسلمانوں کی دل آزاری کی جاتی ہواور احتجاج کرنے پر ان پر
لاٹھیاں برسائی جائیں ۔جس ملک میں مسلم نوجوانوں پر الزامات کی بوچھار کردی
جائے ،ان پر جھوٹے مقدمات قائم کئے جائیں ۔اس ملک میں یکساں سول کوڈ اور
طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھاکر مسلمانوں کو پریشان کرنے کا واحد مقصد اس کے
سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہاں جمہوری نہیں جبر کا نظام قائم ہے جس کے زور
پرہندومسلم منافرت پیدا کرکے فسطائیت وفرقہ پرستی کا ہولناک مظاہرہ کیا
جائے تاکہ آنے والے انتخابات جیت لئے جائیں ۔
یکساں سول کوڈ کا معاملہ اس سے قبل کانگریس کے دور حکومت میں بھی اٹھایا
جاچکا ہے۔اس سلسلے میں سابق مرکزی وزیر عارف محمدخان نے کانگریس کی آرزو
پوری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب
سے بھرپور اجتماعی اور دفاعی اقدامات نے حکومت کو قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور
کردیا ۔آج ملک کوانہی فسطائی طاقتوں نےپھر اسی مقام پر واپس لا کھڑا کردیا
ہے اورآج پھر مسلم پرسنل لا بورڈ پوری مستعدی کے ساتھ سینہ سپر ہوگیا
ہے۔اس ضمن میں جگہ جگہ اجلاس ہورہے ہیں اور پورے ملک میں دستخطی مہم جاری
ہے ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ کچھ نام نہاد مسلم خواتین و حضرات بھی فسطائیت کی
ہمنوائی میں مصروف ہیں جن کا مقصدحصول آسائش کے سوا کچھ نہیں جن کی
آنکھیں سرکاری ترغیبات نے چکا چوندھ کردی ہیں ، انہیں خود کے سوا کچھ اور
نظر ہی نہیں آتا ۔ایسے میں ملت کے ہر فرد کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ
وہ ہر ممکن حد تک تحفظ شریعت کیلئے کمر بستہ ہوجائے اور اپنے فروعی
اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد کا مظاہرہ کرے ۔کیونکہ آج ملک کو
یکساںسول کوڈ کی نہیں یکساں انصاف کی ضرورت ہے ۔ |