جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے خوف !
(Muhammad Anwar, Karachi)
پاکستان آرمی کے جنرل راحیل شریف 29نومبر
کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ قریب آنے
کے باوجود آئندہ کے سپہ سالار کی نامزدگی نہیں ہوسکی ۔یہ بھی پہلی بار
ہورہا ہے کہ کسی جرنیل کی ریٹائرمنٹ کے دن قریب آنے پر ملک کے عوام کی
اکثریت خصوصاََکراچی کے شہریوں میں انجانا خوف پایا جاتا ہے۔ملک کے سب سے
بڑے شہر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ آرمی چیف کی سخت پالیسیوں کے باعث ہی
کراچی میں کم و بیش 25سال بعد گزشتہ تین سال سے امن و امان کی صورتحال بہتر
ہے اور روشنیوں ں کے شہر کی احیاء ہونے لگی ہے۔ شہریوں کو ڈر ان خدشات کے
باعث ہے کہ نئے آرمی چیف کہیں دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف جاری
آپریشن کوختم نہ کردیں یا اس میں نرمی نہ کردیں یا سیاسی مصلحتوں کے باعث
آپریشن کے سارے عمل پر نظرثانی نہیں کردیں۔کراچی کے شہریوں میں فوجی قیادت
کی تبدیلی کے دن قریب آنے کی وجہ سے خوف اس لیے نہیں ہے کہ شہر میں امن و
امان ہوگیا تھا بلکہ اس لیے ہے کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں انہوں نے کھل
کر ایک’’ سیاسی جماعت ‘‘ کی عسکری کارروائیوں کے خلاف بولنا شروع کیا تھا
اور آپریشن کی حمایت کی تھی ۔کراچی آپریشن کی حمایت کرنے والے افراد اب دبے
الفاظ میں اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ اگر آپریشن میں نرمی کی گئی یا
رینجرز کو جاری کارروائیوں سے روکا گیا تو کہیں ’’ٹارگٹ کلرز‘‘ دوبارہ فعال
نہ ہوجائیں ۔ ایسی صورت میں یہ کلرز انہیں بھی اپنی ہدف لسٹ میں شامل
کرسکتے ہیں ۔ ایسا ہوا تو انہیں شہر سے منتقل ہونا پڑے گا۔
وزیراعظم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو سب سے اچھا کام کیا تھا
وہ عوام کی نظر میں جنرل راحیل کی بطور آرمی چیف تقرری تھی۔وزیر اعظم نے
انہیں 29نومبر 2013کو آرمی چیف بنایا تھا۔29نومبر2016 کو راحیل شریف اپنی
مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائرڈ ہورہے ہیں ۔اپنے اصولوں کے تحت جنرل راحیل کی
مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ ان کی ذات کے لیے تو بہتر ہے مگر
موجودہ حالات میں کسی طور پر بھی ان کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ ملک اور قوم کے
لیے غیرمناسب قدم لگ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی بار کسی جرنیل کی ریٹائرمنٹ
کے فیصلے سے قوم اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ راحیل شریف کو ریٹائرمنٹ
نہیں لینی چاہیے بلکہ وزیراعظم کو خود ان کی مددت ملازمت میں اپنے اختیارات
اور ملک و قوم کی ضرورت کے تحت ان کی ملازمت میں توسیع کردینی چاہیے ۔ اگر
وزیراعظم ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کا راحیل شریف کی بحیثیت آرمی چیف تقرری
کے پہلے اچھے فیصلے کے بعد موجودہ دور کا دوسرا بہترین اقدام ہوگا۔اطلاعات
ہیں کہ حکومت راحیل شریف کی خدمات صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کی ریٹائرمنٹ
کے ساتھ ہی بحیثت فیلڈ مارشل حاصل کرلے گی ایسی صورت میں بھی قوم کی نظر
میں حکومت کے اقدام کو سراہا جائے گا۔ کیونکہ قوم کی خواہش ہے کہ جنرل
راحیل کسی بھی روپ میں عسکری قوت کے سپہ سالار بدستور رہیں اور اپنی تین
سالہ پالیسیوں کو شہروں سے آخری دہشت گردوں کے خاتمے تک جاری رکھیں۔غیر
جمہوریت پسند لوگوں کے ساتھ جمہوریت پسندوں کا بھی اس بات پر اتفاق نظر آتا
ہے کہ راحیل شریف کی ابھی قوم کو ضرورت ہے ۔ اور یہ ضرورت اس جمہوری حکومت
سے زیادہ ضروری ہے جو اپنے اوپر کرپشن کے ایک سے زائد الزامات لگاکر اور
عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے باوجود مزید حکمرانی کے لیے’’
چاق و چوبند‘‘نظر آتی ہے۔حالانکہ پوری قوم کے ساتھ ملک کی اپوزیشن اور دیگر
سیاسی جماعتیں بھی حکومت سے نا خوش ہیں۔
جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کا دن قریب آنے کے ساتھ پیپلز پارٹی پارلیمنٹ کے
سربراہ آصف زرداری کے فعال ہونے اور کراچی میں تین سال سے پریشان حال ایک
سیاسی جماعت کے سر اٹھانے سے بھی قوم ششدر نظر آتی ہے۔آصف زرداری 25جون
2015کو اچانک ہی دبئی روانہ ہوگئے تھے ۔ اس سے قبل 17جون کو انہوں نے کرپشن
کے خلاف رینجرز کی کارروائی پر ’’ اینٹ سے اینٹ بجانے ‘‘ کی دھمکی دی تھی
اور فوجی جرنیلوں کے خلاف سخت تنقید کی تھی۔خیال ہے کہ آصف زرداری یہ
سمجھتے ہیں کہ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی انہیں یہ یقین ہوگیا کہ
اب ان کے لیے ’’ خطرات ‘‘ ٹل جائیں گے اور دوبارہ سے اپنی وہ تمام سرگرمیاں
اسی طرح شروع کردیں گے جسے ختم کرکے وہ ملک چھوڑ گئے تھے ۔آصف زرداری کی
جانب سے ملک واپسی کا اعلان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ آرمی چیف اور ان
کی پالیسیوں سے پریشان ہوکر ملک چھوڑ گئے تھے ۔ سوال یہ ہے کہ آصف زرداری
کی ایسی کیا سرگرمیاں تھی کہ انہیں ایجنسیوں کی جانب سے کارروائی کا ڈر تھا
اور اس ڈر کے باعث انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی کھلی دھمکی دی مگر دھمکی
کے اثرات خود ہی برداشت نہ کرسکے تھے۔
آصف علی زرداری ایک طرف تو جرنیلو ں کو ددھمکی دیا کرتے ہیں تو دوسری طرف
اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں سابق چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی
کوتوسیع دینے سے ہماری حکومت مضبوط ہوئی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے
اپنی حکومت کے فائدے کے لیے سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی
تھی ۔ممکن ہے اسی احسان کے بدلے میں اشفاق کیانی نے آرمی کو سیاست سے دور
رہنے کا حکم جاری کردیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں آصف زرداری کی قیادت میں
موجود پیپلزپارٹی کی حکومت میں کرپشن کے ایسے الزامات سامنے آئے جو آج تک
احتساب عدالتوں میں چل رہے ہیں۔اگر سابق آرمی چیف پیپلز پارٹی کے دور حکومت
میں کرپشن کو دیکھنے کے باوجود اسے سیاسی معاملہ کہہ کر آنکھیں بند نہیں
کرتے تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم اور وزرا کے خلاف کرپشن
کے مقدمات اب تک نہیں چل رہے ہوتے بلکہ قانونی گرفت کے ڈر سے کرپشن بھی
نہیں ہوپاتی ۔
لوگ کہتے ہیں کہ جنرل راحیل نے اپنے دور میں کیا ایسا کارنامہ کیا کہ قوم
ان سے مطمین ہے ۔ دنیا مانتی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل کی دہشت گردوں کے
خلاف سخت پالیسیوں کی وجہ سے 2006کے بعد2013سے دہشت گردی کے واقعات میں
70فیصد کمی رونما ہوچکی ہے ۔ملک کا سب سے بڑا شہر جو ہر چند دن بعد ایک
سیاسی جماعت کے احتجاج کے 25سال پرانے سلسلے کے باعث بند ہوجایا کرتا تھا
اور جہاں قانون کا نہیں بلکہ خطرناک ٹارگٹ کلر کا راج تھا کراچی آپریشن سے
ختم ہوا ۔جنرل راحیل کے اقدامات کی وجہ سے حکمرانوں کو مزید لوٹ مار کا
موقع نہ مل سکا ۔ انہوں نے ملکی مفاد میں ہر بڑے فیصلے میں عسکری قیادت کی
موجودگی کو لازمی قرار دیا۔ پاک چین رہداری منصوبے پر عملی کام کا آغاز بھی
فوج کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی وجہ سے ممکن ہوسکا ۔ آرمی چیف نے کسی
دوسری آرمی سربراہ کے مقابلے میں پہلی بار رواں سال اپریل میں 13آرمی
افسران کے خلاف سخت کارروائی کی۔ان بہترین اقدامات کے بوجود بلاوجہ تنقید
کرنے والے جب جنرل راحیل کے اقدامات پر سوال اٹھاتے ہیں تو پھر دل چاہتا ہے
کہ ان سے پوچھا جائے کہ آپ کیا چاہتے تھے کہ ’’ جنرل راحیل مارشل لاء نافذ
کرکے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے اور آمریت کا ایک نیا دور شروع کردیتے ؟؟
یقین ہے کہ جنرل راحیل کے اقدامات اور پالیسیوں کا سلسلہ آنے والی حکومتیں
بھی نہ چاہنے کے باوجود جاری رکھیں گی کیونکہ جنرل راحیل نے ثابت کیا کہ
اگر ارادے نیک ہو تو سب کچھ ممکن ہوجاتا ہے۔ |
|