کیا بنگالی آزاد ہیں؟

مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکربنگلہ دیش بن گیا۔ہماری قومی تاریخ کا یہ سب سے بڑا سانحہ تھا۔ اس کے باوجود کہ اس سانحہ کے تمام نمایاں منصوبہ ساز، غدار، منافقین، باغی اور ہیرو اس دنیا میں نہیں رہے، مگر دونوں ممالک کے درمیان آگ چاردہائیاں گزرجانے کے بعد اسی شدت سے بھڑک رہی ہے ۔ وہ طاقت جس نے اس آگ کو سلگایا، بھڑکایا، جلایا اور ہمارا ایک حصہ خاکستر کردیا، آج بھی اس کے شعلے بجھنے نہیں دے رہا۔ وہ اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ ایسے ایسے بہانے تراشتا ہے کہ دونوں ممالک اس آگ کی بھٹی میں جلتے اور سلگتے رہیں اور وہ باہر بیٹھ کرمحوِ تماشا رہے۔ اس نے یہ آگ قیام پاکستان کے وقت ہی بڑھکانا شروع کردی تھی۔ کبھی فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش کی تو کبھی قومیت کے جذبات کو پروان چڑھایا۔ مشرقی پاکستان میں اس نے محرومیوں کے کانٹے بوئے جو سیاسی ہٹ دھرمیوں اور ضد سے اس قدر زہریلے اور نوکیلے ہوگئے کہ اس نے قومی سلامتی کو تار تار کرکے رکھ دیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے ہر قسم کا ہتھکنڈہ استعمال کیا۔ ایک خودمختار اور آزاد ملک کی سرحدی حدود کی پامالی کی، وہاں خفیہ سرگرمیوں کی پشت پناہی کی بلکہ مکتی باہنی کے روپ میں اپنے ایجنٹ بھیجے۔ اس طرح پاکستان توڑنے کی کوشش میں وہ کامیاب ٹھہرا۔

بنگالیوں نے پاکستان سے تو ’’آزادی‘‘ حاصل کرلی مگر اب بھارت کی ’’قید‘‘ میں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ان کی آزادی، خودمختاری، عزت نفس اور وقار قائم تھا، مگر علیحدہ ہوکر وہ بھارت کے زیر تسلط آگئے ۔ ان کی خارجہ پالیسی اپنی ہے نہ دفاع۔ بھارتی تسلسل اور اثرورسوخ اس کی بیوروکریسی اور سیاست میں رچا بسا ہے۔ اس طرح وہاں کے باسیوں کی انا کا ہر روز سودا کیا جاتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے عوام سے پہلی زیادتی یہاں بیرونی عناصرکو بسا کرکی تھی۔ دوسری زیادتی پاکستان کو توڑنے کراور تیسری زیادتی اس زمین کے ٹکڑے کو بھارت کے قدموں میں ڈال کر کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مشرقی پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی ایسی تعداد بھی کم نہیں تھی جو قائد اور اقبال کے پاکستان سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتے تھے۔ وہ بیرونی عناصر کی مداخلت کو وہ براجانتے تھے اور سب سے بڑھ کران سے مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی ایجنٹوں نے جو غیر انسانی سلوک کیا اسے آج بھی وہ فراموش نہیں کرسکے۔آج سال 45سال بعد بنگلہ دیش کے حالات پھراسی ڈگر پر چل رہے ہیں جیسا کہ بھارت چاہتا ہے۔ بنگالیوں کو پھر سے ایک دوسرے کے خلاف دست و گریبان کیا جارہا ہے۔

