29 نومبر کو بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل
شریف کی مدت ملازمت کا آخری دن ہے ۔ دو روز قبل وزیر اعظم ہاوس میں آرمی
چیف کو پرتپاک انداز میں رخصت کرنے کیلئے الوداعی عشائیہ کا اہتمام کیا گیا
تھا ۔ تقریب میں بادشاہ سلامت میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف نظر
نہیں آئے اور نہ ہر حکومت کی اتحادی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے
دیدار کا موقع ملا ۔ ویسے تو مولانا صاحب ہر تقریب میں نواز شریف کی بغل
میں پایا جاتے ہیں ۔
کل کی پوری تقریب دیکھنا کا اتفاق ہوا اور بہت سے سوالات نے ذہین میں جنم
لیا ۔
اول تو یہ کہ جنرل راحیل شریف صرف شاہی شریف فیملی یا صرف مسلم لیگ کے
حامیوں کے آرمی چیف نہیں بلکہ جنرل صاحب پانچوں صوبوں سمیت پورے پاکستان
کی عوام کے آرمی چیف ہیں ۔ تو پھر جنرل صاحب کو الوداع کرنے کی تقریب میں
صوبوں کے وزیر اعلیٰ اور اپوازیشن کی سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک
انصاف اور پپیلز پارٹی کے رہنماوں کو کیوں نہیں بلایا گیا ؟
وہ بھی تو عوام کے منتخب نمائندے تھا اور اس ملک کی پارلیمنٹ کا حصہ تھے ۔
ویسے تو نواز شریف جلسوں اور عوام کے ساتھ اکھا دکھا جو انہوں نے خطاب کیا
ہیں اُن میں ملک میں قوم کے اتحاد اور قومی یکجہتی کی بڑی تبلیغ کرتے نظر
آتا ہیں ۔ کبھی ملکی ترقی کیلئے قومی یکجہتی کو لازم و ملزم قرار دیتا ہیں
اور کبھی ملکی سلامتی کے لیے قوم کے اتحاد کو بنیادی جز ٹھہراتے ہیں ۔
دانیال عزیز اور طلال چوہدری بھی عمران خان کو آئے دن پریس کانفرنس کرکے
قوم کو تقسیم کرنے کے طعنہ تو دیتا ہیں لیکن کبھی اُن نے اپنے لیڈر نواز
شریف پر نظر نہیں ڈالی اور نہ ہی اپنے گربیان میں دیکھ ہے کہ ہمیشہ قوم کے
اتحاد کی دیوار کو مسمار کرنے میں ہمارے وزیراعظم کے احکامات اوردانیال
عزیز اور طلال چوہدری کے بیانات نے اہم قرار ادا کیا ۔
کل کی تو بات ہے جب پانامہ کے مسئلہ پر احتجاج کرنے اسلام آباد آنے والے
خبر پختونخواہ کے منتخب وزیر اعلیٰ کے قافلے کو قومی یکجہتی کا درس دینے
والوں نے نہ صرف روک بلکہ اُن کو اندھا دھند ربڑ کی گالیوں مار کر قومی
یکجہتی کی دھجیاں اُڑ دیں تھیں ۔ اور اب آرمی چیف کی الوداعی عشائیہ میں
دوسرے صوبوں کے وزیر اعلی ٰ کو نہ مدعو کرکے صوبائیت پرستی کو ہوا دی گئی ۔
اور رہی بات کہ شہباز شریف کیوں نہیں آئے تو شاید بڑے میاں اُنہوں خود
آنے سے روک دیا ہو کہ جنرل صاحب کو اُن کا چہرہ مبارک دیکھ کر ڈان نیوز
والا معاملہ یاد نہ آجائے اور رنگ میں بھنگ نہ ملا جائے ۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کو جلا وطنی کے بعد میاں نواز شریف نے انٹرویو دیتے ہوئے
کہہ تھا کہ اگر کبھی وزیر اعظم جی ایچ کیو میں چلا جائے تو یہ جنرل ٹوپی
بھی اس لیے نہیں پہنتے کہ وزیراعظم کو سیلوٹ نہ کرنا پڑے اور جنرلز کے اس
ٹولے نے وزیر اعظم کا احترام کرنا نہیں سیکھا ہے ۔
لیکن کل جب وزیراعظم کے گھر جنرل راحیل شریف ، جنرل عاصم باجوہ سمیت کسی
بھی جنرل نے ٹوپی نہیں پہنی تھی ، کیا وزیراعظم کو تب اپنی عزت کا خیال
نہیں آیا ؟
یا پھر میاں صاحب اس بار آرمی چیف کے ہاتھوں قربانی کا بکرا نہ بننا کی
خوشی میں اپنی عزت پر آنچ کو برداشت کرگئے ہیں ؟
ویسے کہتے بھی ہیں ناں کہ اقتدار کی کرسی آدمی کو ایمان اور عزت کی پرواہ
سے محفوظ کر لیتی ہے ۔
|