حسینہ واجد بھارتی لابی کے زیر اثر نہ صرف بنگلہ دیش کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے بلکہ وہاں موجود اسلامی جماعتوں کے وجود کے خلاف ہے۔دوسرے الفاظ میں وہاں مکتی باہنی پھر وجود میں آگئی ہے ۔ بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر ان افراد اور تنظیموں کے خلاف جابرانہ کریک ڈاؤن شروع کردیا گیا ہے جنہوں نے متحدہ پاکستان کی حمایت کی تھی اور وہ بھارتی مداخلت کے خلاف تھے۔بہت سوں کو تو تخت دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے ۔اس سلسلے میں ایک جو ٹربیونل قائم کیا گیا اس کی ’’انصاف دوستی‘‘ کا پول دنیا بھر میں کھل چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے لیڈرز پھانسی دے دی گئی۔ اس کے ردعمل میں بنگلہ دیش میں شدید مظاہرے کئے گئے اور تقریباََ نظام زندگی معطل ہوکر رہ گیا۔ اس طرح بنگلہ دیش میں پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے مگر حسینہ واجد حکومت ان کے نتائج کو نظرانداز کررہی ہے۔ بنگلہ دیش آج بھی بھارتی لابی کے زیر اثرااس پراپیگنڈے کوہوا دے رہا ہے کہ پاک فوج نے یہاں ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے اور لاکھوں انسانوں کا خون بہایا لہٰذا پاکستان باقاعدہ طور پر اس ظلم وتشدد پر بنگالیوں سے معافی مانگے۔ اس طرح دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے جو اقدامات پروان چڑھائے گئے تھے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

بہرحال جن اعدادوشمار کو بنیاد بنا کر پاکستان سے معافی کا تقاضا کیا جارہا ہے وہ ناقابل یقین ہیں اورکئی عالمی مبصرین اور خود بنگلہ دیش کے کئی مصنفین انہیں حقائق سے ماوریٰ قرار دے چکے ہیں۔معروف مصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی تصنیف Dead Reckoning میں مشرقی پاکستان میں ’’قتل عام‘‘ کی کہانیوں کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھ کرایسے الزامات کو رد کردیا ہے۔ مصنفہ نے اعتراف کیا ہے کہ 1971ء کے واقعات کو ایسا قصہ بنا کر پیش کیا گیا کہ بنگالیوں کی کئی نسلوں میں پاکستان کے خلاف نفرت کے بیج بو دیئے گئے۔ جو بھی یہ سنتا، اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے مگر جب ان کی تصدیق اور حوالے کی بات کی جاتی تو سب کا سر نفی میں ہلتا۔اسی طرح ڈاکٹر سجاد حسین جو اس وقت ڈھاکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلرتھے جب ’’را ‘‘کی زیر نگرانی مکتی باہنی مشرقی پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں سرگرم عمل تھی، اپنی کتاب ’’شکست آرزو‘‘ میں تیس لاکھ افراد کے قتل عام کی حقیقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ڈھاکہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’مارننگ سن‘‘ کے ایڈیٹر نور الاسلام پاکستان کے حمایتی نہیں تھے مگر انہیں بھی یہ کہنا پڑا کہ3 ماہ میں 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کو یقینی بنانے کے لئے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا‘‘……وہ مزید انکشاف کرتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کے دور میں ایک سروے کیا گیا تھا، مگر ابتدائی نتائج ’’حوصلہ افزا‘‘ برآمد نہ ہونے کی وجہ سے اسے ترک کرنا پڑا‘‘۔ گویا 30 لاکھ افراد کی ہلاکت کے الزام کو شیخ مجیب الرحمن حکمران بن کر بھی ثابت نہیں کر سکا۔

شیخ مجیب الرحمن تو ایک طرف ان کہانیوں کو بھارتی لابی، تھنک ٹینکس بھی ثابت نہ کرسکے یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں اور اداروں نے کبھی بھی اس پراپیگنڈے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ تاہم ہمارے کچھ لوگ انسانی حقوق کے نام پر ان کے اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں ان کی مدد ضرور کررہے ہیں اورمعافی مانگنے پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ان نام نہادچیمپئنز سے کوئی پوچھے کہ بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکانا، انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟ بنگلہ دیش کی حکومت کو چاہئے کہ وہ بھارت سے آزادی حاصل کرکے اپنی خودمختار خارجہ پالیسی ترتیب دے۔ خود اپنے ملک میں مخاصمت کے بیج بوئے نہ پاکستان مخالف روش اختیار کرے۔ اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں، دنیا کہیں سے کہیں نکل گئی لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اس سرنو تعلقات استوار کریں اور ایسی طاقتوں کی حوصلہ شکنی کریں جو ان کے درمیان غلط فہمیاں اور مخاصمت کو ہوا دے رہی ہیں۔
ibn-e-shamsi
About the Author: ibn-e-shamsi Read More Articles by ibn-e-shamsi: 55 Articles with 38867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.